نور کا سفر۔۔۔ اللہ کا ذکر کامیابی کی ضمانت ہے

 اللہ تعالیٰ کا ذکر کامیابی کی ضمانت ہے۔۔۔ کامیابی وکامرانی وہ جو دنیا و آخرت کی ہو۔۔۔ ذکر کے معنی ہیں۔۔۔ یاد کرنا۔۔۔


  حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں ذکر کی دو اقسام  ہیں۔۔۔ ایک ذکر معدوم۔۔۔ دوسرا ذکر معلوم۔۔۔

 ذکر معدوم وہ ذکر ہے جو لاشعور میں سبھی کرتے ہیں۔۔۔ جیسے کہ سورہ الحشر کی آیت 28 میں فرمان حق تعالیٰ ہے۔۔۔

 زمین وآسمان کی ہر چیز اللہ بزرگ و برتر کی تسبیح کرتی ہے۔۔۔ اور وہ عظیم اور حکیم ہے۔۔۔ دوسرا ذکر۔۔۔ ذکر معلوم ہے۔۔۔ جو جن و انس پر فرض ہے۔۔۔ جس کے لیے کوشش کرنا۔۔۔ وسیلت اختیار کرنا ان پر لازم ہے۔۔۔ تصور اسم اللہ ذات ہی وہ ذکر ہے کہ جس سے۔۔۔ مشاہدہ انوار دیدار پروردگار نصیب ہوتا ہے۔۔۔ 

  حضرت سخی سلطان باہو فرماتے ہیں۔۔۔ طالب ایسے ہونے چاہیے جن کے دل ہر وقت۔۔۔اللہ کی یاد میں گم رہیں۔۔۔ہر وقت ذکر الہٰی کریں۔۔۔وہ ذکر جو بغیر آواز نکالے۔۔۔ سانسوں کے ساتھ ہو۔۔۔وہ ذکر اللہ ربّ العزت کی بارگاہ میں۔۔۔ منظور کیا جاتا ہے۔۔۔

حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔ میں زمین و آسمانوں میں نہیں سما تا۔۔۔ بلکہ بندہ مومن کے دل میں۔۔۔ سما جاتا ہوں۔۔۔

   اللہ تعالیٰ کی محبت جب دل کے اندر گھر کر لیتی ہے۔۔۔تو دوسری ہر محبت جل کر راکھ ہو جاتی ہے۔۔۔ اور صرف رب العالمین کی محبت۔۔۔ اور عشق باقی رہ جاتا ہے۔۔۔ 

 ارشاد رب العزت ہے۔۔۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہیں۔۔۔ کھڑے بیٹھے اور پہلوؤں کے بل۔۔۔ 

سورہ آل عمران۔۔۔ 191  


ذکر الہٰی اور دل کی صفائی۔۔۔

” اے اہلِ ایمان تم اللہ تعالیٰ کو کثرت۔۔۔ سے یاد کیا کرو۔“(القرآن)۔۔۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے۔۔۔

” ہر چیز کے لئے صفائی کی کوئی۔۔۔ چیز ہوتی ہے اور دلوں کی صفائی کے لئے ۔۔۔اللہ کا ذکر ہے۔“

حضرت ابن عباس ؓ ۔۔۔اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ۔۔۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر۔۔۔ کوئی ایسی عبادت فرض نہیں کی۔۔۔ کہ اس میں معذور آدمی کا عذر قبول نہ فرمایا ہو۔۔۔ مگر ذکر الہٰی ایسی عبادت ہے ۔۔۔جس کی کوئی حد مقرر نہیں ہے۔۔۔ کوئی اللہ کے ذکر سے معذور نہیں ۔۔۔البتہ مغلوب الحال کا معاملہ الگ ہے ۔۔۔اور فرمایا اللہ کا ذکر کھڑے ہوئے۔۔۔ بیٹھے ہوئے۔۔۔ رات ہو یا دن۔۔۔ ذکر دل سے ہو۔۔۔ زبان سے ہو ۔۔۔خشکی میں سمندر میں ہو۔۔۔ بندہ خوشحال ہو یا غریب الحال ہو۔۔۔تندرست ہو یا بیمار جس حال میں بھی ہو۔۔۔ بندہ کو چاہیئے کہ اللہ کا ذکر کرتا رہے۔۔۔


کامیابی کا دارومدار۔۔۔ احیاء قلب پر ہے۔۔۔ فرمان پروردگار نے۔۔۔ بیشک اس میں۔۔۔ دل والے کے لیے نصیحت ہے۔۔۔  سورہ ق۔۔۔ آیت۔۔۔ 37۔۔ 

 جو دل اللہ تعالیٰ کا مسکن ہوتا ہے وہ ایک مومن کا دل ہے۔۔۔ خدا دلوں میں رہتا ہے۔۔۔

سلطان باہو فرماتے ہیں۔۔۔ جب کوئی آدمی اہل اسلام عارف باللہ کے دل کو۔۔۔ ٹھیس پہنچاتا ہے تو اٹھارہ ہزار عالم کی۔۔۔جملہ مخلوق بلکہ عرش و کرسی کی تمام مخلوق میں۔۔۔ تہلکہ مچ جاتا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔۔ اے حاملان عرش و کرسی۔۔۔ تم اس طرح جنبش میں کیوں ہو؟۔۔۔ وہ عرض کرتے ہیں۔۔۔ کہ ایک مومن کا دل۔۔۔ کسی نے دکھایا ہے۔۔۔ اور وہ جلالیت میں آکر۔۔۔ جنبش کر رہا ہے۔۔۔ اس پر اللہ تعالیٰ کا۔۔۔ قہر و غضب۔۔۔ دکھ دینے والے پر نازل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ میں اس سے اللہ کی پناہ۔۔۔ مانگتا ہوں۔۔۔

 جو اللہ کے ہو جاتے ہیں۔۔۔ کامیابی وکامرانی کی۔۔۔ خوشحالی کی راہیں۔۔۔ ان کے لئے کھل جاتی ہیں۔۔۔ اور ان سے۔۔۔ مخلوق خدا فیض یاب ہونا شروع ہو جاتی ہے۔۔۔


جو دل اللہ کی یاد میں۔۔۔ دھڑکتا ہے وہ عرش کو ہلا کر رکھ دیتا ہے۔۔۔ ایسا صاحب دل۔۔۔ عرش کو زیر قدم فرش بنا لیتا ہے۔۔۔

  سورہ الاحزاب کی آیت 41... 42...  میں حق سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے۔۔۔

  اے ایمان والو۔۔۔  اللہ تعالیٰ کا ذکر۔۔۔ کثرت سے کرو۔۔۔ اور صبح شام اس کی پاکی بیان کرو۔۔۔ حدیثِ مبارکہ میں آتا ہے۔۔۔

 اللہ تعالیٰ کا ذکر۔۔۔  اس کثرت سے کرو کہ لوگ تمہیں۔۔۔ دیوانہ کہنے لگیں۔۔۔

  یہ آیت مبارکہ اور حدیث اس عبادت کی تفسیر ہے۔۔۔جس کے لیے رب العزت نے۔۔۔ جن و انس کو پیدا فرمایا۔۔۔اس فرمان میں اللہ تعالیٰ نے۔۔۔مومنوں پر عبادت کامل کے لیے۔۔۔ فقط دو اعمال فرض کئے ہیں۔۔۔ ایک عمل ذکر اللہ ہے۔۔۔ اور دوسرا عمل تسبیح ہے۔۔۔ عبادت کامل کا پہلا فرض۔۔۔ اللہ کا ذکر ہے۔۔۔ جو ہمیں کثرت سے کرنا ہے۔۔۔ فرمان حق تعالیٰ ہے۔۔۔ 

پس تم اللہ کا ذکر کرو۔۔۔ چاہے کھڑے ہو۔۔۔ بیٹھےہو۔۔۔ یا  لیٹے ہو۔۔۔

 انسان کی یہی تین حالتیں ہوتی ہیں۔۔۔ یا تو وہ کھڑا ہوتا ہے۔۔۔ یا بیٹھا ہوتا ہے۔۔۔ یا لیٹا ہوتا ہے۔۔۔ چوتھی کوئی حالت تو اس کی۔۔۔ ہوتی نہیں۔۔۔ اور اللہ کا ذکر ہر حالت میں۔۔۔ فرض ہے۔۔۔ 

حدیثِ مبارکہ میں اس آیت مبارکہ کی تشریح۔۔۔ اس طرح فرمائی گئی ہے۔۔۔

  زندگی کے سانس۔۔۔ گنے ہوئے ہیں۔۔۔ جو سانس اللہ کے ذکر کے بغیر۔۔۔ گزرے وہ مردہ ہیں۔۔۔ 

اللہ کا ذکر فرض ہے۔۔۔ ہر سانس پر۔۔۔ اور سانس کبھی رکتی نہیں۔۔۔ 



ذکرِ الٰہی انوار کی کنجی ہے۔۔۔ بصیرت کا آغاز ہے۔۔۔ اور جمال فطرت کا اقرار ہے۔۔۔ یہ حصول علم کا جال ہے۔۔۔ یہ تماشہ گاہ ہستی کی جلوہ آرائیوں۔۔۔ اور حسن آفرینیوں کا اقرار ہے۔۔۔ ذاکر کے ذکر میں۔۔۔ زاہد کے فکر میں۔۔۔ خالق ِ آفاق کی جھلک نظر آتی ہے۔۔۔ ذکر الٰہی دراصل خالق حقیقی سے رابطے کی ایک شکل ہے۔۔۔

ذکر ِ اللہ سے قلوب۔۔۔  منور ہو جاتے ہیں۔۔۔ ذکرِ اللہ ہی وہ راستہ اور دروازہ ہے ۔۔۔جس کے ذریعے ایک بندہ۔۔۔ بارگاہ الٰہی تک پہنچ سکتا ہے۔۔۔

 حضرت ابو ہریرہ ؓ اور حضرت ابو سعید خدری ؓ سے۔۔۔ روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔

” جب بھی اور جہاں بھی کچھ ۔۔۔ بندگانِ خدا اللہ کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ تو لازمی طور پر فرشتے ہر طرف سے ۔۔۔ان کے گرد جمع ہو جاتے ہیں۔۔۔ اور ان کو گھیر لیتے ہیں۔۔۔ اور رحمت ِ الٰہی ان پر چھا جاتی ہے۔۔۔ اور ان کو اپنے سایہ میں لے لیتی ہے ۔۔۔ اور ان پر سکینہ کی کیفیت۔۔۔ نازل ہوتی ہے اور اللہ اپنے مقربین فرشتوں میں۔۔۔ ان کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ (صحیح مسلم)

بخاری شریف میں  حضرت ابو ہریرہ ؓ ۔۔۔ راوی ہیں۔۔۔  سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے۔۔۔ 

” اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ ۔۔۔ جس وقت بندہ میرا ذکر کرتا ہے۔۔۔  اور میری یاد میں اس کے ہونٹ حرکت کرتے ہیں۔۔۔ تو اس وقت مَیں اپنے اس بندہ کے ساتھ ہوتا ہوں۔۔۔“

حضرت ابو الدرداءؓ سے روایت ہے ۔۔۔ کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔

” کیا مَیں تم کو وہ عمل بتاﺅں ۔۔۔ جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر۔۔۔ اور تمہارے مالک کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے ۔۔۔اور تمہارے درجوں کو دوسرے تمام اعمال سے ۔۔۔زیادہ بلند کرنے والا ہے اور اللہ کی راہ میں ۔۔۔سونا اور چاندی خرچ کرنے سے بھی۔۔۔ زیادہ اس میں خیر ہے ۔۔۔اور اس جہاد سے بھی زیادہ تمہارے لئے۔۔۔ اس میں خیر ہے۔۔۔ جس میں تم اپنے دشمنوں۔۔۔ اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اتارو۔۔۔ اور وہ تمہیں ذبح کریں اور شہید کریں؟۔۔۔

 صحابہ ؓ نے عرض کیا۔۔۔ ہاں یا رسول اللہﷺ ! ایسا قیمتی عمل ضرور بتایئے۔۔۔

آپ نے فرمایا۔۔۔وہ اللہ کا ذکر ہے۔۔۔“(بحوالہ جامع ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ ۔۔۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔

” اس دُنیا کی وہ تمام چیزیں ۔۔۔جن پر سورج کی روشنی اور اس کی شعاعیں پڑتی ہیں۔۔۔ ان سب چیزوں کے مقابلے میں مجھے یہ۔۔۔ زیادہ محبوب ہے کہ مَیں ایک بار سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر کہوں۔۔۔“

ہر آتی جاتی سانس پر۔۔۔ اللہ کا ذکر فرض قرار دیا گیا ہے۔۔۔ ذاکرین کا رتبہ بہت بلند ہے۔۔۔ ذکر کرنے والے ذندہ ہوتے ہیں۔۔۔ اور ذکر نہ کرنے والوں کو مردہ کہا گیا ہے۔۔۔

 آپ ﷺ کا مبارک ارشادہے۔۔۔ کہ جو ذکر کرنے والے اور جو نہیں کرنے والا ہے۔۔۔۔ اس کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔۔۔ یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے ۔۔۔اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔۔۔ ذاکر آدمی زندہ ہوتا ہے۔۔۔ اور جو ذاکر نہیں وہ مردہ ہے۔۔۔

ذاکرین کولوگ بھی نہیں بھولتے

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے۔۔۔ ہمیں پیغمبر اسلام۔۔ یعنی آپﷺ کے ذریعے سے ۔۔۔ پیغام دیا ہے کہ ۔۔۔اپنی امت سے کہہ دیں کہ جنت ایک چٹیل میدان ہے ۔۔۔ اگر تم چاہتے ہو کہ اس میں درخت لگ جائیں تو۔۔۔ ذکر کرو ۔۔۔یہ جنت کے درخت ہیں۔۔۔

سبحان اللہ

کہنے سے درخت لگتاہے ۔۔۔

الحمد اللہ

کہنے سے درخت لگتا ہے۔۔۔

لا الہ الا اللہ

کہنے سے درخت لگتا ہے۔۔۔

اللہ اکبر

کہنے سے درخت لگتا ہے۔۔۔

اس بیان کے بعد۔۔۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا تھا۔۔۔ کہ اس طرح تو ہم۔۔۔ جنت میں بہت سے درخت 🌲 لگا لیں گے۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ اللہ کی شان بہت بلند ہے۔۔۔

 ذکر اللہ کی کثرت سے جنت کے۔۔۔ درجات بلند ہوتے ہیں۔۔۔ 

اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔کہ تم نرم نرم بستروں پر ذکر کرنے والوں کو۔۔۔ ذکر سے نہ روکو۔۔۔

 جو لوگ اپنے نرم گرم بستروں پر۔۔۔ اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں۔۔۔ اللہ ان کو بھی اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔۔۔ جو بستروں پر جاکر بھی اسے یاد رکھتے ہیں۔۔۔ اللہ تعالیٰ ان پر اپنی رحمتیں انڈیل دیتا ہے۔۔۔ کیونکہ وہ تو نیتوں کا حال دیکھتا ہے۔۔۔ 


اللہ کا ذکر کامیابی کی ضمانت ہے۔۔۔ دلوں کا سکون ہے۔۔۔ پرسکون زندگی کا راز اللہ کے ذکر میں پوشیدہ ہے۔۔۔  

عبادت کامل کا دوسرا فرض ۔۔۔ تسبیح ہے۔۔۔ جو ہمیں صبح اور شام کے درمیان مختلف۔۔۔ اوقات میں کرنی ہے۔۔۔ 

تسبیح کیا ہے؟۔۔۔ 

تسبیح ہر وہ عمل ہے جو ہمارا وجود کرتا ہے۔۔۔ مثلاً زبان کلمہ طیبہ پڑھتی ہے۔۔۔ درودشریف پڑھنا۔۔۔ تلاوتِ قرآن کرنا۔۔۔ وجود نماز پڑھتا ہے۔۔۔ روزہ رکھتا ہے۔۔۔ حج کرتا ہے۔۔۔ زکوٰۃ دیتا ہے۔۔۔ جہاد کرتا ہے۔۔۔ زہدو ریاضت کرتا ہے۔۔۔ مراقبہ و محاسبہ کرتا ہے۔۔۔ یا زندگی کا کوئی اور وظیفہ کرتاہے ہے۔۔۔ یہ سب تسبیح ہے۔۔۔  شریعت مطہرہ کے تمام اعمال۔۔۔ جو فرائض و واجبات و سنت و مستحبات پر مشتمل ہیں۔۔۔ سب تسبیح ہے اور تسبیح کے اوقات مقرر ہیں۔۔۔ صبح سے شام اور شام سے صبح تک۔۔۔ نماز کا اپنا وقت ہے۔۔۔ روزے کا اپنا وقت ہے۔۔۔ اسی طرح حج جہاد زکوٰۃ وغیرہ کے اپنے مقررہ اوقات ہیں۔۔۔ یعنی تسبیح وقتی فرض ہے۔۔۔ اور ذکر اللہ دائمی فرض ہے۔۔۔ اور یہ دونوں فرائض ایک دوسرے کے ساتھ۔۔۔ لازم و ملزوم ہیں۔۔۔ 

سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے۔۔۔ جو شخص دائمی فرض ادا نہیں کرتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کے وقتی فرض کو قبول نہیں کرتا۔۔۔ اور جو شخص وقتی فرض ادا نہیں کرتا۔۔۔ اللہ تعالیٰ اس کے دائمی فرض کو بھی قبول نہیں فرماتا۔۔۔

تسبیح انسان کے ظاہر پر فرض ہے۔۔۔اور ذکر اللہ اس کے باطن پر فرض ہے۔۔۔ ظاہر کو جسم اور باطن کو۔۔۔ قلب یا دل کہتے ہیں۔۔۔ باطن اصل ہے اور ظاہر اس کا سایہ ہے۔۔۔ جسم کو دل کے تابع کیا گیا ہے۔۔۔ اللہ تعالیٰ کی نظر دل پر ہے۔۔۔ نہ کہ جسم پر۔۔۔ جسم وہی کام کرتا ہے جس کا حکم اسے دل دیتا ہے۔۔۔ دل انسان ہے اور جسم۔۔۔ اس کا لباس ہے۔۔۔ عبادت دل پر فرض ہے۔۔۔ مگر دل کی عبادت کو۔۔۔ لباس کی طہارت سے مشروط کیا گیا ہے۔۔۔ لباس 👗 ناپاک ہو تو۔۔۔ دل کی عبادت نامقبول قرار پاتی ہے۔۔۔  فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔ 

بیشک اللہ تعالیٰ نہ تو تمہاری۔۔۔ صورتوں کو دیکھتا ہے۔۔۔ اور نہ ہی تمہارے اعمال کو دیکھتا ہے۔۔۔بلکہ وہ تمہارے دلوں اور۔۔۔ نیتوں کو دیکھتا ہے۔۔۔

اللہ کے بندے جب۔۔۔ اس کا ذکر کرتے ہیں تو۔۔۔ ان پر رحمتوں کا نزول ہوتا ہے۔۔۔ حدیثِ قدسی میں آتا ہے۔۔۔  صالحین یعنی خدا کے نیک بندوں کے ذکر کے وقت۔۔۔ خدا کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں۔۔۔ 

اللہ تعالیٰ کا نام۔۔۔ اللہ کا اسم مبارک۔۔۔ نہایت ہی پاکیزہ ہے۔۔۔ اس لئے حدیث قدسی کے مطابق۔۔۔ اسم اللہ پاک مقام کے۔۔۔ کہیں قرار نہیں پکڑتا۔۔۔ اللہ کا ذکر کرو تو۔۔۔ اس کی رضا کے لیے۔۔۔ اس کے قرب کے لئے۔۔۔ اس کی رحمت و شفقت کے لئے۔۔۔ 

صحیح بخاری اورصحیح مسلم میں ۔۔۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث قدسی میں ۔۔۔حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ۔۔۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے ۔۔۔


اَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ وَ أنَا مَعَه إِذَا ذَکَرَنِيْ فَإِنْ ذَکَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَکَرْتُه فِی نَفْسِي، وَ إِنْ ذَکَرَنِی فِي مَلَاءٍ ذَکَرْتُهُ فِی مَلَاءٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَ إِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعاً، وَ إِنْ تَقَرَّبْ إِلَيَّ ذِرَاعًا تُقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا وَ إِنْ أتَانِيْ يَمْشِيْ أتَيْتُهُ هَرْوَلَةً.

’’میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ۔۔اور جب وہ میرا ذکر کرتا ہے ۔۔تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں ۔۔۔پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو ۔۔۔میں بھی اسے اپنے دل میں یاد کرتا ہوں۔۔۔ اگر وہ مجھے کسی مجمع کے۔۔۔ اندر یاد کرے تو میں اسے اس سے بہتر۔۔۔ مجمع کے اندر یاد کرتا ہوں ۔۔۔اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے ۔۔۔تو میں ایک بازو کے برابر اس کے قریب ہوجاتا ہوں۔۔۔ اگر وہ ایک بازو کے برابر میرے نزدیک آئے تو ۔۔۔ میں دونوں بازؤں کے برابر اس کے نزدیک ہوجاتا ہوں۔۔۔ اگر وہ چل کر میری طرف آئے تو۔۔۔ میں دوڑ کر اس کی طرف جاتا ہوں۔۔۔‘‘

سوکھے پتوں والے درخت کی مثال۔۔۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ۔۔۔ رسول اللہﷺ ایک ایسے درخت کے پاس سے گزرے۔۔۔ جس کے پتے سوکھ چکے تھے۔۔۔ آپ نے اس پر اپنا عصا مبارک مارا تو۔۔۔ اس کے سوکھے پتے جھڑ پڑے۔۔۔ پھر آپ ؓ نے فرمایا۔۔۔


” یہ کلمے۔۔۔سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر بندے کے گناہوں کو۔۔۔ اس طرح جھاڑ دیتے ہیں جس طرح تم نے ۔۔۔اس درخت کے پتے جھڑتے دیکھے۔۔۔“ (جامع ترمذی)


قرآن حکیم میں بھی ارشاد ہے۔۔۔


”یقینی بات ہے کہ نیکیاں ۔۔۔گناہوں کا صفایا کر دیتی ہیں۔۔۔“


اگر ریت کے ذرات کے برابر بھی ۔۔۔گناہ ہوں تو ذکر الٰہی سے معاف ہو جاتے ہیں۔۔۔ حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے۔۔۔ کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا۔۔۔


”جس نے روزانہ سو بار سبحان اللہ وبحمدہ کہا۔۔۔اس کے قصور معاف کر دیئے جائیں گے۔۔۔ اگرچہ کثرت میں سمندر کی ۔۔۔جھاگوں کے برابر ہوں۔۔۔“ (صحیح مسلم و بخاری)


حضرت ابو ذر غفاری ؓ سے روایت ہے۔۔۔۔ کہ رسول اللہﷺ سے دریافت کیا گیا ۔۔۔کہ کلاموں میں کون سا کلام افضل ہے۔۔۔؟ آپ نے فرمایا۔۔۔وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے ملائکہ کے لئے۔۔۔ منتخب فرمایا۔۔۔یعنی سبحان اللہ وبحمدہ۔۔۔(صحیح مسلم)


سب سے افضل ذکر۔۔۔ حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔


”سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے۔۔۔“


حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے ۔۔۔کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔


”جو بندہ دل کے اخلاص سے۔۔۔ لا الہ الا اللہ کہے اس کے لئے لازماً ۔۔۔آسمانوں کے دروازے کھل جائیں گے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ عرشِ الٰہی تک۔۔۔ پہنچے گا۔۔۔ بشرطیکہ وہ آدمی کبیرہ گناہوں سے بچتا رہے۔۔۔“


ترمذی شریف میں ایک اور حدیث ہے۔۔۔


رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔


”کلمہ لا الہ الا اللہ کے۔۔۔ اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں۔۔۔ یہ کلمہ سیدھا اللہ کے پاس پہنچتا ہے۔۔۔“


قرآن مجید میں اللہ رب العزت فرماتے ہیں۔۔۔ کہ بے شک دل کا سکون ۔۔۔اللہ کے ذکر میں ہے۔۔۔ یعنی انسان پوری دنیا میں۔۔۔ سکون کی تلاش کر لے۔۔۔ نہیں ملے گا۔۔۔کیوں کہ حق تعالیٰ نے خود بتا دیا کہ۔۔۔ دل کا سکون میری یاد میں ہے۔۔۔

مومنین کی صفات میں سے۔۔۔ ایک صفت یہ ہے کہ وہ اللہ کا کثرت سے۔۔۔ ذکر کرنے والے ہیں۔۔۔ اللہ رب العزت خود۔۔۔ سورۃ الاحزاب میں فرماتے ہیں۔۔۔ (مومنین کی صفات بیان کرنے کے بعد فرمایا)۔۔۔ اور بہ کثرت اللہ کا ذکر کرنے والے مرد۔۔۔ اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتی۔۔۔ں ان سب کے لیے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔۔۔

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...