شان نزول اور تفسیرسورہ المزمل

                                                       * فضیلت سورہ مزمل *
سورہ مزمل میں اللہ ربّ العالمین نے اپنے حبیب رحمتہ اللعالمین کی عظمت بیان کی ہے اپنے حبیب کو محبوبیت کے 
ساتھ پکارا ہے اپنے پیغمبر سے رازونیاز کئے ہیں۔ تسلی دی ہے کہ کفاران قریش کی باتوں پر دل تنگ نہ کریں آپ اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیجئے اللہ تعالیٰ ان مشرکوں سے خود نمٹ لیگا۔ 
تربیت کے انداز ہمیں اس سورہ میں ملتے ہیں اللہ کے قرب کے راستے بتائے گئے ہیں سورہ مزمل میں تسخیر کائنات کے راز موجود ہیں اس سورہ میں تسخیر موجود ہے یہ اپنے پڑھنے والے پر اپنے راز کھولتی ہے۔ 
اللہ نے اس میں بندگی کا طریقہ سکھایا اس کی راہ قرض حسنہ کی تاکید فرمائی۔ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے کا جذبہ عطا فرمایا۔ 
جنات وجادو کے لئے سورہ مزمل سیف بے نیام ہے۔ بےاولاد وں کو اس کی برکت سے اولاد ملتی ہے۔ رشتوں اور کاروباری بندشیں اس کی تلاوت سے دور ہو جاتی ہیں۔ 
اللہ سورہ مزمل کے پڑھنے والے پر اپنی رحمت اور برکت کے دروازے کھول دیتا ہے۔
کوئی حاجت ہو
41 دن تک 41 مرتبہ سورہ مزمل کو مقررہ اوقات میں خشوع وخضوع کے ساتھ پڑھیں اور دعا کرکے اپنا معاملہ اللہ کے سپرد کر دیں وہ آپ کے لئے بہتری کی کوئی صورت ضرور نکالے گا۔ 
جو کوئی اس آیت کو چلتے پھرتے وضو بے وضو دن میں ہزاروں بار پڑھے اس کے من کی مراد پوری ہوگی۔

رب المشرق والمغرب لا الہ اللہ ھو فاتخذہ وکیلا۔ 
وہ اللہ ہی مشرق اور مغرب کا رب ہے تو اپنے معاملات کو اسی کے سپرد کرو۔
جو کوئی اللہ کو اپنا وکیل بنالے اس کی کامیابی میں بھلا کیا شک ہو سکتا ہے۔ اللہ سے اپنے معاملات طے کریں آپ کبھی خسارے میں نہیں رہیں گے وہ آپ کو مشکلات سے نکلنے کے راستے دکھائے گا۔
جب آپ اس پر بھروسہ کریں گے تو وہ آپ کا بھروسہ کبھی ٹوٹنے نہیں دے گا۔ اپنی فکروں کو اس کے حوالے کر کے آزاد ہو جاؤ اور اس کے کاموں میں لگ جاؤ وہ غیب سے آپ کی راحت کا سامان مہیا کر دے گا۔
تفسیر سورہ المزمل 

زمانہ نزول

اس سورہ کے دو رکوع دو الگ زمانوں میں نازل ہوئے۔
سورہ مزمل میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تین چیزوں کی ہدایت خصوصیت کے ساتھ فرمائی۔

اول۔۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم راتوں کو اٹھ کر اللہ کی عبادت کیا کریں تاکہ آپ کے اندر نبوت کے بار عظیم کو اٹھانے اور اس کی ذمہ داریاں ادا کرنے کی قوت پیدا ہو۔ 

دوم۔۔۔۔ نمازِ تہجد میں آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش قرآن مجید کی تلاوت کی جائے۔

سوم۔۔۔۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مخالفین کی زیادتیوں پر صبر کرنے کی تلقین کی گئی۔ اور کفار مکہ کو عذاب کی دھمکی دی گئی۔

سورہ مزمل کی پہلی سات آیات میں اللہ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا ہے کہ جس کار عظیم کا بار آپ پر ڈالا گیا ہے اس کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کریں اور اس کی عملی صورت یہ بتائی گئی کہ راتوں کو اٹھ کر، آدھی آدھی رات یا اس سے کچھ کم و بیش نماز پڑھا کریں۔

آیت نمبر 8 سے 14 تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تلقین کی گئی کہ سب سے کٹ کر اللہ کے ہو رہو۔ جو ساری کائنات کا مالک ہے۔ اپنے سارے معاملات اللہ کے سپرد کر کے مطمئن ہو جائیں۔ مخالفین کے منہ نہ لگیں ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیں اللہ ان سے خود نمٹ لیگا۔ 

آیت 15 سے 19 تک پیغمبر اسلام کے مخالفین کو متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر تم نے ہٹ دھرمی دکھائی تو تمہارا انجام بھی فرعون سے کچھ کم نہیں ہوگا۔ 
حضرت سعید بن جبیر کی روایت کے مطابق۔۔۔
جہاں تک تہجد کی نماز کا تعلق ہے تو وہ جتنی باآسانی پڑھی جا سکے پڑھ لیں،،، مسلمانوں کو اصل اہتمام جس چیز کا کرنا چاہیے وہ پنج وقتہ نماز ہے۔۔۔ فریضہ زکٰوۃ ٹھیک ٹھیک ادا کرتے رہیں اور اللہ کی راہ میں اپنا مال خلوصِ نیت کیساتھ صرف کریں۔ 
آخر میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی ہے کہ۔۔۔
جو بھلائی کے کام تم دنیا میں انجام دو گے وہ ضائع نہیں کئے جائیں گے۔ اللہ کے ہاں پہنچ کر تم وہ سب موجود پاؤ گے جو دنیا میں تم نے آگے روانہ کیا ہے اور یہ پیشگی سامان اس سامان سے بہتر ہے جو تمہیں دنیا میں چھوڑ جانا ہے۔ اللہ کے ہاں تمہیں اصل مال سے بڑھ کر بہت بڑا اجر ملیگا۔

تفسیر ایت 1 تا 5

اللہ تعالیٰ اپنے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے فرماتا ہے اے چادر لپیٹ کر سونے والے! اٹھو اور رات میں اپنے رب کی حمد و ثناء بیان کرو تاکہ تمہیں اس فریضہ تبلیغ کے لئے طاقت اور قوت عطا ہو۔ 
اللہ نے اپنے پیغمبر سے بھی پوری رات کا مطالبہ نہیں کیا بلکہ ایک قلیل حصہ اللہ کی عبادت کیلئے وقف کرو کیونکہ کہ رات اللہ نے سونے کے لئے بنائی ہے اور نیند کا پورا کرنا بھی ضروری ہے۔ 
سورہ دہر کی آیت نمبر 26 میں بھی رات کی عبادت کا ذکر اس طرح کیا گیا ہے
" رات کو اللہ کے آگے سجدہ ریز رہو۔ اور رات کا طویل حصہ اس کی عبادت کرتے ہوئے گزارو" 
وہ لوگ جو رات کو اللہ کو یاد کرتے ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ رات کی عبادت کا اپنا مزہ ہوتا ہے۔ اللہ ایسے لوگوں کو وہ مقام عطا فرما تا ہے کہ پھر وہ دوسروں کی مشکلات حل کرنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ اللہ کے ولی بن جاتے ہیں۔ اور یہ عبادت آدھی رات کے بعد شروع ہوتی ہے کیونکہ آدھی رات کے بعد ہی نیند کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے اور جو اللہ کے لئے اپنی نیند کی قربانی دے اللہ اس بندے کو مقام محمود پر فائز فرما دیتا ہے اور مقام محمود وہ ہے جہاں بندے اور اللہ کی مرضی ایک ہو جاتی ہے۔

قرآن کو خوب ٹہر ٹہر کر پڑھو

الفاظ کی صحیح ادائیگی کے ساتھ قرآن پڑھنا، ہر آیت پر ٹہرنا، اس کے معنی و مفہوم کو دل و دماغ میں بٹھانا، اور آیت پر غور کرنا کہ اللہ کیا کہہ رہا ہے۔ اس کی عظمت و جلالت کا اعتراف کرنا۔ ٹوٹے ہوئے الفاظ کے ساتھ قرآن نہ پڑھا جائے۔ قرآن کا حق ادا کرو گے تو یہ دنیا و آخرت میں تمہارے کام آئے گا اور قیامت کے دن تمہارا سفارشی بن کر کھڑا ہو جائے گا جب تک تمہیں بخشوا نہیں لیگا۔ تمہارے لیے اللہ کی بارگاہ میں سفارشی بن کر کھڑا رہیگا۔ دنیا میں تمہاری کفالت کرتا رہے گا۔ قرآن سے محبت رکھو گے تو قرآن بھی تم سے محبت رکھے گا۔

اللہ کی آیات میں کہیں اس کی رحمت کا تذکرہ ہے کہیں اس کی عظمت و جلال کا بیان ہے۔ کہیں کسی چیز کا حکم دیا گیا ہے کہیں کسی چیز سے روکا گیا ہے۔
قرآت محض قرآن کے الفاظ کو زبان سے ادا کر دینے کے لئے نہیں ہے بلکہ غور وفکر اور تدبر کرنے کے لیے ہے۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قرآت کا طریقہ جب حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے جواب میں فرمایا۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم الفاظ کو کھینچ کھینچ کر پڑھتے تھے اور انہوں نے بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ کر بتایا کہ آپ اللہ رحمن رحیم کو مد کیساتھ پڑھا کرتے تھے۔( بخاری)
حضرت ام سلمہ سے بھی روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قرآن کریم کی ایک ایک آیت کو الگ الگ پڑھتے اور ہر آیت پر ٹہرتے جاتے تھے۔ جیسے
الحمدللہ رب العالمین
پڑھ کر رک جاتے۔
پھر الرحمٰن الرحیم پڑھ کر ٹہرتے
یعنی ہر آیت پہ ٹہرتے تھے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک ایک لفظ کو واضح طور پر پڑھا کرتے تھے۔

بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں
قرآن کریم ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے۔ یہ کوئی ہنسی کھیل نہیں ہے۔
حضرت زید بن ثابت فرماتے ہیں
ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی اس حالت میں نازل ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا زانوئے مبارک میرے زانو پر رکھے ہوئے بیٹھے ہوئے تھے، میرے زانو پر اس وقت ایسا بوجھ پڑا کہ معلوم ہوتا تھا کہ اب ٹوٹ جائے گا۔ 
اسی بات کا ذکر اللہ تعالیٰ نے بھی اس طرح فرمایا ہے کہ
اگر ہم اسے پہاڑ 🗻 پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں۔۔۔
کہ میں نے سخت سردی کے زمانے میں حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوتے دیکھی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیشانی سے اس وقت پسینہ ٹپکنے لگتا تھا۔ ( بخاری، مسلم، نسائی، مالک، ترمذی)





تفسیر 6 تا 10 

رات کی عبادت نفس کے مجاھدے کے لئے بہترین ہے۔ انسان کا نفس اسے ورغلاتا ہے اسی لئے رات کی عبادت کے ذریعے نفس کی تربیت کرنے کو کہا گیا۔ رات کی عبادت ایک ایسا مجاہدہ ہے جو نفس کو دبانے اور قابو پانے کی بڑی زبردست تاثیر رکھتا ہے۔ دوسرا دل اور زبان کے درمیان موافقت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔ رات کے اوقات میں بندے اور اللہ کے درمیان کوئی حائل نہیں ہوتا۔ اس وقت انسان اللہ سے جو باتیں کرتا ہے وہ اس کے دل کی آواز ہوتی ہے۔ یہ وقت ظاہر وباطن میں مطابقت پیدا کرنے کا بڑا کارگر ذریعہ ہے۔ 
رات کی تنہائیوں میں جو شخص اپنی نیند کی قربانی دے کر عبادت کے لئے اٹھے گا اس میں دکھاوا ،ریا کاری نہیں، اس عبادت کو دیکھنے والا کوئی نہیں اس راز ونیاز میں اللہ اور بندے کے سوا کوئی تیسرا نہیں آتا۔ 
اس عبادت سے انسان میں ثابت قدمی پیدا ہوتی ہے۔ وہ اللہ کی راہ میں زیادہ مضبوطی سے چل سکتا ہے، دنیا کے مسائل سے پریشان نہیں ہوتا۔ اپنے معاملات کو اللہ کریم کے سپرد کر دیتا ہے۔ 
اور دین حق کی راہ میں جو مشکلات پیدا ہوتی ہیں ان کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتا ہے۔

رات کی تنہائیوں میں قرآن پاک کو سکون کیساتھ پڑھا جا سکتا ہے۔ یہ وقت سکون کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں انسان قرآن میں غور و خوض کر سکتا ہے اللہ اسپر اپنی رحمت اتار دیتا ہے۔

اپنی روز مرہ مصروفیات کے باوجود اللہ کی یاد سے کبھی غافل نہ ہونا۔ اللہ کو ہر حال میں یاد کرتے رہنا۔ کسی نہ کسی شکل میں اللہ کو ہمیشہ یاد کرتے رہنا یہ تمہارے لیے ہی بہتر ہے اگر تم سمجھو۔

اللہ کو اپنا وکیل بنالو

اپنے ہر کام میں اللہ کو اپنا وکیل بناؤ وہ تمہارا مقدمہ بہتر لڑے گا۔ اپنے سارے کام اس کو سونپ دو اور تم اپنے حصے کا کام کرو۔ 
اللہ کی تبلیغ کے دوران مشرکین تمہارے راستے میں آئیں تو ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کر کے تم اپنا کام کئے جاؤ اللہ تمہاری راہ نمائی کرے گا اور مدد بھی کرے گا۔ تمہارا رب عالمین کا رب ہے تمام اختیارات اس کے پاس ہیں یہ خدائی کا انکار کرنے والے تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اللہ کی ذاتِ مبارکہ پر بھروسہ کرو وہ تمہیں تنہا نہیں چھوڑے گا۔ وہ تمہارے مخالفین سے نمٹ لیگا۔


تفسیر 11  تا 20 

 پیغمبر اسلام کو ھدایت دی جارہی ہے کہ مشرکین مکہ کی باتوں پر کان مت دھرو۔ ان کی کسی بد تمیزی کا جواب نہ دو ان کی بیہودگی کو نظر انداز کرکے اپنے مشن پر دھیان دو۔  
اللہ نے مشرکین مکہ کو سخت ترین عذاب سے ڈرایا ہے۔
اللہ نے پیغمبرِ اسلام کو گواہ بنا کر بھیجا تاکہ کوئی حجت باقی نہ رہے۔ اور آخرت میں جب اللہ تعالٰی کی عدالت قائم ہوگی تو رسول کہہ سکیں کہ میں نے ان لوگوں کے سامنے حق پیش کر دیا تھا۔ 
رات کی عبادت کے حکم میں ابتدا میں اللہ نے اپنے پیغمبر کو مخاطب کیا تھا لیکن اس وقت کے مسلمانوں میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتباع اور نیکیاں کمانے کا جو غیر معمولی جذبہ پایا جاتا تھا اس کی بناء پر اکثر صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین بھی رات کی اس عبادت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔

قرآن کریم کی تلاوت مسلمانوں پر فرض ہے کیونکہ نماز میں تلاوت ہی کیجاتی ہے

اللہ کا فضل تلاش کرنا
جائز اور حلال طریقے سے رزق کمانے کے لئے سفر کرنے کو قرآن کریم میں جگہ جگہ اللہ کا فضل تلاش کرنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 
جو انسان رزق حلال کے لئے اپنے گھر سے نکلتا ہے اللہ کی رحمت اس کے ساتھ ہوتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حلال رزق کی تلاش اور جہاد فی سبیل اللہ کا ذکر ایک ساتھ کیا ہے۔ جس سے مراد ہے کہ ان میں یعنی سفر اور جہاد کے دوران تہجد میں اپنے حساب سے کمی بیشی کرلے۔ ان اوقات میں انسان کو جتنی سہولت ہو اتنا قرآن پڑھے۔ 
اسلام میں جائز رزق کمانے کی بڑی اہمیت ہے۔
ایک حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ

"اپنے آپ اور گھر والوں کو جہنم کا ایندھن بننے سے بچاؤ"
صحابہ کرام نے جب اس حدیث کی تشریح چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
مال حرام پر پلنے والا جسم جہنم کا ایندھن بنے گا۔ 
ایک اور حدیث مبارک کا مفہوم ہے

" رزق حلال کمانے والا اللہ کا دوست ہے" 

اللہ کو اچھا قرض دو
مفسرین اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے، خواہ وہ جہاد فی سبیل اللہ ہو، بندگان خدا کی مدد ہو ، رفاہ عامہ کے کاموں کے لیے ہو، یا پھر دوسرے بھلائی کے کاموں کے لیے جس سے مخلوق خدا فیض یاب ہو۔ 
اللہ کو قرض دینے کا مطلب یہ ہے کہ
اس کی مخلوقات کی خدمت میں اپنا مال لگاؤ جب تم اللہ کی بارگاہ میں روز قیامت حاضر ہوگے تو اپنا حصہ وہاں موجود پاؤ گے۔ 
جو تم اللہ کی بارگاہ میں بھیجو گے وہ تمہارے لیئے اس سے زیادہ نافع ہے جو تم نے دنیا میں روک رکھا ہے اور کسی بھلائی کے کام میں اللہ کی رضا کی خاطر خرچ نہ کیا۔
انسان کہتا ہے میرا مال، میرا مال
اس کا مال وہی ہے جو یا تو اس نے خرچ کر دیا یا اللہ کو قرض دیکر اس کی بارگاہ میں پہنچا دیا۔ باقی اس کے مرنے کے بعد جو رہ گیا اس پر دوسرے قابض ہو جائیں گے۔ 
اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔ پانی کا صدقہ اللہ کی بارگاہ میں بہت مقبول ہے۔ کسی مسلمان کی پانی کی ضرورت پوری کردیں۔ کوئی ضرورت مند ہے محتاج ہے ہاتھ نہیں پھیلاتا آپ اس کی پانی کی ضرورت کو پورا کردیں اس کے موٹر کا بل ادا کردیں۔ ٹینک بنوانے میں اس کی مدد کردیں۔ مسجدوں میں پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے وہاں پانی کے انتظامات سے نمازیوں کو سہولت ہوگی اور آپ صدقہِ جاریہ کمائیں گے۔ جانوروں کے لئے پانی کا اہتمام کیجئے بے زبانوں پر رحم کریں گے اللہ آپ پر رحم فرمائے گا۔
حضرت عبداللہ بن مسعود کی روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا
تم میں سے کون ہے جس کو اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب ہے۔
لوگوں نے عرض کیا۔۔۔
یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جسے اپنا مال اپنے وارث کے مال سے زیادہ محبوب نہ ہو۔ 
فرمایا۔۔۔۔
"سوچ لو کہ تم کیا کہہ رہے ہو"
لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمارا حال واقعی یہی ہے۔
اس پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا
" تمہارا اپنا مال تو وہ ہے جو تم نے اپنی آخرت کے لئے آگے بھیج دیا۔ اور جو کچھ تم نے روک رکھا ہے وہ تو وارث کا مال ہے" ( بخاری، نسائی) 

اللہ سے مغفرت طلب کرنا
اللہ تعالیٰ کو وہ لوگ بہت پسند ہیں جو اللہ سے مغفرت کرتے ہیں اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو کر اس سے معافی طلب کرتے ہیں۔ اس سے بخشش کے طلب گار ہوتے ہیں۔







ارشاد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے


"میں دن میں 70 مرتبہ اللہ کی جناب میں توبہ کرتا ہوں"
اللہ کے رسول معصوم النبیین ہیں پھر بھی اللہ کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ انسان خطا کا پتلا ہے وہ ہر سانس کے ساتھ گناہ کرتا ہے اور اللہ کی ذاتِ مبارکہ اس قدر رحیم اور شفیق ہے کہ وہ بندے کے گناہ پر فوری گرفت نہیں کرتی۔ اللہ اپنی شان ستاریت کا پردہ ڈال دیتا ہے۔ مغفرت طلب کرنے سے رحمت الٰہی فوراً متوجہ ہوتی ہے۔ ندامت کے آنسو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہیں۔ اللہ ان قطروں کو ضائع نہیں کرتا۔ اس کی بارگاہ میں انسان کے آنسوؤں کی بڑی قدر و قیمت ہے۔ اللہ کو منالو۔ کثرت سے استغفار کرنے سے اللہ بندے سے بہت جلد راضی ہو جاتا ہے۔


No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...