تفسیر سورہ یسین

** سورہ یسین کی فضیلت **

* سورہ یسین میں اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے بعد کا نقشہ کھینچا ہے اور انسان کی پیدائش کو واضح کیا ہے اور یہ کہ اللہ موت کے بعد بھی انسان کو دوبارہ ذندہ کرنے پر قادر ہے۔ 


* اس سورہ میں کفار ومشرکین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کفر سے باز آجاؤ اور ایمان والوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے کہ حق بات پہنچا نا تمہاری ذمہ داری ہے تاکہ کوئی گمراہی کی زندگی نہ گزارے۔۔


* اس سورہ میں رسالت محمدی پر ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔


* حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ آپ نے فرمایا۔۔۔

" جس طرح ہر چیز کا دل ہوتا ہے اسی طرح قرآن کریم کا دل سورہ یسین ہے" 


 یاسین شریف کوقرآن کریم کا دھڑکتا ہوا دل اس لئے فرما یا گیا ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کیا گیا ہے جس سے انسان کے اندر کا جمود ٹوٹتا ہے اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔


* حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ۔۔۔۔

" یہ سورت اپنے مرنے والوں پر پڑھا کرو موت کی سختی آسان ہوتی ہے اور مرنے کے بعد بھی بعد کے مراحل آسانی سے طے ہوتے ہیں"


مرنے والوں پر پڑھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آجا ئے اور وہ جان لے حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔


* حاجات کو پورا کرنے میں اس سورہ کا ثانی نہیں ہے۔ 


* حدیث کے مطابق جو انسان اپنے دن کے شروع میں اس سورہ کو پڑھ لے اللہ اس کے دن بھر کے تمام کاموں کی کفایت فرما ئے گا۔ اس کے کام غیب سے پورے ہوتے رہیں گے۔


* یہ سورہ مبارکہ غموں سے چھٹکارا دلاتی ہے مسائل کے حل میں بیمثال ہے۔ جو شخص سورہ یسین پڑھ کر اللہ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو پورا فرمائے گا۔


* بعد نماز فجر سورہ یسین تین مرتبہ پڑھے چند دنوں تک مسلسل پڑھنے سے جو بھی حاجت ہوگی انشاء اللہ پوری ہوگی۔


* جو شخص ایک مرتبہ سورہ یاسین پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس قرآن پاک پڑھنے کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔


* اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یسین اور سورہ طحہٰ کو آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے پڑھا جب فرشتوں نے سنا تو کہنے لگے


" خوشحالی ہے اس امت کے لئے جن پر یہ قرآن اتارا جائے گا اور خوشحالی ہے ان دلوں کے لئے جو اس کو اٹھائیں گے یعنی یاد کریں گے اور خوشحالی ہے ان زبانوں کے لئے جو اس کی تلاوت کریں گے"


* حدیث شریف میں آتا ہے۔۔۔

" جو سورہ یسین کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پڑھے اللہ اس کے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے" 


 * یہ سورہ اپنے پڑھنے والے کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں پر مشتمل ہے دنیا و آخرت کی مصیبتوں کو دور کرتی ہے۔


* سورہ یسین مومنوں کے رتبے بلند کرنے والی اور کافروں کو پست کرنے والی ہے۔


* حدیث مبارک میں ارشاد ہوتا ہے۔ 

" میرا دل چاہتا ہے کہ سورہ یسین میرے ہر امتی کے دل میں ہو۔۔۔ یعنی زبانی یاد ہو" 


* ارشاد رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے

" جس نے سورہ یسین کو ہر رات میں پڑھا پھر مرگیا تو شہید مرا۔ اللہ اس کو شہادت کے رتبے پر فائز فرمائے گا"


* ایک روایت میں آ تا ہے۔۔۔

" جو سورہ یسین کو پڑھتا ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔۔۔۔ جو بھوک کی حالت میں پڑھتا ہے سیراب ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ جو راستہ گم ہونے کی صورت میں پڑھتا ہے وہ راستہ پالیتا ہے۔۔۔۔۔ جو شخص کسی چیز کے گم ہونے کی صورت میں پڑھتا ہے اسے گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔۔۔۔ جو ایسی حالت میں پڑھے کہ کھانا کم ہونے کا خوف ہو تو وہ کھانا کافی ہو جاتا ہے اللہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔۔۔۔۔ "


* نزع میں پڑھنے سے جان نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔


* حاملہ عورت پر پڑھنے سے بچہ پیدا ہونے میں آسانی ہو تی ہے۔


* کسی سرکش انسان یا جانور سے خوف محسوس ہو تو پڑھنے سے اس کے شر اور فساد سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔


* اس سورہ میں اللہ نے معاملات اور عبادات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ فریضہ تبلیغ کی ذمہ داری بندوں پر عائد فرمائی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔


* جو انسان سورہ یسین اور سورہ الصفات کو بعد نماز جمعہ پڑھے پھر دعا مانگے اللہ اس کی دعا قبول فرما ئے گا۔

** تفسیر سورۃ الیسن **


* آیت 1تا 20 *


* ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے پیغمبر ہونے کی گواہی دی۔ وہ لوگ جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں یہ قرآن گواہ ہے کہ تم رسولوں میں سے ہو کیونکہ ایسا کلام کوئی اور پیش ہی نہیں کرسکتا۔ یہ قرآن خود تمہارے رسول ہونے کا گواہ ہے۔


* یہ قرآن ایک نصیحت ہے اگر تم اسے نظر انداز کرو گے تو اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ یہ اس مالک کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور وہ سزا و جزا دینے پر قدرت رکھتا ہے۔


* یہ اللہ تعالیٰ کی سراسر مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لئے رسول بھیجا اور یہ کتاب نازل فرمائی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ جاؤ۔اور اللہ کے احکامات پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابیاں حاصل کر سکو۔ دنیا میں سکون کی زندگی گزار سکو اور مرتے وقت بھی تمہیں اطمینان نصیب ہو۔


* اللہ تعالیٰ نے انسان کو غفلت بھری زندگی سے ڈرایا ہے۔ جو لوگ غفلت بھری زندگی گزارتے ہیں دنیا و آخرت میں ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ وہ روش اختیار نہ کرو جو تمہیں صراطِ مستقیم سے دور لیجائے۔ تمہیں اللہ سے دور کردے۔ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر رسول کی بات مان لو اسی میں تمہاری بھلائی اور بہتری ہے۔


* جو لوگ اللہ کے فیصلے کو نہیں مانیں گے وہ عذاب کے مستحق ہیں ایسے لوگوں پر ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔


* تبلیغ کا اصل مقصد ان لوگوں کے لیے ہے جو نصیحت کو قبول کرنے والے ہیں اور خدا سے ڈر کر راہِ راست پر آنے والے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں راستہ دکھائے اور ہماری زندگیوں کو سنوارے تبلیغ انہی لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ایسے انسانوں کو تلاش کرو۔ ہٹ دھرم لوگوں کو چھوڑتے جاؤ اور قیمتی موتیوں کو سمیٹتے جاؤ۔ اللہ کے نیک بندے اللہ کے فرمان پر اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔


* انسان کا نامئہ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔

1۔ ہر شخص جو بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لی جاتا ہے۔

2۔  اپنے گردو پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش بھی انسان چھوڑتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں اور یہ سارے نقوش ایک دن ایسے ابھر کر آئیں گے کہ اپنے خیالات، نیتوں، اور ارادوں کی پوری داستان اس کی لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی اور اس کے ایک ایک اچھے اور برے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنات کی تصویریں سامنے آجائیں گی۔

3 ۔ اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات چھوڑ گیا وہ جس وقت تک جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے، اپنی اولاد کو جو بھی اچھی، بری تربیت دی، اپنے معاشرے میں جو بھی بھلائیاں، اچھائیاں، برائیاں پھیلائیں، انسانیت کے حق میں جو بھی پھول اور کانٹے بوئے ان سب کا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہیگا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اچھے یا برے پھل لاتی رہے گی جزا و سزا اس کے کھاتے میں لکھا جاتا رہے گا۔ 


* جن لوگوں نے جن بستیوں نے رسولوں کی دعوت کو رد کیا وہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ 

*۔ کفاران مشرکین اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا ہے اور پیتا بھی ہے ان کے مطابق رسول کوئی اور مخلوق ہونی چاہیے۔ اللہ فرماتا ہے تم سے پہلی قوموں کے بھی یہی اعتراض تھے اور اسی ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ ایمان نہیں لائے۔

اللہ کہتا ہے۔۔۔ اے نبی ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم انہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۔


*اگر کوئی اللہ کے حکم کو نظر انداز کرے تو اس کا وبال اسی پر ہے۔انسان کے اوپر اللہ نے فریضہ تبلیغ کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ نتائج کی ذمہ داری اس کی نہیں ہے۔ 


* قرآن کریم نے واضح طور پر اس بات کی تشریح فرما دی کہ کوئی کسی کیلئے منحوس نہیں ہے۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی گردن میں لٹکا ہوا ہے۔ برائی، بھلائی سب اس کے نصیب کی ہے کوئی دوسرا اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔

*۔حد سے تجاوز کرنے والوں کی خصلت بیان کی گئی ہے کہ اصل میں یہ لوگ بھلائی سے بھاگ کر برائی کو اپنانا چاہتے ہیں اس لئے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے خرافات سے کر رہے ہیں۔ 


*۔ مر کر انسان کو اللہ کی طرف ہی جانا ہے تو کیوں نہ اس کی پیروی کی جائے اور اس چیز کو مان لیا جائے جس کی دعوت یہ رسول دے رہے ہیں اور جو نہ مانیں وہ سراسر گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اسی خالق کائنات کی بندگی اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور لوٹ کر تمہیں اسی کی طرف جانا ہے۔


* تفسیر 21 تا 40 *


* انسان جب اللہ تعالیٰ کی ذاتِ باری کی شہادت دیتا ہے تو شہادت دیتے ہی اس کا رب اسے جنت کی بشارت دے دیتا ہے۔ جیسا کہ آیت اکیس اور بائیس میں ایک شخص کے ایمان لانے کا ذکر ہے کہ جب وہ ایمان لے آیا تو اس کی قوم کے لوگوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور اللہ نے کہدیا کہ

"جنت میں داخل ہو جاؤ"

تو اس نے کہا۔۔

" کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل کیا۔" 

جونہی وہ انسان موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے عالم میں پہنچا، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوش خبری دی کہ فردوسِ بریں اس کی منتظر ہے۔


* جب کوئی قوم بہت ہی زیادہ سرکش اور نافرمان ہو جاتی ہے تو پھر اللہ اس پر عذاب بھیج دیتا ہے اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔


*اللہ کہتا ہے بندوں کے حال پر افسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس رسول آتے ہیں مگر وہ ان کا مزاق اڑاتے ہیں۔ پھر اللہ انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔ 


* مرنے کے بعد سے قیامت کا زمانہ خالص عزم و نیستی کا زمانہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ اس وقفے میں بغیر جسم کے روح ذندہ رہتی ہے کلام کرتی اور سنتی ہے، جذبات و احساسات رکھتی ہے، خوشی و غم محسوس کرتی ہے اور اہل دنیا کے ساتھ اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لئے یہ تمنا کیسے کرتا کہ وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائیں۔ 


* ان آیات کی بنیاد پر اللہ اہل عرب کے کفار ومشرکین کو تنبیہ فرما رہا ہے کہ یہی رویہ تم سے پہلے کی قوموں نے بھی اپنایا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ توحید و آخرت کا جو عقیدہ میرا رسول پیش کر رہا ہے اسے مان لو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ میرے پیغمبر سے نہ الجھو۔


* اللہ نے زمین کی مثال دی کہ ایک بیجان زمین کو اس نے زندگی بخشی۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اس کو معمولی بات سمجھتا ہے۔ اس فرش خاکی سے لہلہاتے کھیتوں اور سر سبز باغات کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی معمولی کھیل نہیں، بلکہ اس کے پیچھے رب کائنات کی عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے۔


* یہ تو ایک ایسے خدا کا انتظام ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوع انسانی سب کا خالق اور پالنہار ہے۔ 


* اللہ فرماتا ہے کہ اتنا نوازنے کے بعد یہ شکر کیوں نہیں کرتے۔ انسان بڑا نمک حرام اور ناشکرا ہے اللہ کا رزق کھا کر دوسرے کا کلمہ پڑھتا ہے۔ دنیا کے خداؤں کے آگے جھک جاتا ہے۔


*اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے وہ اس بات سے بھی پاک ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو۔ اللہ تعالیٰ ان تمام عیب و نقص سے پاک ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔


* اللہ نے ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا ہے چاہے وہ انسان کے علم میں ہو یا نہ ہو۔ مرد اور عورت کا جوڑ ، نباتات و حیوانات کا جوڑ، حتیٰ کہ بے جان مادوں میں بھی جوڑ موجود ہے۔ 


*رات کے آنے کی نشانی بیان کی۔ دن اور رات کے آنے جانے میں بھی عقل والوں کے لیے حکمت اور اللہ کی وحدانیت کی گواہی پوشیدہ ہے اور دن اور رات کی آمدورفت کا گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز حساب اور قائدے سے بنائی ہے۔


* چاند کی بھی منزلیں مقرر کر دیں۔ تاکہ انسان اپنے وقت اور ساعتوں کا اعدادوشمار کر سکے۔


* اللہ کے کارخانہ قدرت میں ہر چیز اپنے حساب سے اپنے دائرہ کار میں چل رہے ہیں کہیں کوئی بے ضابطگی موجود ہیں ہے ہر چیز کے طلوع و غروب کے اوقات مقرر ہیں۔ سب اپنے دائرہ کار میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔


* ان سب سے انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی عقل سے کام لے تو زمین سے آسمان تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیحساب دلائل ملیں گے اور اس کے ساتھ شرک کی ایک بھی دلیل نہیں ملیگی۔ 


*اللہ نے کشتی کی مثال دی کہجن کشتیوں میں تم سوار ہو تے ہو انہیں پار لگانے والی اللہ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اس کی رحمت سے تمہاری کشتی پار لگتی ہے۔


* بھری ہوئی کشتی سے مراد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے اور نسل انسانی کو اس پر سوار کرنے کا مطلب ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے۔ کیونکہ طوفان نوح میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی نسل انسانی صرف انہی کشتی والوں سے چلی۔


* اس آیت میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کیا گیا ہے تاریخ میں جو پہلی کشتی بنی وہ حضرت نوح علیہ السلام والی کشتی تھی اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئ طریقہ معلوم نہیں تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے نوح علیہ السلام کو دی گئی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ کی نسل نے بحری سفروں کے لئے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ 


*اس نشانی کا ذکر کر کے انسان کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر جو اختیارات حاصل ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو فطرت کی تسخیر کے طریقے بتاتا ہے اس کی نشاندھی کرتا ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے یہ کائنات اس کے لئے مسخر رہے گی۔ اللہ کی مرضی نہ ہو تو وہی طاقتیں انسان کے اوپر پلٹ کر آتی ہیں اور انسان اپنے آپ کو ان کے سامنے بے بس پاتا ہے۔ آج بھی اللہ کا پانی اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت غرق کر دیتا ہے۔

* تفسیر 41 تا 60 *


*جو کچھ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں دوسروں کا حق ہے۔ وہ حق انہیں پہنچاؤ۔ تم خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمہیں دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنایا۔ 


* اپنے اخلاقی حس کو بلند کرو۔ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لو ہر نصیحت کا الٹا جواب نہ دو۔


* منکرین خدا کے پاس ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لئے اوندھا فلسفہ ہے۔ ہر بھلائی سے فرار کے لئے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے۔


* مشرکین مکہ قیامت کے لئے شور مچاتے تھے وہ کہتے تھے کہ جس آخرت کے عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتی۔۔۔ جس کے جواب میں اللہ فرماتا ہے وہ تو بس ایک دھماکہ ہے جو تم کو دھر لیگا۔ تم اپنے دنیاوی معاملات میں جھگڑ رہے ہو گے اور موت تمہیں پالے گی۔ 


*لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کاروباری زندگی کو چلا رہے ہونگے۔ اور دنیا کے خاتمے کی گھڑی آ پہنچے گی۔۔۔ اچانک ایک زور کا کڑاکا ہوگا اور جو جہاں ہوگا وہی کا وہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ 

حضرت ابو ہریرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ

"لوگ راستوں پر چل رہے ہونگے، بازاروں میں خرید وفروخت کر رہے ہوں گے، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہو نگے ۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا، کوئی کپڑا خرید رہا ہوگا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آنے گی کہ ختم ہو جائے گا۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لیجانے کی نوبت نہ آئے گی۔ " 


* لوگ قبروں سے نکل کر پوچھیں گے ہمیں ہماری آرام گاہوں سے کس نے اٹھایا تب اللہ فرمائے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔


* حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ صور پھونکنے کے تین مراحل ہونگے۔

1۔ پہلا صور جب پھونکا جائے گا تو زمین وآسمان کی ساری مخلوق کو سہما دیگا۔

2 ۔ دوسرے صور کو سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے اور خدائے واحد کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا۔ جب اللہ کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہے گی تو زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی پھر اللہ اپنی مخلوق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ گر کر مرا تھا اسی جگہ بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا۔ اور یہی تیسرا صور ہوگا۔ 


* انسان کو لگے گا کہ وہ کچھ پل کے لئے سویا تھا اور اب اٹھ چکا ہے ۔


* اسدن اللہ نیک بندوں کو الگ کر کے ان پر سلام بھیجے گا اور مجرموں کو الگ کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔


* صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب، یا ہلکے حساب کیساتھ جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ انہیں دوران عدالت تکلیف نہیں دی جائے گی۔ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتایا جائے گا کہ دیکھو جن صالح لوگوں کا تم دنیا میں مذاق اڑاتے تھے آج وہ جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور تم یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو اس کے بعد تمہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ 


*اس دن ساری رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی اور انسان کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔


* اللہ نے واضح طور پر فرما یا شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے رحمٰن کی بندگی کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہوجائے گا۔ اسے صرف سجدہ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت بھی کرو اس کے احکام کی تابعداری بھی کرو۔ جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جاؤ اور جس کے لئے کہا گیا ہے وہ کرو۔ 

اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکساتا ہے تو یہ دیکھو کہ اس میں اللہ کی رضا موجود ہے۔ شرع کی رو سے اس کام کی اجازت موجود ہے۔ اگر ہے تو کرو ورنہ چھوڑ دو، اگر تم نے کیا تو تمہارا نفس خود شیطان ہے۔اگر تم نے پیروی کی تو شیطان کی عبادت کے مرتکب ہوئے۔


* خدا کی دلیل آنے کے بعد بھی اگر کوئی گمراہی کا راستہ نہ چھوڑے تو قیامت کے دن اس کا کوئی عزر قابل قبول نہ ہوگا۔خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ھدایت کی روشنی بھیج دی تھی۔ لیکن تم دشمن کے فریب میں آئے اسی کا راستہ اپنایا پیغمبروں کا مذاق اڑایا۔ تمہارا دشمن تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اب اسی کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ۔ 

یہ حکم ان مجرموں کو دیا جائے گا جو اپنے جرائم کو قبول نہیں کریں گے، گواہیوں کو بھی جھٹلائیں گے، اور اپنے نامہ اعمال کو بھی تسلیم نہیں کریں گے،  تب اللہ حکم دے گا اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا کیا روداد سناتے ہیں۔ ان کی آنکھیں، کان، ناک، ہاتھ، پاؤں غرض کہ جسم کا ہر حصہ حتیٰ کہ ان کے جسم کی کھال بھی گواہی دے گی کہ وہ کیا کیا کام کرتے رہے ہیں اور جسم کے کس اعضاء سے کون سا کام لیتے رہے ہیں۔ اللہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو زبان عطا فرمائے گا جو یہ گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کرتے رہیں ہیں۔ 


*انسان کو اپنی کسی بھی چیز پر کوئی گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کس وقت کون سی بیماری لگ جائے انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کب کیا چھن جائے انسان واپس نہیں لا سکتا۔ جو کچھ بھی ہے اس کا عطا کردہ ہے انسان کو اس کی دی ہوئی نعمتوں پر ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں مرتے دم تک ہوش وحواس کی زندگی عطا فرمائے اور محتاجی سے بچالے۔ 


*کفار مکہ توحید و آخرت کی زندگی کو شعر و شاعری سے تشبیہ دیتے تھے۔ اسی کا جواب اللہ نے دیا میرے پیغمبر کو شعر و شاعری زیب نہیں دیتی یہ تو اللہ رب العزت کا اتارا ہوا کلام ہے۔ اور یہ کلام ایک نصیحت ہے جو اس کی پیروی کرے گا نجات پائیگا جو جھٹلائے گا خسارے میں رہے گا۔ یہ کلام صرف اسی پر اثرانداز ہوگا جو ہٹ دھرم نہ ہو جو شعور رکھتا ہو جو سوچنے سمجھنے والا ہو۔ رہے وہ لوگ جو جانوروں کی سی زندگی گزارتے ہیں انہیں نصیحت کرنا اور نا کرنا برابر ہے۔ 


*اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لئے ہر چیز اپنے دست قدرت سے بنائی ہے اور اس تخلیق کار میں کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ اور اللہ نے انسان کے بس میں کردیا تاکہ انسانیت فیضیاب ہو سکے۔


* تفسیر 61 تا 83 *


*  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کسی اور کا عطیہ سمجھنا، اس کی نعمتوں پر کسی اور کا احسان مند ہونا، کسی اور سے امید رکھنا، کسی اور سے نعمت طلب کرنا۔۔۔ یہ سب کفرانِ نعمت ہے۔ یہ بھی کفرانِ نعمت ہے کہ انسان اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے۔ دوسروں کے آگے نظر و نیاز پیش کرنا، دوسروں کے نام کے چڑھاوے چڑھانا، یہ کفرانِ نعمت ہے۔ 


* جو اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا خدا بنالے اللہ فرماتا ہے ایسے لوگوں کی ہر گز مدد نہیں کی جائے گی۔ اور جن سے یہ مدد مانگتے ہیں وہ خود اپنی مدد پر قادر نہیں ہیں تو دوسروں کی مدد کیا کریں گے۔ مدد مانگنی ہے تو اللہ سے مانگو۔


* اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے ہیں یہ دراصل بے بنیاد اور جھوٹے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بدگمان کرنے کے لئے آپ کو ساحر، شاعر، کاہن مجنوں اور نامعلوم کیا کچھ کہ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی باتوں پر دلبرداشتہ نہ ہوں۔ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ وہ آپ کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔


* کفار مکہ کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو ذندہ کون کرے گا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ اس آیت کے موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آگیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزاء ہوا میں اڑا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا،

" اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کہتے ہو کہ مردے پھر ذندہ کر کے اٹھائے جائیں گے، بتاؤ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون ذندہ کرے گا" 

اس کا جواب اس آیت مبارکہ میں دیا گیا کہ ان سے کہو،،،

"انہیں وہی ذندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے" 


*اللہ مخلوق کی طرح عاجز نہیں ہے کہ وہ پیدا نہ کر سکے۔ اس کے لئے تو بس اشارے کی دیر ہے۔


* اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ ہمارے ہی بارے میں مثالیں پیش کرنے لگا۔ اس نطفے کو ترقی دیکر ہم نے اسے عقل و شعور عطا فرمایا، اس کے اندر وہ قابلیتیں پیدا کیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں پھر وہ اپنے خالق کے ہی منہ آن لگا۔ 


* جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ زندگی دے سکے اور دوسری بار کا پیدا کرنا اس کے لئے بہت آسان ہے۔ 


* وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے

ہوجا

اور وہ ہوجاتی ہے۔ 

اللہ کی ذات پاک ہے ان باتوں سے جو یہ مشرکین کرتے ہیں۔

********************

روزے کا اصل مقصد

* حاصل روزہ اسلام میں کیا ہے؟ *

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،

" اے لوگو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔"

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں روزے کا اصل مقصد تقویٰ بیان کیا گیا ہے اور
تقویٰ کیا ہے؟ 
تقویٰ کے معنی ہیں، خود کو بچانا، اللہ کے احکام کو توڑنے سے بچانا۔ 
تقویٰ یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں چھوڑ دو جو تمہارے رب کو نا پسند ہیں۔
اللہ کے غیض و غضب سے بچنا، آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنا، اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں ملوث ہونے سے بچنا، اللہ کی ناراضگی سے بچنا۔ یہ بچنے کی روش ہے۔ پوری زندگی اسے جاری وساری رکھو۔ چاہے وہ کھانے سے متعلق ہو، روزگار سے متعلق ہو، شہوت سے متعلق ہو، دین و دنیا کا کوئی بھی معاملہ ہو وہ راستہ اپناؤ جس میں تمہارے رب کی رضا ہو۔ جو راستہ اللہ کے غیض و غضب کی طرف لیکر جائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو، اس راستے کو اپنے اوپر ممنوع قرار دو۔ 
ہمارے گناہوں کا سب سے بڑا سبب ہمارے نفسانی تقاضے ہیں۔
انسانی شخصیت کے تین لیول ہیں۔
1. نفس
2. قلب
3. روح
حیوانی تقاضے اندھے اور بہرے ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کہاں سے آرہی ہے ذرائع حلال ہیں یا حرام ہیں۔ نفسانی تقاضے بہت زور آور ہوتے ہیں۔ شہوت تسکین چاہتی ہے، حرام سے ہو یا حلال سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ یہ نفس بدی کی ترغیب دلاتا ہے۔
اور روزہ تقویٰ کا طلبگار ہے۔ روزے میں انسان نفس کو حلال ذرائع سے بھی روکے رکھتا ہے۔ اللہ کا حکم جو ہے۔ یہ پابندیاں نفس پہ لگانا یہ مشق ہے یہ انسان کی تربیت ہے یہ ریاضت ہے۔ اس پورے مہینے کی تربیت اور ریاضت کا حاصل یہ ہونا چاہیے کہ انسان بقیہ 11 ماہ میں بھی اپنے آپ کو حرام سے بچالے۔ جب ایک ماہ اپنے آپ کو حلال سے بھی بچا کر دکھتا ہے تو باقی ماہ حرام سے کیوں نہیں بچا سکتا۔ جبکہ حلال راستہ تو اس کے لئے کھلا ہوا ہے۔
روزے سے خود پہ کنٹرول پیدا ہوتا ہے یہ روزے کی ریاضت ہے۔ یہ روزے کی ایک حکمت ہوئی۔

روزے کی دوسری حکمت ضبط نفس ہے۔ اسلام کا نظام متوازن ہے وہ نفس کو مارنے کی تلقین نہیں کرتا۔وہ چاہتا ہے کہ نفس کے حقوق حلال طریقے سے پورے ہوں۔ راستے جائز ہوں، ناجائز نہ ہوں۔ اسلام کا اصل معاملہ توازن سے معتدل ہے۔





حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بہترین روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ تھا آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور دوسرے دن نہیں رکھتے تھے۔
ہفتے میں دو دن کے روزے پیر اور جمعرات کے روزے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ ان دو دنوں میں انسان کے اعمال عرش پر چڑھتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال عرشِ بریں جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ اسی طرح مہینہ کے تین روزے ایام بیض کے روزے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھے ہیں۔ ان روزوں کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ 
اور جو ہمیشہ روزہ رکھے اس کا روزہ نہیں ہوتا وہ تو ایسا ہے جیسے اس نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ وہ تو پھر عادت ہوگئی۔ 
اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کے لحاظ سے کام کرنا ہے۔ ہر عبادت میں اللہ کے حکم کو مدنظر رکھنا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز نہ کرو، حد نہ پھلانگو۔ اللہ کائنات کا بادشاہ ہے۔ ان حدود کی سختی کے ساتھ پابندی کرنی ہے۔ اسی طریقے سے اللہ اپنی آیات کو واضح کرتا ہے تاکہ لوگ تقویٰ اختیار کریں۔ احکام واضح ہوگئے تو بچنا آسان ہو گیا۔ حلال وحرام اللہ نے واضح کر دیا ہے
ان دونوں کے بیچ میں یعنی حلال و حرام کے بیچ میں جو چیز آتی ہے وہ مشابہات ہے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ حلال ہے یا حرام تو اس سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔  کیونکہ ان میں حرام ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو ان سے بھی بچو۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کا حلال ہونا 100 % نہ ہو تو اس سے بچو۔ 
مجرب روزہ وہ روزہ ہے جس میں ضبط نفس ہو۔ روزے کا اصل مقصد نفس پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اللہ کے سامنے اس نفس کو جھکا دو۔ 





اعتکاف کی برکت سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب وہ معتکف ہو جائے تو دنیا داری بلکل ہی دل و دماغ سے نکال کر اللہ سے لو لگا لے اس کو منالے اپنے گناہوں کی معافی 
مانگنے کے ساتھ ساتھ والدین اور پوری امت مسلمہ کی بخشش کی دعا کرے۔ 

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کا اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش میں کامیابی عطا کرے

یا اللہ ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو اپنی بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت عطا فرما دے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔

اکیس رمضان المبارک اور شہادت علی کرم اللہ وجہہ

**اکییس رمضان المبارک اور شہادت علی**

* سیرت حضرت علی کرم اللہ وجہہ *

علی بن ابی طالب 
آپ کی ولادت کعبتہ اللہ میں ہوئی اور آپ نے مسجد میں جام شہادت نوش فرمایا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں۔ بچوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر سات سال بتائی جاتی ہے۔

 ہجرت کی رات  جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق اکبر کے ساتھ ہجرت کی تو آپ کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنے بستر پر لٹایا اور فرمایا صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے چلے آنا۔
 خطرے کی رات تھی، ننگی تلواریں لیکر دشمن سر پر سوار تھے اور آپ بستر مصطفوی پر سکون سے لیٹے ہوئے تھے۔

غزوہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مدینے میں رہنے کا حکم دیا تو حضرت علی نے کہا 

" یا رسول اللہ ! آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں۔"

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔

" کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ میں تم کو اسی طرح چھوڑے جاتا ہوں جسطرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑا تھا۔۔۔۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا" 

آپ کو اپنا نام  
" ابو تراب "
بہت پسند تھا۔۔۔۔۔ جب کوئی شخص آپ کو اس نام سے پکارتا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے۔

اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ

ایک روز آپ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی وجہ سے ناراض ہو کر گھر سے نکل آئے۔ اور مسجد میں اکر وہی سوگئے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ مسجد تشریف لائے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اٹھایا۔۔۔۔۔ تو ان کے جسم سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ
ابو تراب۔۔۔
یعنی
مٹی کے باپ
اٹھو۔

جب آیات مباہلہ نازل ہوئیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ، حسن و حسین کو طلب فرمایا اور کہا کہ۔۔۔
الہیٰ۔۔۔۔ یہ میرے کنبہ کے لوگ ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب صحابیوں میں مواخات قائم کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرکار دوعالم کے پاس روتے ہوئے آئے اور کہا۔۔۔
آپ نے ہر ایک میں مواخات قائم کر دی لیکن میں رہ گیا۔۔۔
آپ نے ارشاد فرمایا۔۔
" تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو " 

اللہ کے رسول نے علی کے لئے ارشاد فرمایا۔۔۔

" میں علم کا شہر ہوں تو علی اس کا دروازہ ہیں" 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی سے ارشاد فرمایا۔۔۔
" دو اشخاص شقی ترین ہیں۔۔۔۔
ایک وہ۔۔۔۔ احمر جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تھیں۔
اور دوسرا۔۔۔۔۔ وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا۔

مدینہ آنے کے بعد 2 ھ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو داماد رسول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 

ہجرت مدینہ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان تمام غزوات بدر، خندق، بنی قریظہ اور حنین میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ خیبر کی فتح آپ کے ہاتھ سے ہوئے جہاں آپ کو نشان حیدر کا اعزاز ملا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری خدمت غسل اور تجہیز وتکفین کی سعادت بھی آپ ہی کے حصے میں آئی۔ آپ شروع سے آخر تک محبوب خدا کے دست و بازو رہے۔ 
آپ تینوں خلفاء کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کے مفید مشوروں پر بڑا اعتماد تھا۔ آپ نے اپنے مشوروں سے خلافت اسلامیہ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ 

 * مسند خلافت *

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی۔ مدینہ میں حضرت عثمان غنی کی شہادت سے شور برپا تھا۔ خلافت کا انتظام بھی ضروری تھا چنانچہ مہاجرین وانصار نے جن میں حضرت طلحہ و زبیر بھی شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ خلیفہ کا انتخاب ضروری ہے۔۔۔۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اشارہ سمجھ کر جواب دیا

" مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، جسے تم منتخب کرو گے، میں بھی اسے قبول کر لونگا"

ان لوگوں نے عرض کیا۔۔۔۔

" آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس منصب کا مستحق نہیں ہے، اس لئے آپ کے علاوہ ہم کسی دوسرے کو منتخب ہی نہیں کر سکتے"

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پھر عزر کیا کہ
"امیر ہونے کے مقابلے میں مجھے وزیر ہونا زیادہ پسند ہے"
آخر میں لوگوں نے پھر عرض کیا۔۔۔
" ہم لوگ آپ ہی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے" 
غرض مسلمانوں کے اصرار سے مجبور ہوکر اور ملت اسلامیہ کے مفاد کا لحاظ کر کے آپ نے قبول فرمایا اور مجمع عام میں مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اس بیعت میں مدینہ منورہ کے تمام ممتاز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شریک تھے۔
بیعت کے بعد ذی الحجہ 35 ھ میں آپ نے مسند خلافت پر قدم رکھا۔

* کوفہ کو دارالخلافہ بنانا*

 جنگ جمل کے اختتام کے بعد رجب المرجب 36ھ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب کوفہ واپس تشریف لائے تو مدینہ کے بجائے کوفہ کو مرکز خلافت قرار دیا۔ اس تبدیلی کے دو بڑے اسباب تھے۔

1۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت میں حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی توہین ہوئی۔ اس لئے آئندہ اس کو شرو فتن سے بچانے کے لئے آپ نے سیاسی مرکز کو یہاں سے ہٹا دینا مناسب سمجھا۔

2 ۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت علی کے حامیوں کی بڑی تعداد عراق میں تھی۔ اس لئے سیاسی حیثیت سے کوفہ آپ کے لئے زیادہ اہم تھا۔
اس تبدیلی سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ مدینہ منورہ سیاسی انقلابات کے مذموم نتائج سے محفوظ ہوگیا اور اس کے بعد جو سیاسی ہنگامے ہوئے ان کا مرکز عراق رہا۔ 

اس سے مدینہ منورہ کی سیاسی اہمیت و مرکزیت جاتی رہی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں کے حقیقی مرکز سے دور پڑ گئے جس کے نتائج ان کے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہوئے۔

* فتوحات *

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا پورا زمانہ خانہ جنگیوں اور اندرونی جھگڑوں میں گزرا۔ تخت خلافت پر قدم رکھنے کے بعد آپ کو ایک دن کے لئے بھی اندرونی جھگڑوں سے فرصت نہ ملی۔ اس لئے بیرونی فتوحات کی جانب توجہ کرنے کاآپ کو موقع ہی نہ ملا۔اس لئے تعمیری کاموں کے حوالے سے آپ کا عہد آپ کے پیشروں کے مقابلے میں ناکام رہا اور یہ ان حالات کا لازمی نتیجہ تھا جن میں آپ کو مسند خلافت ملا تھا جو بعد میں پیش آتے رہے۔
 تاہم سیستان اور کابل میں بعض فتوحات حاصل ہوئیں۔

* عدل و مساوات *

آپ کے ایوان عدالت میں بلا امتیاز مزہب و ملت، خویش و بیگانہ، امیر و غریب سب برابر تھے۔ اگر خود آپ کسی مقدمے میں فریق ہوتے تھے تو قاضی کے سامنے حاضر ہونا پڑتا تھا اور اگر ثبوت نہ ہوتا تو مقدمہ آپ کے خلاف ہوتا۔
ایک مرتبہ آپ کی زرہ گر پڑی اور ایک نصرانی کے ہاتھ لگی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسے دیکھ کر پہچانا اور قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ کیا۔
نصرانی کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کی زرہ ہے۔
قاضی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا۔

کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے نصرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس فیصلے کا نصرانی پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔
اور کہنے لگا۔۔۔
یہ تو انبیاء کرام کے جیسا انصاف ہے
کہ
امیر المومنین مجھے اپنی عدالت کے قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور قاضی امیر المومنین کے خلاف فیصلہ دیتا ہے۔
پھر اس نے اعتراف کیا کہ یہ زرہ حضرت علی ہی کی ہے جو جنگ صفین میں گر گئی تھی۔ حضرت علی نے وہ زرہ اسے ھدیہ کردی۔ اور گھوڑا بھی عنایت فرمایا اس کے بعد وہ ہمیشہ علی کے ساتھ ہی رہا اور اس نے جنگوں میں اپنی نمایاں کارکردگی دکھائی۔

* بازار کی نگرانی * 

بازار کی نگرانی اور نرخ اور ناپ تول کی دیکھ بھال خود کرتے تھے۔ درہ لیکر بازار نکل جاتے اور بیچنے والوں حسن معاملات اور ناپ تول میں ایمانداری کی ہدایت فرماتے۔

* فضل و کمال *

آپ کی جلالت علمی پر سب کا اتفاق ہے۔ 
کلام الٰہی سے آپ کو خاص شغف تھا۔ کلام ربانی کے حافظ تھے آپ نے زبان وحی و الہام سے حاصل کی تھی۔ اللہ کے کلام پر آپ کی نظر اتنی وسیع تھی کہ کسی آیت کا کوئی پہلو آپ کی نظر سے مخفی نہ تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس کے متعلق میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے میں، کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے آیتوں اور سورتوں کی نزولی ترتیب پر کلام اللہ کا ایک نسخہ مرتب کیا تھا۔
فقہی کمال میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔بڑے بڑے صحابہ آپ سے رجوع کرتے تھے۔حتی کہ آپ کے حریف امیر معاویہ کو بھی آپ سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو
اقضاھم علی 
صحابہ میں سب سے بڑے قاضی علی ہیں
کی سند عطا فرمائی۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پاگل زانیہ پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے روک دیا کہ مجنون حد شرعی سے مستثنیٰ ہے 

تصوف کا سرچشمہ آپ ہی کی ذاتِ مبارکہ ہے۔

                                                             * انفاق فی سبیل اللہ *

انفاق فی سبیل اللہ آپ کا امتیازی وصف تھا۔ چالیس ہزار سالانہ زکوٰۃ کے بقدر آمدنی رکھنے کے باوجود پر عسرت زندگی آپ کے انفاق ہی کا نتیجہ تھی۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل ناکام واپس نہیں گیا۔ 
قوت لا یموت تک سائل کو دے دیتے تھے اور خود فاقہ سے سو رہتے تھے۔
کلام اللہ کی سورہ دہر کی یہ آیت اسی قسم کے ایک واقعے پر نازل ہوئی تھی۔ 
روایات میں آتا ہے کہ آپ کھانا کھانے بیٹھے تھے کہ سائل نے ندا کی آپ نے انگلی کے اشارے سے قوت لا یموت کی طرف اشارہ کیا سائل نے لے لی۔ 
اللہ نے آیات اتاریں۔

ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما واسیرا۔
(سورہ الدھر۔۔۔ 8)

* شہادت حضرت امام علی کرم اللہ وجہہ *

                                                                            * شہادت علی کرم اللہ وجہہ * 

40 ھجری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا عظیم حادثہ پیش آیا۔ 
تفصیل یہ ہے کہ نہروان کے معرکہ میں خارجیوں کو سخت نقصان پہنچا تھا اس لیے اس جماعت کے تین آدمیوں نے باہم مشورہ کیا کہ نہروان کے مقتولین کے بعد زندگی بیکار ہے۔ معاویہ اور علی دونوں میں سے کوئی بھی حکومت کا اہل نہیں۔ ان کی خانہ جنگی کی وجہ سے خلق اللہ مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ انہیں ختم کئے بغیر امن و سکون قائم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ابنِ ملجم نے حضرت علی کو، برک بن عبداللہ نے، امیر معاویہ کو، اور عمرو بن بکر نے عمرو بن العاص کو شہید کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ 
ابن ملجم نے اپنے کام میں ایک اور شخص شبیب بن بجرہ اشجعی کو بھی شریک کر لیا اور تینوں نے ایک ہی دن رمضان 40 ھ کو نمازِ فجر کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا۔ اتفاق سے عمرو بن العاص کے بجائے اس دن ایک اور شخص نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا۔ ان کے دھوکے میں وہ مارا گیا۔ 
امیر معاویہ دمشق کی مسجد میں نماز فجر کی امامت کر رہے تھے کہ برک نے تلوار کا ایک ہاتھ مارا اور یہ سمجھ کر تلوار کا ہاتھ کاری لگا ہے بھاگا۔۔۔ لیکن گرفتار کر لیا گیا۔امیر معاویہ پر اوچھا وار لگا اس لئے وہ علاج معالجے سے بچ گئے۔

ابنِ ملجم اور شبیب ابنِ بجرہ دونوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی گزرگاہ پر چھپ رہے۔ جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز فجر کے لئے نکلے تو دونوں نے حملہ کر دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کاری زخم آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی لوگ دوڑ پڑے۔ شبیب تو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ابنِ ملجم گرفتار ہو گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بجائے جعدہ بن ہبیرہ نے نماز فجر پڑھائی۔ نماز کے بعد ابنِ ملجم کو شیر خدا حیدر کرار کے آگے پیش کیا گیا۔ اس سے چند سوالات کرنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ اسے آرام سے رکھا جائے۔ اور پھر فرمایا۔۔۔۔۔

1. اگر میں اس زخم کے صدمے سے جانبر نہ ہو سکا تو اللہ کے حکم کے مطابق اس کو قصاص میں قتل کر دینا، اور اگر میں بچ گیا تو اس کے معاملے پر غور کروں گا۔۔۔۔۔
اور اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ
میرے بعد میرے ایک خون کے بدلے میں مسلمانوں کا خون نہ بہانا۔ 
صرف میرا قاتل قتل کیا جائے۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔۔۔
کہ اگر میں مر جاؤں تو ایک ضرب کے بدلے میں قاتل کو ایک ہی ضرب لگانا اور مثلہ نہ کرنا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔

2۔خنجر زہر آلود تھا اس لیے بہت جلد زہر بدن میں پھیل گیا اور حالت خراب ہونے لگی۔ 
حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین، اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور باہم اتحاد و اتفاق اور دین و دنیا میں خیر و برکت کی وصیتیں فرمائیں۔
آپ کی زندگی سے مایوسی تھی اس لئے جندب بن عبداللہ نے پوچھا کہ ہم آپ کے بعد امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ 
فرمایا۔۔۔۔۔
"میں تم کو نہ اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ روکتا ہوں۔ تم لوگ اس کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہو"
3۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا۔۔۔
میں تم کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں۔۔۔ تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا۔ اور
دنیا میں مبتلاء نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں۔
یتیموں پر رحم اور بیکسوں کی مدد کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ قرآن کریم پر عامل رہنا۔ اور
حکم الٰہی کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
" میں تم کو بھی انہی باتوں کی اور
دونوں بھائیوں کی تعظیم مد نظر رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ان کا حق تم پر زیادہ ہے۔ ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ "
حسنین کریمین کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا کہ۔۔۔۔
"تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور رعایت سے پیش آنا چاہیے"

4۔ زخمی ہونے کے تیسرے دن 21 رمضان شب یکشنبہ 40 ھ کو انتقال فرمایا۔
ان للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت حسن اور حسین نے غسل دیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رشدوہدایت کے اس آفتاب عالم تاب کو کوفہ کے عزی نامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
انتقال کے وقت بروایت تریسٹھ سال عمر تھی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 4 سال 9 مہینے پر مشتمل تھی۔

                                                * اقوال علی * 

آپ نے فرمایا۔۔۔

اے عالم قرآن۔۔۔۔ عامل قرآن بھی بن۔
عالم وہی ہے جس نے پڑھ کر اس پر عمل کیا اور
اپنے علم و عمل میں موافقت پیدا کی۔ 

ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ عالموں کے علم و عمل میں سخت اختلاف ہوگا۔

ادب انسان کی میراث ہے۔

ہر مصیبت کی ایک انتہا ہوتی ہے۔اور  جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتی ہے۔ 

عاقل کو چاہئے کہ مصیبت میں گرفتار ہو تو بھٹکتا نہ پھرے اور اس کے دفع کی تدبیریں نہ کرے کیونکہ اور زحمت ہوتی ہے۔

مانگنے پر کسی کو کچھ دینا تو بخشش ہے اور بغیر مانگے دینا سخاوت ہے۔

عبادات میں سستی کا پیدا ہونا، معیشت میں تنگی واقع ہونا، لذتوں میں کمی کا آجانا گناہ کی سزا ہے۔

سب سے بڑا کرم حسن خلق ہے۔

اللہ کے سوا کسی اور سے امید نہ رکھو۔
*********************************

شان نزول اور تفسیرسورہ المزمل

                                                       * فضیلت سورہ مزمل *
سورہ مزمل میں اللہ ربّ العالمین نے اپنے حبیب رحمتہ اللعالمین کی عظمت بیان کی ہے اپنے حبیب کو محبوبیت کے 
ساتھ پکارا ہے اپنے پیغمبر سے رازونیاز کئے ہیں۔ تسلی دی ہے کہ کفاران قریش کی باتوں پر دل تنگ نہ کریں آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیجئے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے خود نمٹ لیگا۔ 
تربیت کے انداز ہمیں اس سورہ میں ملتے ہیں اللہ کے قرب کے راستے بتائے گئے ہیں سورہ مزمل میں تسخیر کائنات کے راز موجود ہیں اس سورہ میں تسخیر موجود ہے یہ اپنے پڑھنے والے پر اپنے راز کھولتی ہے۔ 
اللہ نے اس میں بندگی کا طریقہ سکھایا اس کی راہ قرض حسنہ کی تاکید فرمائی۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا جذبہ عطا فرمایا۔ 
جنات وجادو کے لئے سورہ مزمل سیف بے نیام ہے۔ بےاولاد وں کو اس کی برکت سے اولاد ملتی ہے۔ رشتوں اور کاروباری بندشیں اس کی تلاوت سے دور ہو جاتی ہیں۔ 
اللہ سورہ مزمل کے پڑھنے والے پر اپنی رحمت اور برکت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
کوئی حاجت ہو
41 دن تک 41 مرتبہ سورہ مزمل کو مقررہ اوقات میں خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھیں اور دعا کرکے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں وہ آپ کے لئے بہتری کی کوئی صورت ضرور نکالے گا۔ 
جو کوئی اس آیت کو چلتے پھرتے وضو بے وضو دن میں ہزاروں بار پڑھے اس کے من کی مراد پوری ہوگی۔

رب المشرق والمغرب لا الہ اللہ ھو فاتخذہ وکیلا۔ 
وہ اللہ ہی مشرق اور مغرب کا رب ہے تو اپنے معاملات کو اسی کے سپرد کرو۔
جو کوئی اللہ کو اپنا وکیل بنالے اس کی کامیابی میں بھلا کیا شک ہو سکتا ہے۔ اللہ سے اپنے معاملات طے کریں آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے وہ آپ کو مشکلات سے نکلنے کے راستے دکھائے گا۔
جب آپ اس پر بھروسہ کریں گے تو وہ آپ کا بھروسہ کبھی ٹوٹنے نہیں دے گا۔ اپنی فکروں کو اس کے حوالے کر کے آزاد ہو جاؤ اور اس کے کاموں میں لگ جاؤ وہ غیب سے آپ کی راحت کا سامان مہیا کر دے گا۔
تفسیر سورہ المزمل 

زمانہ نزول

اس سورہ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے۔
سورہ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین چیزوں کی ہدایت خصوصیت کے ساتھ فرمائی۔

اول۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تاکہ آپ کے اندر نبوت کے بار عظیم کو اٹھانے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ 

دوم۔۔۔۔ نمازِ تہجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔

سوم۔۔۔۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخالفین کی زیادتیوں پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی۔ اور کفار مکہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی۔

سورہ مزمل کی پہلی سات آیات میں اللہ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ جس کار عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی کہ راتوں کو اٹھ کر، آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔

آیت نمبر 8 سے 14 تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلقین کی گئی کہ سب سے کٹ کر اللہ کے ہو رہو۔ جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین کے منہ نہ لگیں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اللہ ان سے خود نمٹ لیگا۔ 

آیت 15 سے 19 تک پیغمبر اسلام کے مخالفین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہٹ دھرمی دکھائی تو تمہارا انجام بھی فرعون سے کچھ کم نہیں ہوگا۔ 
حضرت سعید بن جبیر کی روایت کے مطابق۔۔۔
جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے تو وہ جتنی باآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیں،،، مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ پنج وقتہ نماز ہے۔۔۔ فریضہ زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کیساتھ صرف کریں۔ 
آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ۔۔۔
جو بھلائی کے کام تم دنیا میں انجام دو گے وہ ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے اور یہ پیشگی سامان اس سامان سے بہتر ہے جو تمہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے۔ اللہ کے ہاں تمہیں اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر ملیگا۔

تفسیر ایت 1 تا 5

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے اے چادر لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور رات میں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرو تاکہ تمہیں اس فریضہ تبلیغ کے لئے طاقت اور قوت عطا ہو۔ 
اللہ نے اپنے پیغمبر سے بھی پوری رات کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ایک قلیل حصہ اللہ کی عبادت کیلئے وقف کرو کیونکہ کہ رات اللہ نے سونے کے لئے بنائی ہے اور نیند کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ 
سورہ دہر کی آیت نمبر 26 میں بھی رات کی عبادت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے
" رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز رہو۔ اور رات کا طویل حصہ اس کی عبادت کرتے ہوئے گزارو" 
وہ لوگ جو رات کو اللہ کو یاد کرتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ رات کی عبادت کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کو وہ مقام عطا فرما تا ہے کہ پھر وہ دوسروں کی مشکلات حل کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے ولی بن جاتے ہیں۔ اور یہ عبادت آدھی رات کے بعد شروع ہوتی ہے کیونکہ آدھی رات کے بعد ہی نیند کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور جو اللہ کے لئے اپنی نیند کی قربانی دے اللہ اس بندے کو مقام محمود پر فائز فرما دیتا ہے اور مقام محمود وہ ہے جہاں بندے اور اللہ کی مرضی ایک ہو جاتی ہے۔

قرآن کو خوب ٹہر ٹہر کر پڑھو

الفاظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ قرآن پڑھنا، ہر آیت پر ٹہرنا، اس کے معنی و مفہوم کو دل و دماغ میں بٹھانا، اور آیت پر غور کرنا کہ اللہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرنا۔ ٹوٹے ہوئے الفاظ کے ساتھ قرآن نہ پڑھا جائے۔ قرآن کا حق ادا کرو گے تو یہ دنیا و آخرت میں تمہارے کام آئے گا اور قیامت کے دن تمہارا سفارشی بن کر کھڑا ہو جائے گا جب تک تمہیں بخشوا نہیں لیگا۔ تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں سفارشی بن کر کھڑا رہیگا۔ دنیا میں تمہاری کفالت کرتا رہے گا۔ قرآن سے محبت رکھو گے تو قرآن بھی تم سے محبت رکھے گا۔

اللہ کی آیات میں کہیں اس کی رحمت کا تذکرہ ہے کہیں اس کی عظمت و جلال کا بیان ہے۔ کہیں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہے کہیں کسی چیز سے روکا گیا ہے۔
قرآت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لئے نہیں ہے بلکہ غور وفکر اور تدبر کرنے کے لیے ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآت کا طریقہ جب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے اور انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ رحمن رحیم کو مد کیساتھ پڑھا کرتے تھے۔( بخاری)
حضرت ام سلمہ سے بھی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹہرتے جاتے تھے۔ جیسے
الحمدللہ رب العالمین
پڑھ کر رک جاتے۔
پھر الرحمٰن الرحیم پڑھ کر ٹہرتے
یعنی ہر آیت پہ ٹہرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک لفظ کو واضح طور پر پڑھا کرتے تھے۔

بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں
قرآن کریم ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا زانوئے مبارک میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ٹوٹ جائے گا۔ 
اسی بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرح فرمایا ہے کہ
اگر ہم اسے پہاڑ 🗻 پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں۔۔۔
کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی سے اس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا۔ ( بخاری، مسلم، نسائی، مالک، ترمذی)





تفسیر 6 تا 10 

رات کی عبادت نفس کے مجاھدے کے لئے بہترین ہے۔ انسان کا نفس اسے ورغلاتا ہے اسی لئے رات کی عبادت کے ذریعے نفس کی تربیت کرنے کو کہا گیا۔ رات کی عبادت ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ دوسرا دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ رات کے اوقات میں بندے اور اللہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوتا۔ اس وقت انسان اللہ سے جو باتیں کرتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ یہ وقت ظاہر وباطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے۔ 
رات کی تنہائیوں میں جو شخص اپنی نیند کی قربانی دے کر عبادت کے لئے اٹھے گا اس میں دکھاوا ،ریا کاری نہیں، اس عبادت کو دیکھنے والا کوئی نہیں اس راز ونیاز میں اللہ اور بندے کے سوا کوئی تیسرا نہیں آتا۔ 
اس عبادت سے انسان میں ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں زیادہ مضبوطی سے چل سکتا ہے، دنیا کے مسائل سے پریشان نہیں ہوتا۔ اپنے معاملات کو اللہ کریم کے سپرد کر دیتا ہے۔ 
اور دین حق کی راہ میں جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ان کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتا ہے۔

رات کی تنہائیوں میں قرآن پاک کو سکون کیساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ وقت سکون کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں انسان قرآن میں غور و خوض کر سکتا ہے اللہ اسپر اپنی رحمت اتار دیتا ہے۔

اپنی روز مرہ مصروفیات کے باوجود اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہ ہونا۔ اللہ کو ہر حال میں یاد کرتے رہنا۔ کسی نہ کسی شکل میں اللہ کو ہمیشہ یاد کرتے رہنا یہ تمہارے لیے ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔

اللہ کو اپنا وکیل بنالو

اپنے ہر کام میں اللہ کو اپنا وکیل بناؤ وہ تمہارا مقدمہ بہتر لڑے گا۔ اپنے سارے کام اس کو سونپ دو اور تم اپنے حصے کا کام کرو۔ 
اللہ کی تبلیغ کے دوران مشرکین تمہارے راستے میں آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے تم اپنا کام کئے جاؤ اللہ تمہاری راہ نمائی کرے گا اور مدد بھی کرے گا۔ تمہارا رب عالمین کا رب ہے تمام اختیارات اس کے پاس ہیں یہ خدائی کا انکار کرنے والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ کی ذاتِ مبارکہ پر بھروسہ کرو وہ تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ تمہارے مخالفین سے نمٹ لیگا۔


تفسیر 11  تا 20 

 پیغمبر اسلام کو ھدایت دی جارہی ہے کہ مشرکین مکہ کی باتوں پر کان مت دھرو۔ ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو ان کی بیہودگی کو نظر انداز کرکے اپنے مشن پر دھیان دو۔  
اللہ نے مشرکین مکہ کو سخت ترین عذاب سے ڈرایا ہے۔
اللہ نے پیغمبرِ اسلام کو گواہ بنا کر بھیجا تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہے۔ اور آخرت میں جب اللہ تعالٰی کی عدالت قائم ہوگی تو رسول کہہ سکیں کہ میں نے ان لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا۔ 
رات کی عبادت کے حکم میں ابتدا میں اللہ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کیا تھا لیکن اس وقت کے مسلمانوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بناء پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی رات کی اس عبادت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

قرآن کریم کی تلاوت مسلمانوں پر فرض ہے کیونکہ نماز میں تلاوت ہی کیجاتی ہے

اللہ کا فضل تلاش کرنا
جائز اور حلال طریقے سے رزق کمانے کے لئے سفر کرنے کو قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 
جو انسان رزق حلال کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے اللہ کی رحمت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حلال رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے۔ جس سے مراد ہے کہ ان میں یعنی سفر اور جہاد کے دوران تہجد میں اپنے حساب سے کمی بیشی کرلے۔ ان اوقات میں انسان کو جتنی سہولت ہو اتنا قرآن پڑھے۔ 
اسلام میں جائز رزق کمانے کی بڑی اہمیت ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ

"اپنے آپ اور گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچاؤ"
صحابہ کرام نے جب اس حدیث کی تشریح چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مال حرام پر پلنے والا جسم جہنم کا ایندھن بنے گا۔ 
ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم ہے

" رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے" 

اللہ کو اچھا قرض دو
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، بندگان خدا کی مدد ہو ، رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے ہو، یا پھر دوسرے بھلائی کے کاموں کے لیے جس سے مخلوق خدا فیض یاب ہو۔ 
اللہ کو قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ
اس کی مخلوقات کی خدمت میں اپنا مال لگاؤ جب تم اللہ کی بارگاہ میں روز قیامت حاضر ہوگے تو اپنا حصہ وہاں موجود پاؤ گے۔ 
جو تم اللہ کی بارگاہ میں بھیجو گے وہ تمہارے لیئے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا ہے اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔
انسان کہتا ہے میرا مال، میرا مال
اس کا مال وہی ہے جو یا تو اس نے خرچ کر دیا یا اللہ کو قرض دیکر اس کی بارگاہ میں پہنچا دیا۔ باقی اس کے مرنے کے بعد جو رہ گیا اس پر دوسرے قابض ہو جائیں گے۔ 
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ پانی کا صدقہ اللہ کی بارگاہ میں بہت مقبول ہے۔ کسی مسلمان کی پانی کی ضرورت پوری کردیں۔ کوئی ضرورت مند ہے محتاج ہے ہاتھ نہیں پھیلاتا آپ اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کردیں اس کے موٹر کا بل ادا کردیں۔ ٹینک بنوانے میں اس کی مدد کردیں۔ مسجدوں میں پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہاں پانی کے انتظامات سے نمازیوں کو سہولت ہوگی اور آپ صدقہِ جاریہ کمائیں گے۔ جانوروں کے لئے پانی کا اہتمام کیجئے بے زبانوں پر رحم کریں گے اللہ آپ پر رحم فرمائے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا
تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے۔
لوگوں نے عرض کیا۔۔۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ 
فرمایا۔۔۔۔
"سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو"
لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا حال واقعی یہی ہے۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
" تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لئے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک رکھا ہے وہ تو وارث کا مال ہے" ( بخاری، نسائی) 

اللہ سے مغفرت طلب کرنا
اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ بہت پسند ہیں جو اللہ سے مغفرت کرتے ہیں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر اس سے معافی طلب کرتے ہیں۔ اس سے بخشش کے طلب گار ہوتے ہیں۔







ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے


"میں دن میں 70 مرتبہ اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں"
اللہ کے رسول معصوم النبیین ہیں پھر بھی اللہ کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے وہ ہر سانس کے ساتھ گناہ کرتا ہے اور اللہ کی ذاتِ مبارکہ اس قدر رحیم اور شفیق ہے کہ وہ بندے کے گناہ پر فوری گرفت نہیں کرتی۔ اللہ اپنی شان ستاریت کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ مغفرت طلب کرنے سے رحمت الٰہی فوراً متوجہ ہوتی ہے۔ ندامت کے آنسو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔ اللہ ان قطروں کو ضائع نہیں کرتا۔ اس کی بارگاہ میں انسان کے آنسوؤں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اللہ کو منالو۔ کثرت سے استغفار کرنے سے اللہ بندے سے بہت جلد راضی ہو جاتا ہے۔


فضائلِ رمضان

                       
ماہ رمضان المبارک بڑی ہی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے مبارک ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مقدس کا اکرام کرتے ہیں۔ اس کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں اور اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے اس ماہ مبارک میں قرآن کریم کا نزول فرمایا اور شب قدر کی برکت والی رات کا نزول بھی اسی ماہ مبارک میں ہوتا ہے




اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرتا ہے کہ

" ہم نے اس قرآن کو رمضان میں نازل فرما یا ہے" 

قرآن کریم کو رمضان المبارک کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہے۔ اسی لئے اس ماہ مبارک میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی زیادہ ہے اور رمضان میں عبادتوں پر بھی خاص زور دیا گیا ہے۔ 

حدیث مبارک میں رمضان المبارک کے حوالے سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ۔۔۔۔

" لوگوں تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو سراسر رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ تم میں سے جو کوئی اس ماہ مبارک کو پائے اسے چاہیے کہ وہ اس ماہ مبارک کے روزے

رکھے۔" 

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد مبارک ہے۔۔۔ 

" روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔" 

اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ہر امت پر فرض تھا۔ امت محمدیہ پر اللہ نے 30 روزے فرض کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایمان اور احتساب کے ساتھ ان روزوں کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دیتے ہیں۔ 

ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں ہو کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ رکھا ہے میں اس میں دکھاوے کا کوئ عمل نہیں کروں گا۔ روزہ میں اللہ کا ڈر اور خوف رہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی سامنے رہے۔ 

اپنے روزے کو ضائع ہونے سے بچائے۔ جھوٹ، چغلی، غیبت، اور اس طرح کے تمام غیر شرعی کام سے پرہیز کرے۔ 


*فضائلِ رمضان*

رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، عنایتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے۔ رمضان کی ساعتوں کو cash کریں اور پھر سارا سال عیش کریں۔ رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ حدیث مبارک میں آتا ہے جو قرآن کو توجہ سے (تراویح) میں سنے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔ روزے دار کی دعاؤں پر فرشتے آمین کہتےہیں۔ جن کی دعاؤں پر فرشتے آمین کہیں کیا وہ نامراد رہ سکتا ہے؟؟؟؟ 

اللہ تعالیٰ اتنا کریم ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی کرتا ہے چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی فریاد اس کی آہ بکا کو قبول کرتا ہے۔ پھر ایک مسلمان کی دعا کیوں قبول نہیں ہوگی۔ دعا میں بہت زیادہ محنت کریں۔ اپنے آپ کو دعاؤں میں مشغول رکھیں۔ رمضان المبارک کی ہر ساعت قبولیت والی ساعت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ 

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ

" روزہ دار کیلئے افطار کے وقت دو خوشیاں ہوتی ہیں ایک یہ کہ اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ روزے دار کی دعا افطار کے وقت مقبول بارگاہ ہوتی ہے" 

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

" اے لوگو! تم پر ایک بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس ماہ مبارک کو پالے تو اسے چاہیے کہ اس ماہ مبارک کے روزے رکھے"

اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس ماہ مبارک جوش میں ہوتی ہیں۔۔۔ یہ مہینہ جہن سے خلاصی کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کھولو دیتا ہے


                  *تسبیحات رمضان*


1۔ رمضان المبارک کی پہلی صبح سے لیکر آخری شام تک 41 مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھ کر

   *بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر*

ترجمہ۔۔۔" یا اللہ! ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے بیشک تو ہر چیز کر سکتا ہے"

ہر سحری اور افطاری میں جو شخص اس کے معنی اور اللہ تعالیٰ کی طاقت کا تصور کر کے پڑھے گا اللہ اسے ازل سے ابد تک کی نعمتوں سے نوازے گا اور خیر اس کی طرف متوجہ ہوگی۔


2. اللھم اجرنی من النار۔

ہر نماز کے بعد 7 مرتبہ پڑھے روزے میں گرمی کی پیاس اور شدت بلکل بھی محسوس نہیں ہوگی۔


3. چودہ کڑوڑ نیکیاں۔

سحری میں 20 مرتبہ صدق دل سے پڑھیں اور 14 کڑور نیکیاں پائیں۔

لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ احدا صمدا لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔


4. مراد پانے کا عمل۔

اللھم انی ظلمت نفسی فاغفرلی

پڑھ کر گناہوں کا تصور کر کے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ سے اپنی مراد مانگیں انشاء اللہ رب کریم کی رحمت متوجہ ہو جائے گی۔


5۔ دعائے مغفرت اور ہر مراد پوری۔

پورا رمضان ہر پل ہر سانس کیساتھ کھلی تعداد میں بیحساب دن رات کثرت سے پڑھیں۔


الھم اغفر لی ولوالدی وللمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات۔

یہ دعا انسان کو مستجاب الدعوات بناتی ہے اس دعا کے صدقے میں مخلوق کو رزق بٹتا ہے قضائے حاجات کے لئے یہ دعا اکسیر اعظم ہے۔

شادی بیاہ۔۔۔۔ بندشوں کا خاتمہ۔ ۔۔۔ رزق میں برکتیں۔۔۔۔ لاعلاج بیماریوں کے لئے۔۔۔۔ گھریلو الجھنوں اور مسائل کے حل کے لئے۔۔۔۔۔ اچھے کاروبار کے لئے۔۔۔۔۔ روزگار کے لئے۔۔۔۔ جادو جنّات کے توڑ کے لئے۔۔۔۔۔ حرمین شریفین کی زیارت کے لئے۔۔۔۔۔ یہ دعا ایک لاجواب تحفہ ہے۔

اس دعا میں موجودین اور غائبین کیلئے دعائے مغفرت ہے اس دعا میں تاثیر ہے۔ اس دعا میں محبوبیت ہے۔ اللہ اس دعا کی برکت سے بندے کی حاجات کو پورا فرما دیتا ہے۔

حدیث مبارک کے الفاظ ہیں۔

" جو انسان روزانہ 27 مرتبہ اس دعا کو پڑھے اللہ اس کے لئے خیر اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ 

یہ دعا بندوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے چاہئیے کہ اس کی قدر کریں۔


6. رمضان المبارک میں رشتہ کا خصوصی مجرب عمل۔

رمضان المبارک کی گیارھویں اور بارھویں روزے کی درمیانی رات بعد نمازِ عشاء 12 نفل اسطرح ادا کریں کہ ہر رکعت میں سورت الفاتحہ کے بعد ایک بار سورت الاخلاص پڑھے۔ 12 نفل پڑھ کر 💯 مرتبہ درودشریف پڑھ کر اس کا ثواب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچائیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں رشتے کیلئے دعا کریں۔۔ انشاء اللہ اگلے رمضان المبارک تک اس کی مراد پوری ہوگی۔ مجرب عمل ہے جس نے بھی کیا لاجواب پایا ہے۔ 


7.سحری میں جو بندہ دو رکعت نماز تہجد پڑھ کر 💯 مرتبہ استغفار اور 💯 مرتبہ درودشریف پڑھے پھر من کی مراد مانگے اللہ پوری فرمائے گا پورا مہینہ اس عمل کو اپنا ساتھی بنالیں پورے مہینے میں کوئی رات تو ایسی ہوگی کہ الل آپ کی دعا کو مستجاب بنادیگا۔ اس کی شان کریمی پہ نظر رہے مشکل آسان ہوجائیگی۔ 


8. رمضان المبارک میں قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنا اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔


9. رمضان المبارک میں بعد نماز ظہر سورت الکافرون ایک ہزار ایک مرتبہ ایک ہی وقت میں پڑھیں۔ یہ ایک نصاب ہے اگر آپ اس طرح سات یا گیارہ نصاب پڑھتے ہیں تو ہر قسم کی بندشوں جادو جنّات سے حفاظت ہو جائے گی ۔ پڑھتے وقت پانی، شہد، چینی غرض جو بھی چیزیں آپ رکھنا چاہیں رکھ لیں اور پڑھنے کے بعد دم کردیں۔ ضرورت کے وقت اس میں سے تھوڑا سا نکال کر ملاتے رہیں ہر طرح کی بیماریوں سے نجات حاصل ہو گی۔ گھریلو الجھنوں پریشانیاں مشکلات دور ہوں گی۔ لاعلاج بیماریوں کے لئے اس عمل میں شفا ہے۔ اور روزے کی حالت میں اس عمل میں اور تاثیر آجاتی ہے۔


10. رمضان المبارک میں ہر وقت تسبیحات کو اپنے اوپر لازم کرلیں اللہ کی رحمت لوٹ لیں۔ہر پل اس کی یاد میں اس کے ذکر میں گزاریں ان لمحات کو قیمتی بنالیں۔ ہر گھڑی اس کی یاد میں گزار کر اپنے لمحات کو قیمتی بنالیں کہ شاید پھر وقت نہ مل سکے۔

              


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔۔۔

" جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام باب الریان ہے اس دروازے میں سے جنت کے اندر صرف روزے رکھنے والے داخل ہونگے" 

ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اس مہینے میں اللہ کی ایک خاص رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔

روزہ اور قرآن بندے کی سفارش کریں گے روزہ کہے گا اے پروردگار میں نے اسے کھانے اور خواہشات سے دن میں روکے رکھا پس اس کے لئے میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات کی نیند سے باز رکھا اس کے حق میں میری سفارش قبول کر چنانچہ ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ 


ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" اے لوگو ایک بڑے مہینے نے تم پر سایہ ڈالا ہے جو بڑا بابرکت مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دئیے ہیں اور اس کی رات کی عبادت نفل قرار دی ہے۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ غمخواری کا مہینہ ہے اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے وہ اس کے لئے گناہوں کی بخشش کا سبب ہوتا ہے اور دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ۔۔۔ اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ملتا ہے۔ یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کے ابتداء میں رحمت ہے۔۔۔ درمیان میں مغفرت ہے۔۔۔۔۔ اور آخر میں دوزخ سے نجات ہے۔" 



** سحری و افطار**


حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔

" سحری کھاؤ اس لئے کہ سحر کھانے میں برکت ہے" 

حضرت عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے رمضان میں سحری کھانے کے لئے طلب فرمایا اور کہا۔۔۔ بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

" مومن کا بہترین سحر کا کھانا کھجور ہے"

حضرت عمر بن العاص کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

" ہمارے اور اہل کتاب ( یہود ونصاریٰ) کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ ( یہود ونصاریٰ رات کو سوجانے کے بعد کھانا حرام سمجھتے تھے اور ابتدائے اسلام میں بھی یہی حکم تھا پھر حکم بدل گیا) ۔

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔

" جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے" 

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔

" جب تم میں سے کوئی اذان فجر کی آواز سنے اور اس کے ہاتھ میں پانی کا برتن ہو تو برتن اس وقت تک ہاتھ سے نہ رکھے جب تک اپنی ضرورت پوری نہ کر لے، یعنی پانی پینا ہو تو پی لے۔" 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو فرماتے۔۔۔

" اللھم انی لک صمت وعلی رزقک افطرت۔۔۔

یعنی اے اللہ! میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر میں نے افطار کیا" 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہ


ے،

" دین ہمیشہ غالب رہیگا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے اس لیے کہ یہود ونصاریٰ روزہ افطار کرنے میں دیر کرتے ہیں"


دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب فرمائے اور اس رمضان المبارک کو ہمارے لئے بخشش اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا دے


روزے سے مراد ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرے۔

نماز کی طرح یہ عبارت بھی ابتدا سے تمام پیغمبروں کی شریعت میں فرض رہی ہے۔

قرآن کریم میں سورہ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ہوتا ہے

" اے مسلمانوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے" 

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے جتنی شریعتیں آئیں وہ کبھی روزے کی عبادت سے خالی نہیں رہی ہیں۔





*روزے کا اصل مقصد کیا ہے*


*کیوں روزے کی عبادت کو ہر زمانے میں فرض کیا گیا*

روزے کا اصل مقصد بندگئ رب ہے۔ اسلام کا اصل مقصد پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت بنا دینا ہے۔ اللہ کی عبادت سے اس کے خیال سے بندے کو ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وقت انسان کے مد نظر یہ بات رہے کہ اس کے رب کی رضا اور خوشنودی کس چیز میں ہے۔ اس کی ناراضگی اور غضب والے کام نہیں کرنے چاہیے۔ جدھر اللہ کی رضا ہو اسی طرف جانا چاہیے اور جو راستہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔


*جب انسان کی ساری زندگی اللہ کے رنگ میں رنگ جائے تو سمجھو کہ اس نے بندگی کا حق ادا کر دیا۔ 


*عبادات تربیت کا حصہ ہیں*

 عبادات کو فرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنا دیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔

روزہ انسان کی تربیت کرتا ہے۔ اپنے وقت پر سحری کرنا۔ اپنے اوقات میں روزہ افطار کرنا۔ایک مقررہ وقت تک کھانے پینے سے پرہیز کرنا۔ تراویح پڑھنا۔ نظم و ضبط کی تربیت روزے میں دی گئی سب ایک ہی وقت میں روزہ رکھنا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا۔ روزے کی انفرادی عبادت اجتماعی عبادت بن گئی۔ 

رمضان المبارک کا مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیز گاری کی روح سے بھر دیتا ہے۔ 

پوری قوم میں تقوی کی کھیتی ہری بھری ہو جاتی ہے۔ 

ہر شخص گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مہینہ نیکیوں اور بھلائیوں کے پھلنے پھولنے کا مہینہ ہے۔ 

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔


 " آدمی کا ہر عمل اللہ کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کا جتنا چاہوں بدلہ دیتا ہوں۔ "

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والے کی نیت اور نیکی کے نتائج کے لحاظ سے تمام اعمال پھلتے پھولتے ہیں۔ اور ان کی ترقی کے لیے ایک حد ہے۔۔۔ مگر روزے کی ترقی کے لئے کوئی حد نہیں ہے۔ اللہ کی مرضی وہ جتنا چاہے روزے کا اجر و ثواب دے۔ 

جتنی زیادہ نیک نیتی کے ساتھ اس ماہ مبارک میں عمل کریں گے اتنا ہی فوائد حاصل ہوں گے۔ 



ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" جو بندہ روزے کی حالت میں صبح کرتا ہے اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کے اعضاء تسبیح کرتے ہیں اور آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتے سورج ڈوبنے تک اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ 

اگر وہ دو رکعت پڑھتا ہے تو آسمان میں اس کے لئے نور روشن ہو جاتا ہے اور اگر وہ

لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ۔۔۔۔

سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔

یا اللہ اکبر

پڑھتا ہے تو

ستر ہزار فرشتے سورج ڈوبنے تک اس کے نامہ اعمال میں ثواب لکھتے ہیں۔


قیامت والے دن روزے داروں کے لئے سونے کا ایک دستر خوان رکھا جائے گا حالانکہ لوگ حساب کتاب کے منتظر ہوں گے۔


* روزہ مخفی عبادت ہے*

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدا اور بندے کے سوا کسی پر نہیں کھل سکتا۔ روزہ ایمان کی مضبوطی کی علامت ہے کیونکہ آپ سب سے چھپ کر بھی کچھ نہیں کھاتے کیونکہ آپ نے اللہ کے لئے روزہ رکھا ہے اور آپ نے اسی کو دکھانا ہے۔ روزے کی حالت میں کچھ بھی ہو جائے انسان اپنا روزہ نہیں توڑتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے اللہ کے عالم الغیب ہونے پر یقین ہے۔ اللہ کے خوف اور اس کی چاہت کی وجہ سے وہ اپنا روزہ نہیں توڑتا اور روزے کی ہر تکلیف برداشت کرتا ہے۔ وہ مہینہ میں کم از کم 360 گھنٹے کے روزے رکھتا ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے۔ صرف اس لیے کہ اس کا قرب نصیب ہو جائے۔ وہ راضی ہو جائے۔ یہ ہے بندگی کا اصل مقصد۔ 

انسان ایک ماہ تک مسلسل اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالتا ہے جتنا انسان اس آزمائش میں پورا اترتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ اور ایمان کی یہ مضبوطی انسان کو متقی اور پرہیز گار بناتی ہے۔


* سوال ہے کہ ہماری عبادتوں کے نتائج ویسے ظاہر کیوں نہیں ہوتے جیسے قرآن ظاہر فرماتا ہے؟ *


جواب یہ ہے کہ اصل میں ہمیں عبادات کی صحیح روح کا پتہ نہیں ہوتا۔ انسان کا نقطہ نظر عبادت کے متعلق بدل گیا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھانے پینے کا نام روزہ ہے۔ حالانکہ حدیث مبارک ہے۔۔۔۔


" بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا "

مطلب کیا ہوا کہ وہ روزے کی حالت میں غیر شرعی کام کرتے ہیں۔ دوسروں کی برائی، غیبت، گالی گلوج، احکام شریعہ کی پابندی نہیں کرتے۔ تو روزے کی اصل روح بھی ان پر ظاہر نہیں ہوتی وہ روزے کے اصل فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں۔ یہی حال دوسری عبادات کا بھی ہے۔ پھر اصل چیز رزق حلال ہے۔ تمام جانی، مالی، بدنی عبادات اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں جب ذرائع حلال کے ہوں ۔ ناجائز طریقے استعمال کر کے، دوسروں کا حق مار کر عبادت کی تو، اللہ ایسی عبادت قبول نہیں کرتا۔ 

اسی لئے حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے


" حرام رزق پر پلنے والا جسم جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیگا "

اتنے بڑے فرمان کے باوجود بھی اگر کوئی اپنی روش نہ چھوڑے تو آپ خود فیصلہ کر لیں قصور وار کون ہے۔۔۔۔

جب تک انسان عبادت کی اصل روح سے واقف نہیں ہوگا اس کے ثمرات سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتا۔ اسلئے جب آپ عبادت میں محنت کرتے ہیں تو اس کی روح کے ساتھ کریں۔ 

عبادات کی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان اس کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں۔ وہ سوچے کہ اس عبادت کا اصل مقصد کیا ہے اللہ اس عبادت کے ذریعے بندے سے چاہتا کیا ہے۔وہ انسان کو کس مقام پہ لیجانا چاہتا ہے اور کیسے عبادت کا اصل حق ادا کر سکتا ہے۔ 


*روزے کے اصل مقاصد*

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور خاص طور پر یہ سمجھایا ہے کہ روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ فرمایا۔۔۔۔

" جس کسی نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اس کے کھانا پانی چھوڑ دینے سے اللہ کو کوئی سروکار نہیں۔" 

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت یہ ہے کہ اللہ کے احکامات کی اس کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ کوئی بھی کام اس کی رضا کے خلاف نہ کیا جائے۔ 

حدیث مبارک ہے۔۔۔۔


" ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزوں سے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں" 

اگر انسان اپنے روزے کی حفاظت کرتا ہے جھوٹ نہیں بولتا، غیبت نہیں کرتا، کسی کی دل آزاری نہیں کرتا اور ایسے خلاف شرع کوئی کام نہیں کرتا تو یہ روزے اس کے لئے بخششوں کا سامان بن جائیں گے، اللہ کے قرب کا ذریعہ بنیں گے۔ ایمان یہ ہے کہ اللہ کے ہر حکم کو مانا جائے۔ اللہ کے کسی بھی حکم میں سر کشی نہ کیجائے۔ بس اللہ نے جو حکم دیا ہے اسے بلا چون و چرا مان لیا جائے۔ 

روزے کی حالت میں انسان کو نیکیوں کی طرف لپکنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

رحمتہ اللعالمین

تھے۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ کی سخاوت، دریا دلی عروج پر پہنچ جاتی تھی۔

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ۔۔۔۔

" حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم رمضان المبارک کے مہینہ میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔ کوئی سائل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا، اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیدیوں کو کثرت سے رہا فرماتے تھے۔"


** سحری کی برکت **

ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل کرتے ہیں" 

اللہ تبارک وتعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ سحری کو امت کے لئے اجر و ثواب کی چیز بنا دیا۔ علماء کے نزدیک  17 صحابہ سے سحری کی فضیلت اور احادیث رقم کی گئی ہیں۔ 

ایک جگہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا ہے

" تین چیزوں میں برکت ہے۔۔۔ 1 ۔ جماعت میں،،

2 ۔ ثرید میں،، 3 ۔ سحری کھانے میں،، 

اس حدیث مبارک میں جماعت سے مراد ہر وہ کام ہے جس کو مسلمان مل کر سر انجام دیں جماعت میں اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے۔۔۔۔

ثرید گوشت میں پکی ہوئی روٹی ہوتی ہے جو کہ نہایت لذیذ کھانا ہوتا ہے اور سحری میں اللہ کی رحمت اور برکت ہوتی ہے۔

ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ

سحری کھا کر روزے پر قوت حاصل کرو اور دوپہر کو سو کر اخیر شب کے اٹھنے پر مدد چاہو۔ 

روایتوں میں بار بار آتا ہے کہ سحری ایک برکت والی چیز ہے جو اللہ نے اس امت کو عطا فرمائی ہے اس کو مت چھوڑنا۔۔۔۔ حتیٰ کہ ارشاد ہوا کچھ نہ ہو تو ایک چوہارہ ہی کھا لے یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے۔  

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت رکھو ، جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔

جو انسان کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے کو میرے حوض کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ 


**افطار کا اہتمام کرنا**

 احادیث مبارکہ میں روزہ افطار کرانے کی فضیلت بیان ہوئی ہیں روایات میں آتا ہے

جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور شب قدر میں جبرئیل علیہ السلام اس بندے سے مصافحہ کرتے ہیں اور جس سے جبرئیل مصافحہ کرتے ہیں اس کے دل میں رقت طاری ہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،

" میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہیں جو کسی اور امت کو عطا نہیں ہوئیں۔

1 ۔ ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

2 ۔ ان کے لئے دریا کی مچھلی سحری سے افطار تک دعا کرتی ہیں۔

3 ۔ جنت ہر روز ان کے لئے آراستہ کی جاتی ہے اور اللہ ارشاد فرماتا ہے عنقریب میرے بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر اس میں چین سے آباد ہونگے۔

4 ۔ رمضان المبارک میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں۔

5 ۔ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزہ داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے۔۔۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟؟ فرمایا نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہو نے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ 


**رمضان المبارک میں قبولیت دعا**

 رمضان المبارک میں روزے دار کی دعا کا قبول ہونا بہت سی روایات سے ثابت ہے۔ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔

افطار کی مشہور دعا یہ ہے


اللہم لک صمت وبک امنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت۔

ترجمہ۔۔۔۔ اے اللہ! تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تجھی پر ایمان لایا ہوں اور تجھی پر بھروسہ ہے تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا بھی کرتے تھے۔

یا واسع الفضل اغفرلی۔۔۔۔۔ اے وسیع عطا والے! میری مغفرت فرما۔۔۔

رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا۔  رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر تلاش کرنے والو متوجہ ہو اور آگے بڑھو۔۔۔ اور اے برائی کے طلب گار بس کر اور آنکھیں کھول۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کیجائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔۔۔ جن کا کھانا، پینا، لباس، کمائی حرام کی ہو ان کی دعائیں بلکہ ان کی کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کونکہ اسلام نے عبادات کے معاملات میں رزق حلال کو بنیاد بنایا ہے۔ بنیاد ہی حرام پر ہو تو اثر کہاں سے ہوگا۔ اسی بات کو حدیث مبارک میں اسطرح بیان کیا گیا ہے کہ

" بہت سے پریشان حال آسمان کی طرف ہاتھ کھینچ کر دعا مانگتے ہیں اور یا رب یا رب کرتے ہیں مگر کھانا حرام، پینا حرام،  لباس حرام ایسی حالت میں دعا کہاں قبول ہوسکتی ہے" 

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔

1 ۔ کلمہ شہادت

2 ۔ نماز

3 ۔ روزہ

جو شخص ان میں سے ایک بھی چھوڑ دے وہ کافر ہے، اس کا خون کر دینا حلال ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ایسے لوگوں کے لیے سخت سے سخت وارد ہوئے ہیں۔ فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ کے قہر سے بہت ہی زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے کہ موت سے کسی کو چارہ نہیں ہے۔ اللہ کی اطاعت ہی دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔

 فقہاء نے فتویٰ دیا ہے کہ جو کوئی رمضان المبارک میں علی الاعلان بغیر عذر کے کھائے اس کو قتل کر دیا جائے ۔ فرائض میں کوتاہی کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے ۔ معاشرے میں امن اللہ کے احکامات کی پیروی میں ہے۔ اس سے کوتاہی دنیا و آخرت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین مبین پر چلنے والا بنائے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے والا اور فرائص ادا کرنے والا بنائے۔ ہمیں موت اس حال میں آئے کہ وہ ہم سے راضی ہو۔

Visit: facebook.com/articlesbyshumaila

***************************************

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...