روزے کا اصل مقصد

* حاصل روزہ اسلام میں کیا ہے؟ *

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے،

" اے لوگو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم میں تقویٰ پیدا ہو۔"

قرآن کریم کی اس آیت مبارکہ میں روزے کا اصل مقصد تقویٰ بیان کیا گیا ہے اور
تقویٰ کیا ہے؟ 
تقویٰ کے معنی ہیں، خود کو بچانا، اللہ کے احکام کو توڑنے سے بچانا۔ 
تقویٰ یہ ہے کہ وہ تمام چیزیں چھوڑ دو جو تمہارے رب کو نا پسند ہیں۔
اللہ کے غیض و غضب سے بچنا، آخرت میں اللہ کے عذاب سے بچنا، اللہ کی حرام کردہ چیزوں میں ملوث ہونے سے بچنا، اللہ کی ناراضگی سے بچنا۔ یہ بچنے کی روش ہے۔ پوری زندگی اسے جاری وساری رکھو۔ چاہے وہ کھانے سے متعلق ہو، روزگار سے متعلق ہو، شہوت سے متعلق ہو، دین و دنیا کا کوئی بھی معاملہ ہو وہ راستہ اپناؤ جس میں تمہارے رب کی رضا ہو۔ جو راستہ اللہ کے غیض و غضب کی طرف لیکر جائے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ دو، اس راستے کو اپنے اوپر ممنوع قرار دو۔ 
ہمارے گناہوں کا سب سے بڑا سبب ہمارے نفسانی تقاضے ہیں۔
انسانی شخصیت کے تین لیول ہیں۔
1. نفس
2. قلب
3. روح
حیوانی تقاضے اندھے اور بہرے ہوتے ہیں۔ انہیں اس سے غرض نہیں ہوتی کہ کون سی چیز کہاں سے آرہی ہے ذرائع حلال ہیں یا حرام ہیں۔ نفسانی تقاضے بہت زور آور ہوتے ہیں۔ شہوت تسکین چاہتی ہے، حرام سے ہو یا حلال سے اسے کوئی سروکار نہیں۔ یہ نفس بدی کی ترغیب دلاتا ہے۔
اور روزہ تقویٰ کا طلبگار ہے۔ روزے میں انسان نفس کو حلال ذرائع سے بھی روکے رکھتا ہے۔ اللہ کا حکم جو ہے۔ یہ پابندیاں نفس پہ لگانا یہ مشق ہے یہ انسان کی تربیت ہے یہ ریاضت ہے۔ اس پورے مہینے کی تربیت اور ریاضت کا حاصل یہ ہونا چاہیے کہ انسان بقیہ 11 ماہ میں بھی اپنے آپ کو حرام سے بچالے۔ جب ایک ماہ اپنے آپ کو حلال سے بھی بچا کر دکھتا ہے تو باقی ماہ حرام سے کیوں نہیں بچا سکتا۔ جبکہ حلال راستہ تو اس کے لئے کھلا ہوا ہے۔
روزے سے خود پہ کنٹرول پیدا ہوتا ہے یہ روزے کی ریاضت ہے۔ یہ روزے کی ایک حکمت ہوئی۔

روزے کی دوسری حکمت ضبط نفس ہے۔ اسلام کا نظام متوازن ہے وہ نفس کو مارنے کی تلقین نہیں کرتا۔وہ چاہتا ہے کہ نفس کے حقوق حلال طریقے سے پورے ہوں۔ راستے جائز ہوں، ناجائز نہ ہوں۔ اسلام کا اصل معاملہ توازن سے معتدل ہے۔





حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ بہترین روزہ حضرت داؤد علیہ السلام کا روزہ تھا آپ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور دوسرے دن نہیں رکھتے تھے۔
ہفتے میں دو دن کے روزے پیر اور جمعرات کے روزے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے تھے کہ ان دو دنوں میں انسان کے اعمال عرش پر چڑھتے ہیں اور میں چاہتا ہوں کہ جب میرے اعمال عرشِ بریں جائیں تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔ اسی طرح مہینہ کے تین روزے ایام بیض کے روزے بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکھے ہیں۔ ان روزوں کی بھی بڑی فضیلت ہے۔ 
اور جو ہمیشہ روزہ رکھے اس کا روزہ نہیں ہوتا وہ تو ایسا ہے جیسے اس نے روزہ رکھا ہی نہیں۔ وہ تو پھر عادت ہوگئی۔ 
اللہ تعالیٰ نے جو حدود مقرر کی ہیں ان کے لحاظ سے کام کرنا ہے۔ ہر عبادت میں اللہ کے حکم کو مدنظر رکھنا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ کی حدوں سے تجاوز نہ کرو، حد نہ پھلانگو۔ اللہ کائنات کا بادشاہ ہے۔ ان حدود کی سختی کے ساتھ پابندی کرنی ہے۔ اسی طریقے سے اللہ اپنی آیات کو واضح کرتا ہے تاکہ لوگ تقویٰ اختیار کریں۔ احکام واضح ہوگئے تو بچنا آسان ہو گیا۔ حلال وحرام اللہ نے واضح کر دیا ہے
ان دونوں کے بیچ میں یعنی حلال و حرام کے بیچ میں جو چیز آتی ہے وہ مشابہات ہے۔ اندیشہ ہوتا ہے کہ حلال ہے یا حرام تو اس سے بھی بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔  کیونکہ ان میں حرام ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے تو ان سے بھی بچو۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ جس چیز کا حلال ہونا 100 % نہ ہو تو اس سے بچو۔ 
مجرب روزہ وہ روزہ ہے جس میں ضبط نفس ہو۔ روزے کا اصل مقصد نفس پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ اللہ کے سامنے اس نفس کو جھکا دو۔ 





اعتکاف کی برکت سے اللہ کا قرب نصیب ہوتا ہے انسان کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں انسان کو چاہیے کہ جب وہ معتکف ہو جائے تو دنیا داری بلکل ہی دل و دماغ سے نکال کر اللہ سے لو لگا لے اس کو منالے اپنے گناہوں کی معافی 
مانگنے کے ساتھ ساتھ والدین اور پوری امت مسلمہ کی بخشش کی دعا کرے۔ 

دعا ہے اللہ تعالیٰ ہمیں روزے کا اصل مقصد حاصل کرنے کی کوشش میں کامیابی عطا کرے

یا اللہ ہماری خطاؤں سے درگزر فرما اور ہماری ٹوٹی پھوٹی عبادتوں کو اپنی بارگاہ رب العزت میں شرف قبولیت عطا فرما دے۔ آمین ثم آمین یارب العالمین۔

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...