فضائلِ رمضان

                       
ماہ رمضان المبارک بڑی ہی رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے مبارک ہیں وہ لوگ جو اس ماہ مقدس کا اکرام کرتے ہیں۔ اس کے آنے سے پہلے اس کی تیاری کرتے ہیں اور اس کا استقبال کرتے ہیں۔ اللہ ربّ العزت نے اس ماہ مبارک میں قرآن کریم کا نزول فرمایا اور شب قدر کی برکت والی رات کا نزول بھی اسی ماہ مبارک میں ہوتا ہے




اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرتا ہے کہ

" ہم نے اس قرآن کو رمضان میں نازل فرما یا ہے" 

قرآن کریم کو رمضان المبارک کے ساتھ ایک خاص نسبت حاصل ہے۔ اسی لئے اس ماہ مبارک میں قرآن کریم پڑھنے کا ثواب بھی زیادہ ہے اور رمضان میں عبادتوں پر بھی خاص زور دیا گیا ہے۔ 

حدیث مبارک میں رمضان المبارک کے حوالے سے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ۔۔۔۔

" لوگوں تم پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جو سراسر رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے۔ تم میں سے جو کوئی اس ماہ مبارک کو پائے اسے چاہیے کہ وہ اس ماہ مبارک کے روزے

رکھے۔" 

اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد مبارک ہے۔۔۔ 

" روزہ تم پر فرض کیا گیا ہے جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کیا گیا تھا۔" 

اللہ تبارک وتعالیٰ کے اس ارشاد سے معلوم ہوتا ہے کہ روزہ ہر امت پر فرض تھا۔ امت محمدیہ پر اللہ نے 30 روزے فرض کئے ہیں۔ اگر کوئی شخص ایمان اور احتساب کے ساتھ ان روزوں کو پورا کرے تو اللہ تعالیٰ اس کی بخشش فرما دیتے ہیں۔ 

ایمان کا مطلب یہ ہے کہ اس کے دل میں ہو کہ میں نے اللہ کے لئے روزہ رکھا ہے میں اس میں دکھاوے کا کوئ عمل نہیں کروں گا۔ روزہ میں اللہ کا ڈر اور خوف رہے۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی سامنے رہے۔ 

اپنے روزے کو ضائع ہونے سے بچائے۔ جھوٹ، چغلی، غیبت، اور اس طرح کے تمام غیر شرعی کام سے پرہیز کرے۔ 


*فضائلِ رمضان*

رمضان المبارک اللہ تعالیٰ کی رحمتوں، برکتوں، عنایتوں اور بخششوں کا مہینہ ہے۔ رمضان کی ساعتوں کو cash کریں اور پھر سارا سال عیش کریں۔ رمضان المبارک میں جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ حدیث مبارک میں آتا ہے جو قرآن کو توجہ سے (تراویح) میں سنے گا اس پر رحم کیا جائے گا۔ روزے دار کی دعاؤں پر فرشتے آمین کہتےہیں۔ جن کی دعاؤں پر فرشتے آمین کہیں کیا وہ نامراد رہ سکتا ہے؟؟؟؟ 

اللہ تعالیٰ اتنا کریم ہے کہ وہ مظلوم کی داد رسی کرتا ہے چاہے وہ مشرک ہی کیوں نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ اس کی فریاد اس کی آہ بکا کو قبول کرتا ہے۔ پھر ایک مسلمان کی دعا کیوں قبول نہیں ہوگی۔ دعا میں بہت زیادہ محنت کریں۔ اپنے آپ کو دعاؤں میں مشغول رکھیں۔ رمضان المبارک کی ہر ساعت قبولیت والی ساعت ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ۔۔۔ روزہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا اجر دوں گا۔ 

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ

" روزہ دار کیلئے افطار کے وقت دو خوشیاں ہوتی ہیں ایک یہ کہ اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور دوسرا یہ کہ روزے دار کی دعا افطار کے وقت مقبول بارگاہ ہوتی ہے" 

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا

" اے لوگو! تم پر ایک بابرکت مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے تو جو کوئی تم میں سے اس ماہ مبارک کو پالے تو اسے چاہیے کہ اس ماہ مبارک کے روزے رکھے"

اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اس ماہ مبارک جوش میں ہوتی ہیں۔۔۔ یہ مہینہ جہن سے خلاصی کا مہینہ ہے۔ اللہ تعالیٰ برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کھولو دیتا ہے


                  *تسبیحات رمضان*


1۔ رمضان المبارک کی پہلی صبح سے لیکر آخری شام تک 41 مرتبہ اول آخر درود شریف پڑھ کر

   *بیدک الخیر انک علی کل شیء قدیر*

ترجمہ۔۔۔" یا اللہ! ساری بھلائی تیرے ہی ہاتھ میں ہے بیشک تو ہر چیز کر سکتا ہے"

ہر سحری اور افطاری میں جو شخص اس کے معنی اور اللہ تعالیٰ کی طاقت کا تصور کر کے پڑھے گا اللہ اسے ازل سے ابد تک کی نعمتوں سے نوازے گا اور خیر اس کی طرف متوجہ ہوگی۔


2. اللھم اجرنی من النار۔

ہر نماز کے بعد 7 مرتبہ پڑھے روزے میں گرمی کی پیاس اور شدت بلکل بھی محسوس نہیں ہوگی۔


3. چودہ کڑوڑ نیکیاں۔

سحری میں 20 مرتبہ صدق دل سے پڑھیں اور 14 کڑور نیکیاں پائیں۔

لاالہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ احدا صمدا لم یلد ولم یولد ولم یکن لہ کفوا احد۔


4. مراد پانے کا عمل۔

اللھم انی ظلمت نفسی فاغفرلی

پڑھ کر گناہوں کا تصور کر کے گناہوں کی معافی مانگ کر اللہ سے اپنی مراد مانگیں انشاء اللہ رب کریم کی رحمت متوجہ ہو جائے گی۔


5۔ دعائے مغفرت اور ہر مراد پوری۔

پورا رمضان ہر پل ہر سانس کیساتھ کھلی تعداد میں بیحساب دن رات کثرت سے پڑھیں۔


الھم اغفر لی ولوالدی وللمومنین والمومنات والمسلمین والمسلمات۔

یہ دعا انسان کو مستجاب الدعوات بناتی ہے اس دعا کے صدقے میں مخلوق کو رزق بٹتا ہے قضائے حاجات کے لئے یہ دعا اکسیر اعظم ہے۔

شادی بیاہ۔۔۔۔ بندشوں کا خاتمہ۔ ۔۔۔ رزق میں برکتیں۔۔۔۔ لاعلاج بیماریوں کے لئے۔۔۔۔ گھریلو الجھنوں اور مسائل کے حل کے لئے۔۔۔۔۔ اچھے کاروبار کے لئے۔۔۔۔۔ روزگار کے لئے۔۔۔۔ جادو جنّات کے توڑ کے لئے۔۔۔۔۔ حرمین شریفین کی زیارت کے لئے۔۔۔۔۔ یہ دعا ایک لاجواب تحفہ ہے۔

اس دعا میں موجودین اور غائبین کیلئے دعائے مغفرت ہے اس دعا میں تاثیر ہے۔ اس دعا میں محبوبیت ہے۔ اللہ اس دعا کی برکت سے بندے کی حاجات کو پورا فرما دیتا ہے۔

حدیث مبارک کے الفاظ ہیں۔

" جو انسان روزانہ 27 مرتبہ اس دعا کو پڑھے اللہ اس کے لئے خیر اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔ 

یہ دعا بندوں کے لئے ایک بہترین تحفہ ہے چاہئیے کہ اس کی قدر کریں۔


6. رمضان المبارک میں رشتہ کا خصوصی مجرب عمل۔

رمضان المبارک کی گیارھویں اور بارھویں روزے کی درمیانی رات بعد نمازِ عشاء 12 نفل اسطرح ادا کریں کہ ہر رکعت میں سورت الفاتحہ کے بعد ایک بار سورت الاخلاص پڑھے۔ 12 نفل پڑھ کر 💯 مرتبہ درودشریف پڑھ کر اس کا ثواب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو پہنچائیں۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلے سے اللہ کی بارگاہ میں رشتے کیلئے دعا کریں۔۔ انشاء اللہ اگلے رمضان المبارک تک اس کی مراد پوری ہوگی۔ مجرب عمل ہے جس نے بھی کیا لاجواب پایا ہے۔ 


7.سحری میں جو بندہ دو رکعت نماز تہجد پڑھ کر 💯 مرتبہ استغفار اور 💯 مرتبہ درودشریف پڑھے پھر من کی مراد مانگے اللہ پوری فرمائے گا پورا مہینہ اس عمل کو اپنا ساتھی بنالیں پورے مہینے میں کوئی رات تو ایسی ہوگی کہ الل آپ کی دعا کو مستجاب بنادیگا۔ اس کی شان کریمی پہ نظر رہے مشکل آسان ہوجائیگی۔ 


8. رمضان المبارک میں قرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنا اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔


9. رمضان المبارک میں بعد نماز ظہر سورت الکافرون ایک ہزار ایک مرتبہ ایک ہی وقت میں پڑھیں۔ یہ ایک نصاب ہے اگر آپ اس طرح سات یا گیارہ نصاب پڑھتے ہیں تو ہر قسم کی بندشوں جادو جنّات سے حفاظت ہو جائے گی ۔ پڑھتے وقت پانی، شہد، چینی غرض جو بھی چیزیں آپ رکھنا چاہیں رکھ لیں اور پڑھنے کے بعد دم کردیں۔ ضرورت کے وقت اس میں سے تھوڑا سا نکال کر ملاتے رہیں ہر طرح کی بیماریوں سے نجات حاصل ہو گی۔ گھریلو الجھنوں پریشانیاں مشکلات دور ہوں گی۔ لاعلاج بیماریوں کے لئے اس عمل میں شفا ہے۔ اور روزے کی حالت میں اس عمل میں اور تاثیر آجاتی ہے۔


10. رمضان المبارک میں ہر وقت تسبیحات کو اپنے اوپر لازم کرلیں اللہ کی رحمت لوٹ لیں۔ہر پل اس کی یاد میں اس کے ذکر میں گزاریں ان لمحات کو قیمتی بنالیں۔ ہر گھڑی اس کی یاد میں گزار کر اپنے لمحات کو قیمتی بنالیں کہ شاید پھر وقت نہ مل سکے۔

              


حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ۔۔۔

" جنت کے آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک کا نام باب الریان ہے اس دروازے میں سے جنت کے اندر صرف روزے رکھنے والے داخل ہونگے" 

ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اس مہینے میں اللہ کی ایک خاص رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اس کی بھلائی سے محروم رہا وہ ہر بھلائی سے محروم رہا۔

روزہ اور قرآن بندے کی سفارش کریں گے روزہ کہے گا اے پروردگار میں نے اسے کھانے اور خواہشات سے دن میں روکے رکھا پس اس کے لئے میری سفارش قبول فرما اور قرآن کہے گا میں نے اسے رات کی نیند سے باز رکھا اس کے حق میں میری سفارش قبول کر چنانچہ ان کی سفارش قبول کی جائے گی۔ 


ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" اے لوگو ایک بڑے مہینے نے تم پر سایہ ڈالا ہے جو بڑا بابرکت مہینہ ہے اللہ تعالیٰ نے اس مہینے کے روزے فرض قرار دئیے ہیں اور اس کی رات کی عبادت نفل قرار دی ہے۔ یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا صلہ جنت ہے۔ یہ مہینہ غمخواری کا مہینہ ہے اس مہینے میں مومن کا رزق بڑھا دیا جاتا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے وہ اس کے لئے گناہوں کی بخشش کا سبب ہوتا ہے اور دوزخ کی آگ سے نجات کا ذریعہ۔۔۔ اسے روزہ دار کے ثواب کے برابر ثواب ملتا ہے۔ یہ مہینہ ایسا مہینہ ہے کہ اس کے ابتداء میں رحمت ہے۔۔۔ درمیان میں مغفرت ہے۔۔۔۔۔ اور آخر میں دوزخ سے نجات ہے۔" 



** سحری و افطار**


حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔

" سحری کھاؤ اس لئے کہ سحر کھانے میں برکت ہے" 

حضرت عرباض بن ساریہ کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے رمضان میں سحری کھانے کے لئے طلب فرمایا اور کہا۔۔۔ بابرکت کھانے کی طرف آؤ۔

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔

" مومن کا بہترین سحر کا کھانا کھجور ہے"

حضرت عمر بن العاص کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

" ہمارے اور اہل کتاب ( یہود ونصاریٰ) کے روزوں کے درمیان سحری کھانے کا فرق ہے۔ ( یہود ونصاریٰ رات کو سوجانے کے بعد کھانا حرام سمجھتے تھے اور ابتدائے اسلام میں بھی یہی حکم تھا پھر حکم بدل گیا) ۔

حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔

" جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہے" 

حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے کہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔

" جب تم میں سے کوئی اذان فجر کی آواز سنے اور اس کے ہاتھ میں پانی کا برتن ہو تو برتن اس وقت تک ہاتھ سے نہ رکھے جب تک اپنی ضرورت پوری نہ کر لے، یعنی پانی پینا ہو تو پی لے۔" 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب روزہ افطار کرتے تو فرماتے۔۔۔

" اللھم انی لک صمت وعلی رزقک افطرت۔۔۔

یعنی اے اللہ! میں نے تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تیرے ہی رزق پر میں نے افطار کیا" 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہ


ے،

" دین ہمیشہ غالب رہیگا جب تک لوگ افطار کرنے میں جلدی کرتے رہیں گے اس لیے کہ یہود ونصاریٰ روزہ افطار کرنے میں دیر کرتے ہیں"


دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کے فیوض وبرکات سے مستفید ہونے کی سعادت نصیب فرمائے اور اس رمضان المبارک کو ہمارے لئے بخشش اور جہنم سے نجات کا ذریعہ بنا دے


روزے سے مراد ہے کہ انسان صبح سے شام تک کھانے پینے اور مباشرت سے پرہیز کرے۔

نماز کی طرح یہ عبارت بھی ابتدا سے تمام پیغمبروں کی شریعت میں فرض رہی ہے۔

قرآن کریم میں سورہ البقرہ کی آیت نمبر 183 میں ارشاد ہوتا ہے

" اے مسلمانوں! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے" 

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلے جتنی شریعتیں آئیں وہ کبھی روزے کی عبادت سے خالی نہیں رہی ہیں۔





*روزے کا اصل مقصد کیا ہے*


*کیوں روزے کی عبادت کو ہر زمانے میں فرض کیا گیا*

روزے کا اصل مقصد بندگئ رب ہے۔ اسلام کا اصل مقصد پوری زندگی کو اللہ تعالیٰ کی عبادت بنا دینا ہے۔ اللہ کی عبادت سے اس کے خیال سے بندے کو ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔ ہر وقت انسان کے مد نظر یہ بات رہے کہ اس کے رب کی رضا اور خوشنودی کس چیز میں ہے۔ اس کی ناراضگی اور غضب والے کام نہیں کرنے چاہیے۔ جدھر اللہ کی رضا ہو اسی طرف جانا چاہیے اور جو راستہ اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتا ہو اسے چھوڑ دینا چاہیے۔


*جب انسان کی ساری زندگی اللہ کے رنگ میں رنگ جائے تو سمجھو کہ اس نے بندگی کا حق ادا کر دیا۔ 


*عبادات تربیت کا حصہ ہیں*

 عبادات کو فرض کرنے کا مقصد یہی ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کی تربیت کی جائے اور اس کو اس قابل بنا دیا جائے کہ اس کی پوری زندگی اللہ کی عبادت بن جائے۔ اس کا ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہو۔

روزہ انسان کی تربیت کرتا ہے۔ اپنے وقت پر سحری کرنا۔ اپنے اوقات میں روزہ افطار کرنا۔ایک مقررہ وقت تک کھانے پینے سے پرہیز کرنا۔ تراویح پڑھنا۔ نظم و ضبط کی تربیت روزے میں دی گئی سب ایک ہی وقت میں روزہ رکھنا ہے۔ رمضان المبارک کا مہینہ عبادت کے لئے مخصوص کیا گیا۔ روزے کی انفرادی عبادت اجتماعی عبادت بن گئی۔ 

رمضان المبارک کا مہینہ پوری فضا کو نیکی اور پرہیز گاری کی روح سے بھر دیتا ہے۔ 

پوری قوم میں تقوی کی کھیتی ہری بھری ہو جاتی ہے۔ 

ہر شخص گناہوں سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

نیکی اور تقویٰ کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ مہینہ نیکیوں اور بھلائیوں کے پھلنے پھولنے کا مہینہ ہے۔ 

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔


 " آدمی کا ہر عمل اللہ کے ہاں کچھ نہ کچھ بڑھتا ہے ایک نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک پھلتی پھولتی ہے۔ مگر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ روزہ اس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ خاص میرے لئے ہے اور میں اس کا جتنا چاہوں بدلہ دیتا ہوں۔ "

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نیکی کرنے والے کی نیت اور نیکی کے نتائج کے لحاظ سے تمام اعمال پھلتے پھولتے ہیں۔ اور ان کی ترقی کے لیے ایک حد ہے۔۔۔ مگر روزے کی ترقی کے لئے کوئی حد نہیں ہے۔ اللہ کی مرضی وہ جتنا چاہے روزے کا اجر و ثواب دے۔ 

جتنی زیادہ نیک نیتی کے ساتھ اس ماہ مبارک میں عمل کریں گے اتنا ہی فوائد حاصل ہوں گے۔ 



ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" جو بندہ روزے کی حالت میں صبح کرتا ہے اس کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور اس کے اعضاء تسبیح کرتے ہیں اور آسمان دنیا پر رہنے والے فرشتے سورج ڈوبنے تک اس کی مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ 

اگر وہ دو رکعت پڑھتا ہے تو آسمان میں اس کے لئے نور روشن ہو جاتا ہے اور اگر وہ

لا الہ الااللہ محمد رسول اللہ۔۔۔۔

سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔

یا اللہ اکبر

پڑھتا ہے تو

ستر ہزار فرشتے سورج ڈوبنے تک اس کے نامہ اعمال میں ثواب لکھتے ہیں۔


قیامت والے دن روزے داروں کے لئے سونے کا ایک دستر خوان رکھا جائے گا حالانکہ لوگ حساب کتاب کے منتظر ہوں گے۔


* روزہ مخفی عبادت ہے*

روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس کا حال خدا اور بندے کے سوا کسی پر نہیں کھل سکتا۔ روزہ ایمان کی مضبوطی کی علامت ہے کیونکہ آپ سب سے چھپ کر بھی کچھ نہیں کھاتے کیونکہ آپ نے اللہ کے لئے روزہ رکھا ہے اور آپ نے اسی کو دکھانا ہے۔ روزے کی حالت میں کچھ بھی ہو جائے انسان اپنا روزہ نہیں توڑتا۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اسے اللہ کے عالم الغیب ہونے پر یقین ہے۔ اللہ کے خوف اور اس کی چاہت کی وجہ سے وہ اپنا روزہ نہیں توڑتا اور روزے کی ہر تکلیف برداشت کرتا ہے۔ وہ مہینہ میں کم از کم 360 گھنٹے کے روزے رکھتا ہے صرف اللہ کی رضا کے لیے۔ اللہ کی خوشنودی کے لیے۔ صرف اس لیے کہ اس کا قرب نصیب ہو جائے۔ وہ راضی ہو جائے۔ یہ ہے بندگی کا اصل مقصد۔ 

انسان ایک ماہ تک مسلسل اپنے آپ کو آزمائش میں ڈالتا ہے جتنا انسان اس آزمائش میں پورا اترتا ہے اتنا ہی اس کا ایمان مضبوط ہو جاتا ہے۔ اور ایمان کی یہ مضبوطی انسان کو متقی اور پرہیز گار بناتی ہے۔


* سوال ہے کہ ہماری عبادتوں کے نتائج ویسے ظاہر کیوں نہیں ہوتے جیسے قرآن ظاہر فرماتا ہے؟ *


جواب یہ ہے کہ اصل میں ہمیں عبادات کی صحیح روح کا پتہ نہیں ہوتا۔ انسان کا نقطہ نظر عبادت کے متعلق بدل گیا ہے۔ انسان سمجھتا ہے کہ صبح سے شام تک کچھ نہ کھانے پینے کا نام روزہ ہے۔ حالانکہ حدیث مبارک ہے۔۔۔۔


" بہت سے روزے دار ایسے ہیں جن کو بھوک پیاس کے سوا کچھ نہیں ملتا "

مطلب کیا ہوا کہ وہ روزے کی حالت میں غیر شرعی کام کرتے ہیں۔ دوسروں کی برائی، غیبت، گالی گلوج، احکام شریعہ کی پابندی نہیں کرتے۔ تو روزے کی اصل روح بھی ان پر ظاہر نہیں ہوتی وہ روزے کے اصل فیوض و برکات سے محروم رہتے ہیں۔ یہی حال دوسری عبادات کا بھی ہے۔ پھر اصل چیز رزق حلال ہے۔ تمام جانی، مالی، بدنی عبادات اسی وقت اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوتی ہیں جب ذرائع حلال کے ہوں ۔ ناجائز طریقے استعمال کر کے، دوسروں کا حق مار کر عبادت کی تو، اللہ ایسی عبادت قبول نہیں کرتا۔ 

اسی لئے حدیث مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے


" حرام رزق پر پلنے والا جسم جنت کی خوشبو سے بھی محروم رہیگا "

اتنے بڑے فرمان کے باوجود بھی اگر کوئی اپنی روش نہ چھوڑے تو آپ خود فیصلہ کر لیں قصور وار کون ہے۔۔۔۔

جب تک انسان عبادت کی اصل روح سے واقف نہیں ہوگا اس کے ثمرات سے پوری طرح مستفید نہیں ہوسکتا۔ اسلئے جب آپ عبادت میں محنت کرتے ہیں تو اس کی روح کے ساتھ کریں۔ 

عبادات کی روحانی طاقت اس وقت تک حاصل نہیں ہو سکتی جب تک انسان اس کے مقصد کو پوری طرح سمجھے نہیں۔ وہ سوچے کہ اس عبادت کا اصل مقصد کیا ہے اللہ اس عبادت کے ذریعے بندے سے چاہتا کیا ہے۔وہ انسان کو کس مقام پہ لیجانا چاہتا ہے اور کیسے عبادت کا اصل حق ادا کر سکتا ہے۔ 


*روزے کے اصل مقاصد*

 حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف طریقوں سے روزے کے اصل مقصد کی طرف توجہ دلائی ہے اور خاص طور پر یہ سمجھایا ہے کہ روزے کا مقصد صرف بھوکا پیاسا رہنا نہیں ہے بلکہ فرمایا۔۔۔۔

" جس کسی نے روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر عمل کرنا نہ چھوڑا تو اس کے کھانا پانی چھوڑ دینے سے اللہ کو کوئی سروکار نہیں۔" 

اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ صرف بھوکا پیاسا رہنا عبادت نہیں ہے بلکہ اصل عبادت یہ ہے کہ اللہ کے احکامات کی اس کے قوانین کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔ کوئی بھی کام اس کی رضا کے خلاف نہ کیا جائے۔ 

حدیث مبارک ہے۔۔۔۔


" ایمان اور احتساب کے ساتھ رکھے گئے روزوں سے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں" 

اگر انسان اپنے روزے کی حفاظت کرتا ہے جھوٹ نہیں بولتا، غیبت نہیں کرتا، کسی کی دل آزاری نہیں کرتا اور ایسے خلاف شرع کوئی کام نہیں کرتا تو یہ روزے اس کے لئے بخششوں کا سامان بن جائیں گے، اللہ کے قرب کا ذریعہ بنیں گے۔ ایمان یہ ہے کہ اللہ کے ہر حکم کو مانا جائے۔ اللہ کے کسی بھی حکم میں سر کشی نہ کیجائے۔ بس اللہ نے جو حکم دیا ہے اسے بلا چون و چرا مان لیا جائے۔ 

روزے کی حالت میں انسان کو نیکیوں کی طرف لپکنا چاہیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 

رحمتہ اللعالمین

تھے۔ رمضان المبارک کے مہینہ میں آپ کی سخاوت، دریا دلی عروج پر پہنچ جاتی تھی۔

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ۔۔۔۔

" حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم رمضان المبارک کے مہینہ میں عام دنوں سے زیادہ رحیم اور شفیق ہو جاتے تھے۔۔۔۔۔ کوئی سائل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دروازے سے خالی ہاتھ واپس نہیں جاتا تھا، اور کوئی قیدی اس زمانے میں قید نہ رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیدیوں کو کثرت سے رہا فرماتے تھے۔"


** سحری کی برکت **

ارشاد رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے

" اللہ تبارک وتعالیٰ اور اس کے فرشتے سحری کھانے والوں پر رحمت نازل کرتے ہیں" 

اللہ تبارک وتعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ سحری کو امت کے لئے اجر و ثواب کی چیز بنا دیا۔ علماء کے نزدیک  17 صحابہ سے سحری کی فضیلت اور احادیث رقم کی گئی ہیں۔ 

ایک جگہ پیغمبر اسلام نے ارشاد فرمایا ہے

" تین چیزوں میں برکت ہے۔۔۔ 1 ۔ جماعت میں،،

2 ۔ ثرید میں،، 3 ۔ سحری کھانے میں،، 

اس حدیث مبارک میں جماعت سے مراد ہر وہ کام ہے جس کو مسلمان مل کر سر انجام دیں جماعت میں اللہ کی مدد شامل ہوتی ہے۔۔۔۔

ثرید گوشت میں پکی ہوئی روٹی ہوتی ہے جو کہ نہایت لذیذ کھانا ہوتا ہے اور سحری میں اللہ کی رحمت اور برکت ہوتی ہے۔

ایک حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ

سحری کھا کر روزے پر قوت حاصل کرو اور دوپہر کو سو کر اخیر شب کے اٹھنے پر مدد چاہو۔ 

روایتوں میں بار بار آتا ہے کہ سحری ایک برکت والی چیز ہے جو اللہ نے اس امت کو عطا فرمائی ہے اس کو مت چھوڑنا۔۔۔۔ حتیٰ کہ ارشاد ہوا کچھ نہ ہو تو ایک چوہارہ ہی کھا لے یا ایک گھونٹ پانی ہی پی لے۔  

حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ رمضان المبارک میں چار چیزوں کی کثرت رکھو ، جن میں سے دو چیزیں اللہ کی رضا کے واسطے اور دو چیزیں ایسی ہیں جن سے تمہیں چارہ کار نہیں۔ پہلی دو چیزیں جن سے تم اپنے رب کو راضی کر سکتے ہو وہ کلمہ طیبہ اور استغفار کی کثرت ہے اور دوسری دو چیزیں یہ ہیں کہ جنت کی طلب کرو اور جہنم کی آگ سے پناہ مانگو۔

جو انسان کسی روزہ دار کو پانی پلائے حق تعالیٰ قیامت کے دن اس بندے کو میرے حوض کوثر سے ایسا پانی پلائیں گے کہ جنت میں داخل ہونے تک پیاس نہیں لگے گی۔ 


**افطار کا اہتمام کرنا**

 احادیث مبارکہ میں روزہ افطار کرانے کی فضیلت بیان ہوئی ہیں روایات میں آتا ہے

جو شخص حلال کمائی سے رمضان میں روزہ افطار کرائے اس پر رمضان کی راتوں میں فرشتے رحمت بھیجتے ہیں اور شب قدر میں جبرئیل علیہ السلام اس بندے سے مصافحہ کرتے ہیں اور جس سے جبرئیل مصافحہ کرتے ہیں اس کے دل میں رقت طاری ہوتی ہے اور آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا،

" میری امت کو رمضان میں پانچ چیزیں خصوصیت کے ساتھ عطا کی گئی ہیں جو کسی اور امت کو عطا نہیں ہوئیں۔

1 ۔ ان کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک سے زیادہ پسندیدہ ہے۔

2 ۔ ان کے لئے دریا کی مچھلی سحری سے افطار تک دعا کرتی ہیں۔

3 ۔ جنت ہر روز ان کے لئے آراستہ کی جاتی ہے اور اللہ ارشاد فرماتا ہے عنقریب میرے بندے دنیا کی مشقتیں اپنے اوپر سے پھینک کر اس میں چین سے آباد ہونگے۔

4 ۔ رمضان المبارک میں سرکش شیاطین قید کر دیئے جاتے ہیں۔

5 ۔ رمضان المبارک کی آخری رات میں روزہ داروں کے لئے مغفرت کی جاتی ہے۔۔۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یہ شب مغفرت شب قدر ہے؟؟ فرمایا نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ دستور یہ ہے کہ مزدور کو کام ختم ہو نے کے وقت مزدوری دے دی جاتی ہے۔ 


**رمضان المبارک میں قبولیت دعا**

 رمضان المبارک میں روزے دار کی دعا کا قبول ہونا بہت سی روایات سے ثابت ہے۔ افطار کے وقت دعا قبول ہوتی ہے۔

افطار کی مشہور دعا یہ ہے


اللہم لک صمت وبک امنت وعلیک توکلت وعلی رزقک افطرت۔

ترجمہ۔۔۔۔ اے اللہ! تیرے ہی لئے روزہ رکھا اور تجھی پر ایمان لایا ہوں اور تجھی پر بھروسہ ہے تیرے ہی رزق سے افطار کرتا ہوں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم افطار کے وقت یہ دعا بھی کرتے تھے۔

یا واسع الفضل اغفرلی۔۔۔۔۔ اے وسیع عطا والے! میری مغفرت فرما۔۔۔

رمضان المبارک میں اللہ کو یاد کرنے والا شخص بخشا بخشایا ہے اور اللہ سے مانگنے والا نامراد نہیں رہتا۔  رمضان المبارک کی ہر رات میں ایک منادی پکارتا ہے کہ اے خیر تلاش کرنے والو متوجہ ہو اور آگے بڑھو۔۔۔ اور اے برائی کے طلب گار بس کر اور آنکھیں کھول۔ اس کے بعد وہ فرشتہ کہتا ہے کوئی مغفرت کا چاہنے والا ہے کہ اس کی مغفرت کی جائے، کوئی توبہ کرنے والا ہے کہ اس کی توبہ قبول کیجائے، کوئی دعا کرنے والا ہے کہ اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی مانگنے والا ہے کہ اس کا سوال پورا کیا جائے۔۔۔ جن کا کھانا، پینا، لباس، کمائی حرام کی ہو ان کی دعائیں بلکہ ان کی کوئی بھی عبادت قبول نہیں ہوتی۔ کونکہ اسلام نے عبادات کے معاملات میں رزق حلال کو بنیاد بنایا ہے۔ بنیاد ہی حرام پر ہو تو اثر کہاں سے ہوگا۔ اسی بات کو حدیث مبارک میں اسطرح بیان کیا گیا ہے کہ

" بہت سے پریشان حال آسمان کی طرف ہاتھ کھینچ کر دعا مانگتے ہیں اور یا رب یا رب کرتے ہیں مگر کھانا حرام، پینا حرام،  لباس حرام ایسی حالت میں دعا کہاں قبول ہوسکتی ہے" 

حضرت ابن عباس کی روایت ہے کہ اسلام کی بنیاد تین چیزوں پر ہے۔

1 ۔ کلمہ شہادت

2 ۔ نماز

3 ۔ روزہ

جو شخص ان میں سے ایک بھی چھوڑ دے وہ کافر ہے، اس کا خون کر دینا حلال ہے۔ 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ایسے لوگوں کے لیے سخت سے سخت وارد ہوئے ہیں۔ فرائض کے ادا کرنے میں کوتاہی کرنے والوں کو اللہ کے قہر سے بہت ہی زیادہ ڈرنے کی ضرورت ہے کہ موت سے کسی کو چارہ نہیں ہے۔ اللہ کی اطاعت ہی دنیا و آخرت میں کام آنے والی ہے۔

 فقہاء نے فتویٰ دیا ہے کہ جو کوئی رمضان المبارک میں علی الاعلان بغیر عذر کے کھائے اس کو قتل کر دیا جائے ۔ فرائض میں کوتاہی کسی بھی طرح گوارا نہیں ہے ۔ معاشرے میں امن اللہ کے احکامات کی پیروی میں ہے۔ اس سے کوتاہی دنیا و آخرت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین مبین پر چلنے والا بنائے۔ اس کے احکامات پر عمل کرنے والا اور فرائص ادا کرنے والا بنائے۔ ہمیں موت اس حال میں آئے کہ وہ ہم سے راضی ہو۔

Visit: facebook.com/articlesbyshumaila

***************************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...