اکیس رمضان المبارک اور شہادت علی کرم اللہ وجہہ

**اکییس رمضان المبارک اور شہادت علی**

* سیرت حضرت علی کرم اللہ وجہہ *

علی بن ابی طالب 
آپ کی ولادت کعبتہ اللہ میں ہوئی اور آپ نے مسجد میں جام شہادت نوش فرمایا۔

حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ ہیں۔ بچوں میں آپ نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا۔ قبول اسلام کے وقت آپ کی عمر سات سال بتائی جاتی ہے۔

 ہجرت کی رات  جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صدیق اکبر کے ساتھ ہجرت کی تو آپ کو یہ اعزاز نصیب ہوا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو اپنے بستر پر لٹایا اور فرمایا صبح لوگوں کی امانتیں واپس کر کے چلے آنا۔
 خطرے کی رات تھی، ننگی تلواریں لیکر دشمن سر پر سوار تھے اور آپ بستر مصطفوی پر سکون سے لیٹے ہوئے تھے۔

غزوہ تبوک کے موقع پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو مدینے میں رہنے کا حکم دیا تو حضرت علی نے کہا 

" یا رسول اللہ ! آپ مجھ کو عورتوں اور بچوں پر خلیفہ بنا کر چھوڑے جاتے ہیں۔"

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔

" کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ میں تم کو اسی طرح چھوڑے جاتا ہوں جسطرح حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون علیہ السلام کو چھوڑا تھا۔۔۔۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا" 

آپ کو اپنا نام  
" ابو تراب "
بہت پسند تھا۔۔۔۔۔ جب کوئی شخص آپ کو اس نام سے پکارتا تو آپ بہت خوش ہوتے تھے۔

اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ

ایک روز آپ حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کسی وجہ سے ناراض ہو کر گھر سے نکل آئے۔ اور مسجد میں اکر وہی سوگئے۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جب اس بات کا علم ہوا تو آپ مسجد تشریف لائے اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو اٹھایا۔۔۔۔۔ تو ان کے جسم سے مٹی پونچھتے جاتے تھے اور فرماتے جاتے تھے کہ
ابو تراب۔۔۔
یعنی
مٹی کے باپ
اٹھو۔

جب آیات مباہلہ نازل ہوئیں تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی و فاطمہ، حسن و حسین کو طلب فرمایا اور کہا کہ۔۔۔
الہیٰ۔۔۔۔ یہ میرے کنبہ کے لوگ ہیں۔

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب صحابیوں میں مواخات قائم کی تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ سرکار دوعالم کے پاس روتے ہوئے آئے اور کہا۔۔۔
آپ نے ہر ایک میں مواخات قائم کر دی لیکن میں رہ گیا۔۔۔
آپ نے ارشاد فرمایا۔۔
" تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو " 

اللہ کے رسول نے علی کے لئے ارشاد فرمایا۔۔۔

" میں علم کا شہر ہوں تو علی اس کا دروازہ ہیں" 

حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت علی سے ارشاد فرمایا۔۔۔
" دو اشخاص شقی ترین ہیں۔۔۔۔
ایک وہ۔۔۔۔ احمر جس نے حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی کی کونچیں کاٹ ڈالیں تھیں۔
اور دوسرا۔۔۔۔۔ وہ شخص جو تیرے سر پر تلوار مار کر تیری داڑھی کو جسم سے جدا کرے گا۔

مدینہ آنے کے بعد 2 ھ میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو داماد رسول بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 

ہجرت مدینہ کے بعد غزوات کا سلسلہ شروع ہوا حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے ان تمام غزوات بدر، خندق، بنی قریظہ اور حنین میں کارہائے نمایاں انجام دیئے۔ خیبر کی فتح آپ کے ہاتھ سے ہوئے جہاں آپ کو نشان حیدر کا اعزاز ملا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آخری خدمت غسل اور تجہیز وتکفین کی سعادت بھی آپ ہی کے حصے میں آئی۔ آپ شروع سے آخر تک محبوب خدا کے دست و بازو رہے۔ 
آپ تینوں خلفاء کے دور میں مجلس شوریٰ کے رکن رہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو آپ کے مفید مشوروں پر بڑا اعتماد تھا۔ آپ نے اپنے مشوروں سے خلافت اسلامیہ کو بہت فائدہ پہنچایا۔ 

 * مسند خلافت *

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد تین دن تک مسند خلافت خالی رہی۔ مدینہ میں حضرت عثمان غنی کی شہادت سے شور برپا تھا۔ خلافت کا انتظام بھی ضروری تھا چنانچہ مہاجرین وانصار نے جن میں حضرت طلحہ و زبیر بھی شامل تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ خلیفہ کا انتخاب ضروری ہے۔۔۔۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اشارہ سمجھ کر جواب دیا

" مجھے اس کی حاجت نہیں ہے، جسے تم منتخب کرو گے، میں بھی اسے قبول کر لونگا"

ان لوگوں نے عرض کیا۔۔۔۔

" آپ کے ہوتے ہوئے کوئی دوسرا اس منصب کا مستحق نہیں ہے، اس لئے آپ کے علاوہ ہم کسی دوسرے کو منتخب ہی نہیں کر سکتے"

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے پھر عزر کیا کہ
"امیر ہونے کے مقابلے میں مجھے وزیر ہونا زیادہ پسند ہے"
آخر میں لوگوں نے پھر عرض کیا۔۔۔
" ہم لوگ آپ ہی کے ہاتھ پر بیعت کریں گے" 
غرض مسلمانوں کے اصرار سے مجبور ہوکر اور ملت اسلامیہ کے مفاد کا لحاظ کر کے آپ نے قبول فرمایا اور مجمع عام میں مسلمانوں نے آپ کے ہاتھ پر بیعت کی۔
اس بیعت میں مدینہ منورہ کے تمام ممتاز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین شریک تھے۔
بیعت کے بعد ذی الحجہ 35 ھ میں آپ نے مسند خلافت پر قدم رکھا۔

* کوفہ کو دارالخلافہ بنانا*

 جنگ جمل کے اختتام کے بعد رجب المرجب 36ھ میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ جب کوفہ واپس تشریف لائے تو مدینہ کے بجائے کوفہ کو مرکز خلافت قرار دیا۔ اس تبدیلی کے دو بڑے اسباب تھے۔

1۔ حضرت عثمان غنی کی شہادت میں حرم نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بڑی توہین ہوئی۔ اس لئے آئندہ اس کو شرو فتن سے بچانے کے لئے آپ نے سیاسی مرکز کو یہاں سے ہٹا دینا مناسب سمجھا۔

2 ۔ دوسرا سبب یہ تھا کہ حضرت علی کے حامیوں کی بڑی تعداد عراق میں تھی۔ اس لئے سیاسی حیثیت سے کوفہ آپ کے لئے زیادہ اہم تھا۔
اس تبدیلی سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ مدینہ منورہ سیاسی انقلابات کے مذموم نتائج سے محفوظ ہوگیا اور اس کے بعد جو سیاسی ہنگامے ہوئے ان کا مرکز عراق رہا۔ 

اس سے مدینہ منورہ کی سیاسی اہمیت و مرکزیت جاتی رہی اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ مسلمانوں کے حقیقی مرکز سے دور پڑ گئے جس کے نتائج ان کے لئے کچھ مفید ثابت نہیں ہوئے۔

* فتوحات *

حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا پورا زمانہ خانہ جنگیوں اور اندرونی جھگڑوں میں گزرا۔ تخت خلافت پر قدم رکھنے کے بعد آپ کو ایک دن کے لئے بھی اندرونی جھگڑوں سے فرصت نہ ملی۔ اس لئے بیرونی فتوحات کی جانب توجہ کرنے کاآپ کو موقع ہی نہ ملا۔اس لئے تعمیری کاموں کے حوالے سے آپ کا عہد آپ کے پیشروں کے مقابلے میں ناکام رہا اور یہ ان حالات کا لازمی نتیجہ تھا جن میں آپ کو مسند خلافت ملا تھا جو بعد میں پیش آتے رہے۔
 تاہم سیستان اور کابل میں بعض فتوحات حاصل ہوئیں۔

* عدل و مساوات *

آپ کے ایوان عدالت میں بلا امتیاز مزہب و ملت، خویش و بیگانہ، امیر و غریب سب برابر تھے۔ اگر خود آپ کسی مقدمے میں فریق ہوتے تھے تو قاضی کے سامنے حاضر ہونا پڑتا تھا اور اگر ثبوت نہ ہوتا تو مقدمہ آپ کے خلاف ہوتا۔
ایک مرتبہ آپ کی زرہ گر پڑی اور ایک نصرانی کے ہاتھ لگی۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے اسے دیکھ کر پہچانا اور قاضی شریح کی عدالت میں دعویٰ کیا۔
نصرانی کا دعویٰ تھا کہ وہ اس کی زرہ ہے۔
قاضی نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے پوچھا۔

کہ آپ کے پاس کوئی ثبوت ہے؟

حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے فرمایا۔۔۔
نہیں۔۔۔۔
قاضی شریح رحمۃ اللہ علیہ نے نصرانی کے حق میں فیصلہ دیا۔

اس فیصلے کا نصرانی پر اتنا زیادہ اثر ہوا کہ وہ مسلمان ہوگیا۔
اور کہنے لگا۔۔۔
یہ تو انبیاء کرام کے جیسا انصاف ہے
کہ
امیر المومنین مجھے اپنی عدالت کے قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں اور قاضی امیر المومنین کے خلاف فیصلہ دیتا ہے۔
پھر اس نے اعتراف کیا کہ یہ زرہ حضرت علی ہی کی ہے جو جنگ صفین میں گر گئی تھی۔ حضرت علی نے وہ زرہ اسے ھدیہ کردی۔ اور گھوڑا بھی عنایت فرمایا اس کے بعد وہ ہمیشہ علی کے ساتھ ہی رہا اور اس نے جنگوں میں اپنی نمایاں کارکردگی دکھائی۔

* بازار کی نگرانی * 

بازار کی نگرانی اور نرخ اور ناپ تول کی دیکھ بھال خود کرتے تھے۔ درہ لیکر بازار نکل جاتے اور بیچنے والوں حسن معاملات اور ناپ تول میں ایمانداری کی ہدایت فرماتے۔

* فضل و کمال *

آپ کی جلالت علمی پر سب کا اتفاق ہے۔ 
کلام الٰہی سے آپ کو خاص شغف تھا۔ کلام ربانی کے حافظ تھے آپ نے زبان وحی و الہام سے حاصل کی تھی۔ اللہ کے کلام پر آپ کی نظر اتنی وسیع تھی کہ کسی آیت کا کوئی پہلو آپ کی نظر سے مخفی نہ تھا۔ آپ فرماتے تھے کہ قرآن کریم میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس کے متعلق میں یہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کس بارے میں، کہاں اور کس کے متعلق نازل ہوئی۔ 
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد آپ نے آیتوں اور سورتوں کی نزولی ترتیب پر کلام اللہ کا ایک نسخہ مرتب کیا تھا۔
فقہی کمال میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔بڑے بڑے صحابہ آپ سے رجوع کرتے تھے۔حتی کہ آپ کے حریف امیر معاویہ کو بھی آپ سے رجوع کرنا پڑتا تھا۔ 
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو
اقضاھم علی 
صحابہ میں سب سے بڑے قاضی علی ہیں
کی سند عطا فرمائی۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک پاگل زانیہ پر حد جاری کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے روک دیا کہ مجنون حد شرعی سے مستثنیٰ ہے 

تصوف کا سرچشمہ آپ ہی کی ذاتِ مبارکہ ہے۔

                                                             * انفاق فی سبیل اللہ *

انفاق فی سبیل اللہ آپ کا امتیازی وصف تھا۔ چالیس ہزار سالانہ زکوٰۃ کے بقدر آمدنی رکھنے کے باوجود پر عسرت زندگی آپ کے انفاق ہی کا نتیجہ تھی۔ آپ کے در سے کبھی کوئی سائل ناکام واپس نہیں گیا۔ 
قوت لا یموت تک سائل کو دے دیتے تھے اور خود فاقہ سے سو رہتے تھے۔
کلام اللہ کی سورہ دہر کی یہ آیت اسی قسم کے ایک واقعے پر نازل ہوئی تھی۔ 
روایات میں آتا ہے کہ آپ کھانا کھانے بیٹھے تھے کہ سائل نے ندا کی آپ نے انگلی کے اشارے سے قوت لا یموت کی طرف اشارہ کیا سائل نے لے لی۔ 
اللہ نے آیات اتاریں۔

ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا و یتیما واسیرا۔
(سورہ الدھر۔۔۔ 8)

* شہادت حضرت امام علی کرم اللہ وجہہ *

                                                                            * شہادت علی کرم اللہ وجہہ * 

40 ھجری میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی شہادت کا عظیم حادثہ پیش آیا۔ 
تفصیل یہ ہے کہ نہروان کے معرکہ میں خارجیوں کو سخت نقصان پہنچا تھا اس لیے اس جماعت کے تین آدمیوں نے باہم مشورہ کیا کہ نہروان کے مقتولین کے بعد زندگی بیکار ہے۔ معاویہ اور علی دونوں میں سے کوئی بھی حکومت کا اہل نہیں۔ ان کی خانہ جنگی کی وجہ سے خلق اللہ مصیبتوں میں مبتلا ہے۔ انہیں ختم کئے بغیر امن و سکون قائم نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ ابنِ ملجم نے حضرت علی کو، برک بن عبداللہ نے، امیر معاویہ کو، اور عمرو بن بکر نے عمرو بن العاص کو شہید کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ 
ابن ملجم نے اپنے کام میں ایک اور شخص شبیب بن بجرہ اشجعی کو بھی شریک کر لیا اور تینوں نے ایک ہی دن رمضان 40 ھ کو نمازِ فجر کے وقت تینوں بزرگوں پر حملہ کیا۔ اتفاق سے عمرو بن العاص کے بجائے اس دن ایک اور شخص نماز پڑھانے کے لئے آیا تھا۔ ان کے دھوکے میں وہ مارا گیا۔ 
امیر معاویہ دمشق کی مسجد میں نماز فجر کی امامت کر رہے تھے کہ برک نے تلوار کا ایک ہاتھ مارا اور یہ سمجھ کر تلوار کا ہاتھ کاری لگا ہے بھاگا۔۔۔ لیکن گرفتار کر لیا گیا۔امیر معاویہ پر اوچھا وار لگا اس لئے وہ علاج معالجے سے بچ گئے۔

ابنِ ملجم اور شبیب ابنِ بجرہ دونوں حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی گزرگاہ پر چھپ رہے۔ جیسے ہی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز فجر کے لئے نکلے تو دونوں نے حملہ کر دیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو کاری زخم آیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آواز دی لوگ دوڑ پڑے۔ شبیب تو فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا ابنِ ملجم گرفتار ہو گیا۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے بجائے جعدہ بن ہبیرہ نے نماز فجر پڑھائی۔ نماز کے بعد ابنِ ملجم کو شیر خدا حیدر کرار کے آگے پیش کیا گیا۔ اس سے چند سوالات کرنے کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حکم دیا کہ اسے آرام سے رکھا جائے۔ اور پھر فرمایا۔۔۔۔۔

1. اگر میں اس زخم کے صدمے سے جانبر نہ ہو سکا تو اللہ کے حکم کے مطابق اس کو قصاص میں قتل کر دینا، اور اگر میں بچ گیا تو اس کے معاملے پر غور کروں گا۔۔۔۔۔
اور اپنے گھر والوں سے فرمایا کہ
میرے بعد میرے ایک خون کے بدلے میں مسلمانوں کا خون نہ بہانا۔ 
صرف میرا قاتل قتل کیا جائے۔
حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا۔۔۔
کہ اگر میں مر جاؤں تو ایک ضرب کے بدلے میں قاتل کو ایک ہی ضرب لگانا اور مثلہ نہ کرنا کہ رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے۔

2۔خنجر زہر آلود تھا اس لیے بہت جلد زہر بدن میں پھیل گیا اور حالت خراب ہونے لگی۔ 
حضرت امام حسن ، حضرت امام حسین، اور محمد بن حنفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور باہم اتحاد و اتفاق اور دین و دنیا میں خیر و برکت کی وصیتیں فرمائیں۔
آپ کی زندگی سے مایوسی تھی اس لئے جندب بن عبداللہ نے پوچھا کہ ہم آپ کے بعد امام حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کر لیں؟ 
فرمایا۔۔۔۔۔
"میں تم کو نہ اس کا حکم دیتا ہوں اور نہ روکتا ہوں۔ تم لوگ اس کو زیادہ بہتر سمجھ سکتے ہو"
3۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر فرمایا۔۔۔
میں تم کو اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے اور دنیا میں مبتلا نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں۔۔۔ تم کسی چیز کے حاصل نہ ہونے پر افسوس نہ کرنا۔ اور
دنیا میں مبتلاء نہ ہونے کی وصیت کرتا ہوں۔
یتیموں پر رحم اور بیکسوں کی مدد کرنا۔ ظالم کے دشمن اور مظلوم کے مددگار رہنا۔ قرآن کریم پر عامل رہنا۔ اور
حکم الٰہی کی تعمیل میں ملامت کرنے والوں کی ملامت سے نہ ڈرنا۔ پھر محمد بن الحنفیہ سے مخاطب ہو کر فرمایا۔
" میں تم کو بھی انہی باتوں کی اور
دونوں بھائیوں کی تعظیم مد نظر رکھنے کی وصیت کرتا ہوں۔ ان کا حق تم پر زیادہ ہے۔ ان کی منشاء کے خلاف تم کو کوئی کام نہیں کرنا چاہیے۔ "
حسنین کریمین کی جانب مخاطب ہو کر فرمایا کہ۔۔۔۔
"تم کو بھی محمد بن الحنفیہ کے ساتھ ہمیشہ حسن سلوک اور رعایت سے پیش آنا چاہیے"

4۔ زخمی ہونے کے تیسرے دن 21 رمضان شب یکشنبہ 40 ھ کو انتقال فرمایا۔
ان للہ وانا الیہ راجعون۔
حضرت حسن اور حسین نے غسل دیا۔ حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور رشدوہدایت کے اس آفتاب عالم تاب کو کوفہ کے عزی نامی قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔
انتقال کے وقت بروایت تریسٹھ سال عمر تھی۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مدت خلافت 4 سال 9 مہینے پر مشتمل تھی۔

                                                * اقوال علی * 

آپ نے فرمایا۔۔۔

اے عالم قرآن۔۔۔۔ عامل قرآن بھی بن۔
عالم وہی ہے جس نے پڑھ کر اس پر عمل کیا اور
اپنے علم و عمل میں موافقت پیدا کی۔ 

ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ عالموں کے علم و عمل میں سخت اختلاف ہوگا۔

ادب انسان کی میراث ہے۔

ہر مصیبت کی ایک انتہا ہوتی ہے۔اور  جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتی ہے۔ 

عاقل کو چاہئے کہ مصیبت میں گرفتار ہو تو بھٹکتا نہ پھرے اور اس کے دفع کی تدبیریں نہ کرے کیونکہ اور زحمت ہوتی ہے۔

مانگنے پر کسی کو کچھ دینا تو بخشش ہے اور بغیر مانگے دینا سخاوت ہے۔

عبادات میں سستی کا پیدا ہونا، معیشت میں تنگی واقع ہونا، لذتوں میں کمی کا آجانا گناہ کی سزا ہے۔

سب سے بڑا کرم حسن خلق ہے۔

اللہ کے سوا کسی اور سے امید نہ رکھو۔
*********************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...