تفسیر سورہ یسین

** سورہ یسین کی فضیلت **

* سورہ یسین میں اللہ تعالیٰ نے زندگی اور موت کے بعد کا نقشہ کھینچا ہے اور انسان کی پیدائش کو واضح کیا ہے اور یہ کہ اللہ موت کے بعد بھی انسان کو دوبارہ ذندہ کرنے پر قادر ہے۔ 


* اس سورہ میں کفار ومشرکین کو تنبیہ کی گئی ہے کہ کفر سے باز آجاؤ اور ایمان والوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے۔فریضہ تبلیغ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے کہ حق بات پہنچا نا تمہاری ذمہ داری ہے تاکہ کوئی گمراہی کی زندگی نہ گزارے۔۔


* اس سورہ میں رسالت محمدی پر ایمان لانے کی ترغیب دی گئی ہے۔


* حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ آپ نے فرمایا۔۔۔

" جس طرح ہر چیز کا دل ہوتا ہے اسی طرح قرآن کریم کا دل سورہ یسین ہے" 


 یاسین شریف کوقرآن کریم کا دھڑکتا ہوا دل اس لئے فرما یا گیا ہے کہ اس سورہ مبارکہ میں قرآن کی دعوت کو نہایت پر زور طریقے سے پیش کیا گیا ہے جس سے انسان کے اندر کا جمود ٹوٹتا ہے اور روح میں حرکت پیدا ہوتی ہے۔


* حدیث مبارک کا مفہوم ہے کہ۔۔۔۔

" یہ سورت اپنے مرنے والوں پر پڑھا کرو موت کی سختی آسان ہوتی ہے اور مرنے کے بعد بھی بعد کے مراحل آسانی سے طے ہوتے ہیں"


مرنے والوں پر پڑھنے میں مصلحت یہ ہے کہ مرتے وقت مسلمان کے ذہن میں نہ صرف یہ کہ تمام اسلامی عقائد تازہ ہو جائیں بلکہ خصوصیت کے ساتھ اس کے سامنے عالم آخرت کا پورا نقشہ بھی آجا ئے اور وہ جان لے حیات دنیا کی منزل سے گزر کر اب آگے کن منزلوں سے اس کو سابقہ پیش آنے والا ہے۔


* حاجات کو پورا کرنے میں اس سورہ کا ثانی نہیں ہے۔ 


* حدیث کے مطابق جو انسان اپنے دن کے شروع میں اس سورہ کو پڑھ لے اللہ اس کے دن بھر کے تمام کاموں کی کفایت فرما ئے گا۔ اس کے کام غیب سے پورے ہوتے رہیں گے۔


* یہ سورہ مبارکہ غموں سے چھٹکارا دلاتی ہے مسائل کے حل میں بیمثال ہے۔ جو شخص سورہ یسین پڑھ کر اللہ سے دعا کرے اللہ تعالیٰ اس کی دعا کو پورا فرمائے گا۔


* بعد نماز فجر سورہ یسین تین مرتبہ پڑھے چند دنوں تک مسلسل پڑھنے سے جو بھی حاجت ہوگی انشاء اللہ پوری ہوگی۔


* جو شخص ایک مرتبہ سورہ یاسین پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے دس قرآن پاک پڑھنے کا ثواب عطا فرماتے ہیں۔


* اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ یسین اور سورہ طحہٰ کو آسمان اور زمین کے پیدا کرنے سے ہزار برس پہلے پڑھا جب فرشتوں نے سنا تو کہنے لگے


" خوشحالی ہے اس امت کے لئے جن پر یہ قرآن اتارا جائے گا اور خوشحالی ہے ان دلوں کے لئے جو اس کو اٹھائیں گے یعنی یاد کریں گے اور خوشحالی ہے ان زبانوں کے لئے جو اس کی تلاوت کریں گے"


* حدیث شریف میں آتا ہے۔۔۔

" جو سورہ یسین کو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پڑھے اللہ اس کے پچھلے سب گناہ معاف فرما دیتا ہے" 


 * یہ سورہ اپنے پڑھنے والے کے لیے دنیا و آخرت کی بھلائیوں پر مشتمل ہے دنیا و آخرت کی مصیبتوں کو دور کرتی ہے۔


* سورہ یسین مومنوں کے رتبے بلند کرنے والی اور کافروں کو پست کرنے والی ہے۔


* حدیث مبارک میں ارشاد ہوتا ہے۔ 

" میرا دل چاہتا ہے کہ سورہ یسین میرے ہر امتی کے دل میں ہو۔۔۔ یعنی زبانی یاد ہو" 


* ارشاد رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم ہے

" جس نے سورہ یسین کو ہر رات میں پڑھا پھر مرگیا تو شہید مرا۔ اللہ اس کو شہادت کے رتبے پر فائز فرمائے گا"


* ایک روایت میں آ تا ہے۔۔۔

" جو سورہ یسین کو پڑھتا ہے اس کی مغفرت کر دی جاتی ہے۔۔۔۔ جو بھوک کی حالت میں پڑھتا ہے سیراب ہوجاتا ہے۔۔۔۔۔ جو راستہ گم ہونے کی صورت میں پڑھتا ہے وہ راستہ پالیتا ہے۔۔۔۔۔ جو شخص کسی چیز کے گم ہونے کی صورت میں پڑھتا ہے اسے گمشدہ چیز مل جاتی ہے۔۔۔۔ جو ایسی حالت میں پڑھے کہ کھانا کم ہونے کا خوف ہو تو وہ کھانا کافی ہو جاتا ہے اللہ اس میں برکت ڈال دیتا ہے۔۔۔۔۔ "


* نزع میں پڑھنے سے جان نکلنے میں آسانی ہوتی ہے۔


* حاملہ عورت پر پڑھنے سے بچہ پیدا ہونے میں آسانی ہو تی ہے۔


* کسی سرکش انسان یا جانور سے خوف محسوس ہو تو پڑھنے سے اس کے شر اور فساد سے محفوظ ہو جاتے ہیں۔


* اس سورہ میں اللہ نے معاملات اور عبادات کو واضح طور پر بیان فرمایا ہے۔ فریضہ تبلیغ کی ذمہ داری بندوں پر عائد فرمائی ہے۔ اور یہ کہ اللہ تبارک وتعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔


* جو انسان سورہ یسین اور سورہ الصفات کو بعد نماز جمعہ پڑھے پھر دعا مانگے اللہ اس کی دعا قبول فرما ئے گا۔

** تفسیر سورۃ الیسن **


* آیت 1تا 20 *


* ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کے پیغمبر ہونے کی گواہی دی۔ وہ لوگ جو تمہاری نبوت کا انکار کرتے ہیں یہ قرآن گواہ ہے کہ تم رسولوں میں سے ہو کیونکہ ایسا کلام کوئی اور پیش ہی نہیں کرسکتا۔ یہ قرآن خود تمہارے رسول ہونے کا گواہ ہے۔


* یہ قرآن ایک نصیحت ہے اگر تم اسے نظر انداز کرو گے تو اللہ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ یہ اس مالک کائنات کا فرمان ہے جو سب پر غالب ہے۔ اور وہ سزا و جزا دینے پر قدرت رکھتا ہے۔


* یہ اللہ تعالیٰ کی سراسر مہربانی ہے کہ اس نے تمہاری ہدایت کے لئے رسول بھیجا اور یہ کتاب نازل فرمائی تاکہ تم گمراہیوں سے بچ جاؤ۔اور اللہ کے احکامات پر عمل کر کے اپنی دنیا و آخرت کی بھلائی اور کامیابیاں حاصل کر سکو۔ دنیا میں سکون کی زندگی گزار سکو اور مرتے وقت بھی تمہیں اطمینان نصیب ہو۔


* اللہ تعالیٰ نے انسان کو غفلت بھری زندگی سے ڈرایا ہے۔ جو لوگ غفلت بھری زندگی گزارتے ہیں دنیا و آخرت میں ان کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ وہ روش اختیار نہ کرو جو تمہیں صراطِ مستقیم سے دور لیجائے۔ تمہیں اللہ سے دور کردے۔ اپنی ہٹ دھرمی چھوڑ کر رسول کی بات مان لو اسی میں تمہاری بھلائی اور بہتری ہے۔


* جو لوگ اللہ کے فیصلے کو نہیں مانیں گے وہ عذاب کے مستحق ہیں ایسے لوگوں پر ان کی اپنی شامت اعمال مسلط کر دی جاتی ہے اور پھر انہیں ایمان کی توفیق نصیب نہیں ہوتی۔


* تبلیغ کا اصل مقصد ان لوگوں کے لیے ہے جو نصیحت کو قبول کرنے والے ہیں اور خدا سے ڈر کر راہِ راست پر آنے والے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ کوئی ہمیں راستہ دکھائے اور ہماری زندگیوں کو سنوارے تبلیغ انہی لوگوں پر اثرانداز ہوتی ہے۔ایسے انسانوں کو تلاش کرو۔ ہٹ دھرم لوگوں کو چھوڑتے جاؤ اور قیمتی موتیوں کو سمیٹتے جاؤ۔ اللہ کے نیک بندے اللہ کے فرمان پر اپنا سر جھکا دیتے ہیں۔


* انسان کا نامئہ اعمال تین قسم کے اندراجات پر مشتمل ہے۔

1۔ ہر شخص جو بھی اچھا یا برا عمل کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے دفتر میں لکھ لی جاتا ہے۔

2۔  اپنے گردو پیش کی اشیاء اور خود اپنے جسم کے اعضاء پر جو نقوش بھی انسان چھوڑتا ہے وہ سب کے سب ثبت ہو جاتے ہیں اور یہ سارے نقوش ایک دن ایسے ابھر کر آئیں گے کہ اپنے خیالات، نیتوں، اور ارادوں کی پوری داستان اس کی لوح ذہن پر لکھی نظر آئے گی اور اس کے ایک ایک اچھے اور برے فعل اور اس کی تمام حرکات و سکنات کی تصویریں سامنے آجائیں گی۔

3 ۔ اپنے مرنے کے بعد اپنی آئندہ نسل پر، اپنے معاشرے اور پوری انسانیت پر اپنے اچھے اور برے اعمال کے جو اثرات چھوڑ گیا وہ جس وقت تک جہاں جہاں تک کار فرما رہیں گے، اپنی اولاد کو جو بھی اچھی، بری تربیت دی، اپنے معاشرے میں جو بھی بھلائیاں، اچھائیاں، برائیاں پھیلائیں، انسانیت کے حق میں جو بھی پھول اور کانٹے بوئے ان سب کا ریکارڈ اس وقت تک تیار کیا جاتا رہیگا جب تک اس کی لگائی ہوئی یہ فصل دنیا میں اچھے یا برے پھل لاتی رہے گی جزا و سزا اس کے کھاتے میں لکھا جاتا رہے گا۔ 


* جن لوگوں نے جن بستیوں نے رسولوں کی دعوت کو رد کیا وہ اللہ کے عذاب کا شکار ہوئیں۔ 

*۔ کفاران مشرکین اس بات پر اعتراض کرتے تھے کہ یہ کیسا رسول ہے جو ہماری طرح کھاتا ہے اور پیتا بھی ہے ان کے مطابق رسول کوئی اور مخلوق ہونی چاہیے۔ اللہ فرماتا ہے تم سے پہلی قوموں کے بھی یہی اعتراض تھے اور اسی ہٹ دھرمی کی بنا پر وہ ایمان نہیں لائے۔

اللہ کہتا ہے۔۔۔ اے نبی ان سے کہو اگر زمین میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم انہی کو رسول بنا کر نازل کرتے۔


*اگر کوئی اللہ کے حکم کو نظر انداز کرے تو اس کا وبال اسی پر ہے۔انسان کے اوپر اللہ نے فریضہ تبلیغ کی ذمہ داری عائد کی ہے۔ نتائج کی ذمہ داری اس کی نہیں ہے۔ 


* قرآن کریم نے واضح طور پر اس بات کی تشریح فرما دی کہ کوئی کسی کیلئے منحوس نہیں ہے۔ ہر شخص کا نوشتہ تقدیر اس کی اپنی گردن میں لٹکا ہوا ہے۔ برائی، بھلائی سب اس کے نصیب کی ہے کوئی دوسرا اس کا ذمہ دار نہیں ہے۔

*۔حد سے تجاوز کرنے والوں کی خصلت بیان کی گئی ہے کہ اصل میں یہ لوگ بھلائی سے بھاگ کر برائی کو اپنانا چاہتے ہیں اس لئے حق اور باطل کا فیصلہ دلیل سے کرنے کے بجائے خرافات سے کر رہے ہیں۔ 


*۔ مر کر انسان کو اللہ کی طرف ہی جانا ہے تو کیوں نہ اس کی پیروی کی جائے اور اس چیز کو مان لیا جائے جس کی دعوت یہ رسول دے رہے ہیں اور جو نہ مانیں وہ سراسر گمراہی میں مبتلا ہیں۔ اسی خالق کائنات کی بندگی اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور لوٹ کر تمہیں اسی کی طرف جانا ہے۔


* تفسیر 21 تا 40 *


* انسان جب اللہ تعالیٰ کی ذاتِ باری کی شہادت دیتا ہے تو شہادت دیتے ہی اس کا رب اسے جنت کی بشارت دے دیتا ہے۔ جیسا کہ آیت اکیس اور بائیس میں ایک شخص کے ایمان لانے کا ذکر ہے کہ جب وہ ایمان لے آیا تو اس کی قوم کے لوگوں نے اسے قتل کر دیا۔ اور اللہ نے کہدیا کہ

"جنت میں داخل ہو جاؤ"

تو اس نے کہا۔۔

" کاش میری قوم کو معلوم ہوتا کہ میرے رب نے کس چیز کی بدولت میری مغفرت فرما دی اور مجھے باعزت لوگوں میں داخل کیا۔" 

جونہی وہ انسان موت کے دروازے سے گزر کر دوسرے عالم میں پہنچا، فرشتے اس کے استقبال کو موجود تھے اور انہوں نے اسے خوش خبری دی کہ فردوسِ بریں اس کی منتظر ہے۔


* جب کوئی قوم بہت ہی زیادہ سرکش اور نافرمان ہو جاتی ہے تو پھر اللہ اس پر عذاب بھیج دیتا ہے اور اس کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔


*اللہ کہتا ہے بندوں کے حال پر افسوس ہوتا ہے کہ ان کے پاس رسول آتے ہیں مگر وہ ان کا مزاق اڑاتے ہیں۔ پھر اللہ انہیں نیست و نابود کر دیتا ہے۔ 


* مرنے کے بعد سے قیامت کا زمانہ خالص عزم و نیستی کا زمانہ نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں بلکہ اس وقفے میں بغیر جسم کے روح ذندہ رہتی ہے کلام کرتی اور سنتی ہے، جذبات و احساسات رکھتی ہے، خوشی و غم محسوس کرتی ہے اور اہل دنیا کے ساتھ اس کی دلچسپیاں باقی رہتی ہیں۔۔ اگر یہ نہ ہوتا تو مرنے کے بعد اس مرد مومن کو جنت کی بشارت کیسے دی جاتی اور وہ اپنی قوم کے لئے یہ تمنا کیسے کرتا کہ وہ اس کے انجام نیک سے باخبر ہو جائیں۔ 


* ان آیات کی بنیاد پر اللہ اہل عرب کے کفار ومشرکین کو تنبیہ فرما رہا ہے کہ یہی رویہ تم سے پہلے کی قوموں نے بھی اپنایا تھا نتیجہ یہ ہوا کہ صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔ توحید و آخرت کا جو عقیدہ میرا رسول پیش کر رہا ہے اسے مان لو اسی میں تمہاری بھلائی ہے۔ میرے پیغمبر سے نہ الجھو۔


* اللہ نے زمین کی مثال دی کہ ایک بیجان زمین کو اس نے زندگی بخشی۔ آدمی شب و روز اس زمین کی پیداوار کھا رہا ہے اور اس کو معمولی بات سمجھتا ہے۔ اس فرش خاکی سے لہلہاتے کھیتوں اور سر سبز باغات کا اگنا اور اس کے اندر چشموں اور نہروں کا رواں ہونا کوئی معمولی کھیل نہیں، بلکہ اس کے پیچھے رب کائنات کی عظیم حکمت و قدرت اور ربوبیت کار فرما ہے۔


* یہ تو ایک ایسے خدا کا انتظام ہے جو زمین، ہوا، پانی، سورج، نباتات، حیوانات اور نوع انسانی سب کا خالق اور پالنہار ہے۔ 


* اللہ فرماتا ہے کہ اتنا نوازنے کے بعد یہ شکر کیوں نہیں کرتے۔ انسان بڑا نمک حرام اور ناشکرا ہے اللہ کا رزق کھا کر دوسرے کا کلمہ پڑھتا ہے۔ دنیا کے خداؤں کے آگے جھک جاتا ہے۔


*اللہ تعالیٰ ہر عیب اور نقص سے پاک ہے وہ اس بات سے بھی پاک ہے کہ کوئی اس کا ہمسر ہو۔ اللہ تعالیٰ ان تمام عیب و نقص سے پاک ہے جو مشرکین اس کی طرف منسوب کرتے ہیں۔


* اللہ نے ہر چیز کا جوڑا پیدا فرمایا ہے چاہے وہ انسان کے علم میں ہو یا نہ ہو۔ مرد اور عورت کا جوڑ ، نباتات و حیوانات کا جوڑ، حتیٰ کہ بے جان مادوں میں بھی جوڑ موجود ہے۔ 


*رات کے آنے کی نشانی بیان کی۔ دن اور رات کے آنے جانے میں بھی عقل والوں کے لیے حکمت اور اللہ کی وحدانیت کی گواہی پوشیدہ ہے اور دن اور رات کی آمدورفت کا گہرا تعلق زمین کی مخلوقات کے ساتھ پایا جاتا ہے ۔ اللہ نے ہر چیز حساب اور قائدے سے بنائی ہے۔


* چاند کی بھی منزلیں مقرر کر دیں۔ تاکہ انسان اپنے وقت اور ساعتوں کا اعدادوشمار کر سکے۔


* اللہ کے کارخانہ قدرت میں ہر چیز اپنے حساب سے اپنے دائرہ کار میں چل رہے ہیں کہیں کوئی بے ضابطگی موجود ہیں ہے ہر چیز کے طلوع و غروب کے اوقات مقرر ہیں۔ سب اپنے دائرہ کار میں اپنا اپنا کام کر رہے ہیں۔


* ان سب سے انسان کو یہ سمجھانا مقصود ہے کہ اگر وہ اپنی آنکھیں کھولیں اور اپنی عقل سے کام لے تو زمین سے آسمان تک اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے بیحساب دلائل ملیں گے اور اس کے ساتھ شرک کی ایک بھی دلیل نہیں ملیگی۔ 


*اللہ نے کشتی کی مثال دی کہجن کشتیوں میں تم سوار ہو تے ہو انہیں پار لگانے والی اللہ کی ذاتِ مبارکہ ہے۔ اس کی رحمت سے تمہاری کشتی پار لگتی ہے۔


* بھری ہوئی کشتی سے مراد حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہے اور نسل انسانی کو اس پر سوار کرنے کا مطلب ہے کہ قیامت تک پیدا ہونے والے تمام انسان اس پر سوار تھے۔ کیونکہ طوفان نوح میں ان کے سوا باقی پوری اولادِ آدم کو غرق کر دیا گیا تھا اور بعد کی نسل انسانی صرف انہی کشتی والوں سے چلی۔


* اس آیت میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کیا گیا ہے تاریخ میں جو پہلی کشتی بنی وہ حضرت نوح علیہ السلام والی کشتی تھی اس سے پہلے انسان کو دریاؤں اور سمندروں کے عبور کرنے کا کوئ طریقہ معلوم نہیں تھا۔ اس طریقے کی تعلیم سب سے پہلے نوح علیہ السلام کو دی گئی۔ اور جب ان کی بنائی ہوئی کشتی پر سوار ہو کر اللہ کے کچھ بندے طوفان سے بچ نکلے تو آئندہ کی نسل نے بحری سفروں کے لئے کشتیاں بنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ 


*اس نشانی کا ذکر کر کے انسان کو یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر جو اختیارات حاصل ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کے دیئے ہوئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ انسان کو فطرت کی تسخیر کے طریقے بتاتا ہے اس کی نشاندھی کرتا ہے۔ جب تک اللہ کی مرضی ہے یہ کائنات اس کے لئے مسخر رہے گی۔ اللہ کی مرضی نہ ہو تو وہی طاقتیں انسان کے اوپر پلٹ کر آتی ہیں اور انسان اپنے آپ کو ان کے سامنے بے بس پاتا ہے۔ آج بھی اللہ کا پانی اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے وہ جب چاہتا ہے انسان کو اس کے جہازوں سمیت غرق کر دیتا ہے۔

* تفسیر 41 تا 60 *


*جو کچھ رزق اللہ نے تمہیں دیا ہے اس میں دوسروں کا حق ہے۔ وہ حق انہیں پہنچاؤ۔ تم خوش قسمت ہو کہ اللہ نے تمہیں دوسروں کے رزق کا ذریعہ بنایا۔ 


* اپنے اخلاقی حس کو بلند کرو۔ خدا کے بارے میں صحیح تفکر سے کام لو ہر نصیحت کا الٹا جواب نہ دو۔


* منکرین خدا کے پاس ہر گمراہی اور بد اخلاقی کے لئے اوندھا فلسفہ ہے۔ ہر بھلائی سے فرار کے لئے ایک گھڑا گھڑایا بہانا موجود ہے۔


* مشرکین مکہ قیامت کے لئے شور مچاتے تھے وہ کہتے تھے کہ جس آخرت کے عذاب سے تم ہمیں ڈراتے ہو وہ آ کیوں نہیں جاتی۔۔۔ جس کے جواب میں اللہ فرماتا ہے وہ تو بس ایک دھماکہ ہے جو تم کو دھر لیگا۔ تم اپنے دنیاوی معاملات میں جھگڑ رہے ہو گے اور موت تمہیں پالے گی۔ 


*لوگ پورے اطمینان کے ساتھ اپنے کاروباری زندگی کو چلا رہے ہونگے۔ اور دنیا کے خاتمے کی گھڑی آ پہنچے گی۔۔۔ اچانک ایک زور کا کڑاکا ہوگا اور جو جہاں ہوگا وہی کا وہی دھرا کا دھرا رہ جائے گا۔ 

حضرت ابو ہریرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ

"لوگ راستوں پر چل رہے ہونگے، بازاروں میں خرید وفروخت کر رہے ہوں گے، اپنی مجلسوں میں بیٹھے گفتگو کر رہے ہو نگے ۔ ایسے میں یکایک صور پھونکا جائے گا، کوئی کپڑا خرید رہا ہوگا تو ہاتھ سے کپڑا رکھنے کی نوبت نہ آنے گی کہ ختم ہو جائے گا۔ کوئی کھانا کھانے بیٹھے گا اور لقمہ اٹھا کر منہ تک لیجانے کی نوبت نہ آئے گی۔ " 


* لوگ قبروں سے نکل کر پوچھیں گے ہمیں ہماری آرام گاہوں سے کس نے اٹھایا تب اللہ فرمائے گا یہ وہی دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔


* حضرت ابو ہریرہ کی روایت ہے کہ صور پھونکنے کے تین مراحل ہونگے۔

1۔ پہلا صور جب پھونکا جائے گا تو زمین وآسمان کی ساری مخلوق کو سہما دیگا۔

2 ۔ دوسرے صور کو سنتے ہی سب ہلاک ہو کر گر جائیں گے اور خدائے واحد کے سوا کوئی باقی نہ رہے گا۔ جب اللہ کے سوا کوئی چیز باقی نہ رہے گی تو زمین بدل کر کچھ سے کچھ کر دی جائے گی پھر اللہ اپنی مخلوق کو بس ایک جھڑکی دے گا جسے سنتے ہی ہر شخص جس جگہ گر کر مرا تھا اسی جگہ بدلی ہوئی زمین پر اٹھ کھڑا ہو گا۔ اور یہی تیسرا صور ہوگا۔ 


* انسان کو لگے گا کہ وہ کچھ پل کے لئے سویا تھا اور اب اٹھ چکا ہے ۔


* اسدن اللہ نیک بندوں کو الگ کر کے ان پر سلام بھیجے گا اور مجرموں کو الگ کر کے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔


* صالح اہل ایمان میدان حشر میں روک کر نہیں رکھے جائیں گے بلکہ ابتدا ہی میں ان کو بلا حساب، یا ہلکے حساب کیساتھ جنت میں بھیج دیا جائے گا۔ انہیں دوران عدالت تکلیف نہیں دی جائے گی۔ میدان حشر میں جواب دہی کرنے والے مجرموں کو بتایا جائے گا کہ دیکھو جن صالح لوگوں کا تم دنیا میں مذاق اڑاتے تھے آج وہ جنت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور تم یہاں کھڑے اپنے جرائم کی جواب دہی کر رہے ہو اس کے بعد تمہیں ہمیشہ کے لئے جہنم میں پھینک دیا جائے گا۔ 


*اس دن ساری رشتہ داریاں ختم ہو جائیں گی اور انسان کو اپنے اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا۔


* اللہ نے واضح طور پر فرما یا شیطان کی بندگی نہ کرو وہ تمہارا کھلا دشمن ہے رحمٰن کی بندگی کرو یہی سیدھا راستہ ہے۔ اللہ کے ہو جاؤ وہ تمہارا ہوجائے گا۔ اسے صرف سجدہ کرنا مقصود نہیں ہے بلکہ اس کی اطاعت بھی کرو اس کے احکام کی تابعداری بھی کرو۔ جس چیز سے روکا ہے اس سے رک جاؤ اور جس کے لئے کہا گیا ہے وہ کرو۔ 

اگر تمہارا نفس تمہیں کسی کام کے کرنے پر اکساتا ہے تو یہ دیکھو کہ اس میں اللہ کی رضا موجود ہے۔ شرع کی رو سے اس کام کی اجازت موجود ہے۔ اگر ہے تو کرو ورنہ چھوڑ دو، اگر تم نے کیا تو تمہارا نفس خود شیطان ہے۔اگر تم نے پیروی کی تو شیطان کی عبادت کے مرتکب ہوئے۔


* خدا کی دلیل آنے کے بعد بھی اگر کوئی گمراہی کا راستہ نہ چھوڑے تو قیامت کے دن اس کا کوئی عزر قابل قبول نہ ہوگا۔خدا نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے ھدایت کی روشنی بھیج دی تھی۔ لیکن تم دشمن کے فریب میں آئے اسی کا راستہ اپنایا پیغمبروں کا مذاق اڑایا۔ تمہارا دشمن تمہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گیا اب اسی کے ساتھ جہنم میں چلے جاؤ۔ 

یہ حکم ان مجرموں کو دیا جائے گا جو اپنے جرائم کو قبول نہیں کریں گے، گواہیوں کو بھی جھٹلائیں گے، اور اپنے نامہ اعمال کو بھی تسلیم نہیں کریں گے،  تب اللہ حکم دے گا اپنی بکواس بند کرو اور دیکھو کہ تمہارے اپنے اعضائے بدن تمہارے کرتوتوں کی کیا کیا روداد سناتے ہیں۔ ان کی آنکھیں، کان، ناک، ہاتھ، پاؤں غرض کہ جسم کا ہر حصہ حتیٰ کہ ان کے جسم کی کھال بھی گواہی دے گی کہ وہ کیا کیا کام کرتے رہے ہیں اور جسم کے کس اعضاء سے کون سا کام لیتے رہے ہیں۔ اللہ ان کے ہاتھوں اور پاؤں کو زبان عطا فرمائے گا جو یہ گواہی دیں گے کہ یہ دنیا میں کیا کرتے رہیں ہیں۔ 


*انسان کو اپنی کسی بھی چیز پر کوئی گھمنڈ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ہر چیز اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔ کس وقت کون سی بیماری لگ جائے انسان اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ کب کیا چھن جائے انسان واپس نہیں لا سکتا۔ جو کچھ بھی ہے اس کا عطا کردہ ہے انسان کو اس کی دی ہوئی نعمتوں پر ہر حال میں شکر ادا کرنا چاہیے۔ اور ناشکری نہیں کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے کہ وہ ہمیں مرتے دم تک ہوش وحواس کی زندگی عطا فرمائے اور محتاجی سے بچالے۔ 


*کفار مکہ توحید و آخرت کی زندگی کو شعر و شاعری سے تشبیہ دیتے تھے۔ اسی کا جواب اللہ نے دیا میرے پیغمبر کو شعر و شاعری زیب نہیں دیتی یہ تو اللہ رب العزت کا اتارا ہوا کلام ہے۔ اور یہ کلام ایک نصیحت ہے جو اس کی پیروی کرے گا نجات پائیگا جو جھٹلائے گا خسارے میں رہے گا۔ یہ کلام صرف اسی پر اثرانداز ہوگا جو ہٹ دھرم نہ ہو جو شعور رکھتا ہو جو سوچنے سمجھنے والا ہو۔ رہے وہ لوگ جو جانوروں کی سی زندگی گزارتے ہیں انہیں نصیحت کرنا اور نا کرنا برابر ہے۔ 


*اللہ تعالیٰ نے مخلوق کے لئے ہر چیز اپنے دست قدرت سے بنائی ہے اور اس تخلیق کار میں کوئی اس کا ساتھی نہیں ہے۔ اور اللہ نے انسان کے بس میں کردیا تاکہ انسانیت فیضیاب ہو سکے۔


* تفسیر 61 تا 83 *


*  اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو کسی اور کا عطیہ سمجھنا، اس کی نعمتوں پر کسی اور کا احسان مند ہونا، کسی اور سے امید رکھنا، کسی اور سے نعمت طلب کرنا۔۔۔ یہ سب کفرانِ نعمت ہے۔ یہ بھی کفرانِ نعمت ہے کہ انسان اس کی دی ہوئی نعمتوں کو اس کی رضا کے خلاف استعمال کرے۔ دوسروں کے آگے نظر و نیاز پیش کرنا، دوسروں کے نام کے چڑھاوے چڑھانا، یہ کفرانِ نعمت ہے۔ 


* جو اللہ کے سوا کسی اور کو اپنا خدا بنالے اللہ فرماتا ہے ایسے لوگوں کی ہر گز مدد نہیں کی جائے گی۔ اور جن سے یہ مدد مانگتے ہیں وہ خود اپنی مدد پر قادر نہیں ہیں تو دوسروں کی مدد کیا کریں گے۔ مدد مانگنی ہے تو اللہ سے مانگو۔


* اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ جو آپ کے خلاف جھوٹ کے طوفان اٹھا رہے ہیں یہ دراصل بے بنیاد اور جھوٹے ہیں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ وہ لوگوں کو آپ کے خلاف بدگمان کرنے کے لئے آپ کو ساحر، شاعر، کاہن مجنوں اور نامعلوم کیا کچھ کہ رہے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی باتوں پر دلبرداشتہ نہ ہوں۔ وہ خود اس بات کے قائل ہیں کہ وہ آپ کو نیچا دکھانے کے لیے یہ سب کر رہے ہیں۔


* کفار مکہ کہتے تھے کہ بوسیدہ ہڈیوں کو ذندہ کون کرے گا۔ حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ اس آیت کے موقع پر کفار مکہ کے سرداروں میں سے ایک شخص قبرستان سے کسی مردے کی بوسیدہ ہڈی لیے ہوئے آگیا اور اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اسے توڑ کر اور اس کے منتشر اجزاء ہوا میں اڑا کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا،

" اے محمد! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تم کہتے ہو کہ مردے پھر ذندہ کر کے اٹھائے جائیں گے، بتاؤ ان بوسیدہ ہڈیوں کو کون ذندہ کرے گا" 

اس کا جواب اس آیت مبارکہ میں دیا گیا کہ ان سے کہو،،،

"انہیں وہی ذندہ کرے گا جس نے انہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اور وہ تخلیق کا ہر کام جانتا ہے" 


*اللہ مخلوق کی طرح عاجز نہیں ہے کہ وہ پیدا نہ کر سکے۔ اس کے لئے تو بس اشارے کی دیر ہے۔


* اللہ فرماتا ہے کہ ہم نے انسان کو ایک نطفہ سے پیدا کیا پھر وہ ہمارے ہی بارے میں مثالیں پیش کرنے لگا۔ اس نطفے کو ترقی دیکر ہم نے اسے عقل و شعور عطا فرمایا، اس کے اندر وہ قابلیتیں پیدا کیں جو کسی حیوان کو نصیب نہیں پھر وہ اپنے خالق کے ہی منہ آن لگا۔ 


* جس نے زمین اور آسمان کو پیدا کیا۔ کیا وہ اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ ان گلی سڑی ہڈیوں کو دوبارہ زندگی دے سکے اور دوسری بار کا پیدا کرنا اس کے لئے بہت آسان ہے۔ 


* وہ جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو کہتا ہے

ہوجا

اور وہ ہوجاتی ہے۔ 

اللہ کی ذات پاک ہے ان باتوں سے جو یہ مشرکین کرتے ہیں۔

********************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...