اللہ کے ذکر کی فضیلت
حضرت عبد اللہ بن عمر العاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔۔۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔جس طرح لوہے پر زنگ لگتا ہے۔۔۔ اسی طرح دلوں پر بھی زنگ لگ جاتا ہے۔۔۔ آپ سے عرض کی گئی۔۔۔ یا رسول اللہ۔۔۔! وہ زنگ کس طرح صاف ہوگا ۔۔۔؟فرمایا ۔۔۔ قرآن کی کثرت کے ساتھ تلاوت کرنے۔۔۔ اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرنے سے۔۔۔ (کنز العمال)۔۔۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔۔۔رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا۔۔۔ جو لوگ کسی مجلس میں بیٹھیں۔۔۔ اور اس میں اللہ تعالیٰ کا ذکر نہ کریں۔۔۔ تو یہ مجلس قیا مت کے دن ان کے لیے ۔۔۔حسرت و افسوس کا سبب ہوگی۔۔۔ (مسند احمد ج/۲ص/۲۲۴ مشکوٰۃ ص۱۹۸)۔۔۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔جب جنت کے باغ سے گزرو تو۔۔۔ کچھ چن لیا کر ۔۔۔ صحابہ نے عرض کیا ۔۔۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔! جنت کا باغ کیا ہیں۔۔ ؟
آپ نے فرمایا حلقۂ ذکر ۔۔۔ (مشکوٰۃ ص/۱۹۸)۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ۔۔۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔کہ شیطان انسان کے دل سے۔۔۔ چمٹا رہتا ہے جب انسان اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے۔۔۔ توشیطان ہٹ جاتا ہے ۔۔۔اور جب غافل ہو جاتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالتا ہے ۔۔۔(ایضا ص/۱۹۹)۔
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ۔۔۔کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ۔۔۔اپنے رب کا ذکر کرنےوالے۔۔۔ اور نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی ہے۔۔۔ (بخاری ج/۵ص/۲۳۵۳،مسلم ج/۱ص/۵۳۹ ،ابن حبان ج/۳ص/۱۳۵)۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ۔۔۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا دوزخ سے۔۔۔ اس شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا ۔۔۔یا کبھی کسی مقام پر مجھ سے ڈرا ۔۔۔(ترمذی ج/۴ص/۷۱۲،مستدرک ج/۱ص/۱۴۱)۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔۔۔ کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا ۔۔۔قیا مت کے دن اللہ تعالیٰ کچھ ایسے لوگوں کو ۔۔۔اٹھائے گا جن کے چہرے نور سے جگمگا رہے ہوں گے۔۔۔وہ موتیوں کے ممبروں پر ہوں گے۔۔۔ لوگ انہیں دیکھ کر رشک کریں گے۔۔۔ نہ تو وہ انبیا ہوں گے۔۔۔ اور نہ ہی شہدا۔۔۔ وہ ذاکرین ہونگے۔۔
حضرت ابو دردا ء رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ۔۔۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔جن لوگون کی زبانیں ہمیشہ ذکر الٰہی سے تر رہتی ہیں۔۔۔ وہ مسکراتے ہوئے جنت میں داخل ہوں گے۔۔۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج/۷ص/۱۱۱ ،دُر منثور ج/۱ص/۳۶۶)
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کرسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔کہ جو لوگ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے لئے ۔۔۔ اکٹھے ہو کر اس کا ذکر کرتے ہیں۔۔۔ تو آسمان سے ایک منادی آواز دیتا ہے۔۔۔ کھڑے ہو جاؤ تمہاری مغفرت کردی گئی ہے ۔۔۔بے شک تمہارے گناہ نیکیوں میں بدل دیئے گئے ہیں۔۔۔ (مسند احمد ج/۳ص/۱۴۲،شعب الایمان ج/۱ص/۴۰۱ ،الترغیب و الترہیب ج/۲ص/۲۰۷)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ۔۔۔آسمان والے ذکر کرنے والے گھروں کو ۔۔۔ایسے روشن دیکھتے ہیں ۔۔۔جیسے زمین والے ستاروں کو روشن دیکھتے ہیں (دُر منثور
حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺ نے فرمایا ۔۔۔جس نے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا اور اس کے خوف سے ۔۔۔ اس کی آنکھوں سے اس قدر آنسوں جاری ہوئے۔۔۔ کہ زمین تک اس کے آنسو پہنچ گئے۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن عذاب نہیں دےگا۔۔۔ (مستدرک ج/۴ص/۲۸۹ ،الترغیب و الترہیب ج/۴ص/۱۱۳)۔
ذکرِ الٰہی کے فائدے۔۔۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نےفرمایا ۔۔۔اللہ تعالیٰ کے کچھ فرشتے ایسے ہیں۔۔۔ جو ذکر کرنے والوں کی تلاش میں راستوں۔۔۔ اور گلیوں کا چکر لگا تے رہتے ہیں ۔۔۔جب وہ ذاکرین کی کسی جماعت کو پا لیتے ہیں ۔۔۔تو ایک دوسرے کو آواز دیتے ہیں۔۔۔ ادھر آؤ !یہاں ہے وہ چیز جو تم چاہتے ہو۔۔۔
پھر یہ فرشتے ان کے ارد گرد ۔۔۔ حلقہ بنا کر ان ذاکرین کو اپنے پَروں سے سایہ کرتے ہیں۔۔۔ پھر بارگاہ مولیٰ تعالیٰ میں حاضر ہوتے ہیں۔۔۔ تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے۔۔۔ حالانکہ اللہ اپنے بندوں کا حال جانتاہے۔۔۔ لیکن فرشتوں سے اپنے ذاکر بندوں کی تعریف سننا پسند فرماتا ہے۔۔۔ اے فرشتو۔۔۔ !تم نے میرے بندوں کو۔۔۔ کس حال میں پایا۔۔۔ ؟
فرشتے عرض کرتے ہیں ۔۔۔ وہ تیری تسبیح بیان کررہے تھے۔۔۔ تیری بڑائی اور تعریفیں کر رہے تھے۔۔۔ تیری بزرگی اور حمد بیان کر رہے تھے۔۔۔ تیرے کرم اور علو مرتب کے گن گا رہے تھے۔۔۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔۔۔ کیا نہوں نے مجھے دیکھا ہے۔۔۔ ؟
فرشتے ۔۔۔نہیں مولیٰ انہوں نے تجھے نہیں دیکھا۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ اگر وہ مجھے دیکھ لیتے تو ۔۔۔ان کے ذکر و شکر کا کیا عالم ہوتا۔۔۔ ؟
فرشتے۔۔۔ اگر وہ تجھے دیکھ لیتے تو۔۔۔ تیری عبادت و ریاضت میں اور ۔۔۔زیادہ سر گرم ہوتے۔۔۔ تیرے عفو و کرم۔۔۔ اور بزرگی کے اور بھی گن گاتے۔۔۔ تیری تسبیح و تقدیس میں۔۔۔ اور زیادہ مصروف رہتے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ وہ مجھ سے کیا چاہتے ہیں ؟
فرشتے ۔۔۔ وہ تجھ سے جنت کے طالب ہیں۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ کیا انہوں نے جنت دیکھی ہے۔۔۔ ؟
فرشتے ۔۔۔نہیں خدا ان لوگوں نے ۔۔۔ جنت کو نہیں دیکھی ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ اگر وہ لوگ جنت دیکھ لیتے تو ۔۔۔ان کےطلب اور شوق و تجسس ۔۔۔عبادت و ریاضت کا کیا عالم ہوتا۔۔ ؟
فرشتے ۔۔۔ اگر وہ جنت کو دیکھ لیتے تو۔۔۔ اس پر اور زیادہ فریفتہ و حریص ہو جاتے۔۔۔ اور اس کے اور زیادہ طالب و شائق بن جاتے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔وہ کس چیز کی ہولناکیوں سے پناہ مانگ رہے تھے۔۔۔ ؟
فرشتے ۔۔۔ جہنم کی حولناکیوں سے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔کیا انہوں نے جہنم کو کبھی دیکھا ہے۔۔۔ ؟
فرشتے ۔۔۔ نہیں خدا اے رب۔۔۔ !انہوں نے جہنم کو کبھی نہیں دیکھا۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے۔۔۔ تو ان کا کیا حال ہوتا۔۔۔ ؟
فرشتے۔۔۔ اگر وہ جہنم کو دیکھ لیتے تو ۔۔۔وہ اس سے اور بھی زیادہ دور بھاگتے۔۔۔ اور اس سے اور زیادہ ڈرتے۔۔۔
اللہ تعالیٰ ۔۔۔ اے میرے فرشتو ۔۔!میں تمہیں گواہ بناتا ہوں۔۔۔ میں نے ان سب کو بخش دیا۔۔۔
عاجزی اور اللہ کا ذکر۔۔۔
عاجزی و گریہ زاری سے اللہ کو یاد کرنے کا حکم ہے۔۔۔ انسان میں بڑائی اور تکبر۔۔۔ زیب نہیں دیتا اس لئے اسے چاہیے کہ وہ۔۔۔ زمین جیسی عاجزی اختیار کرے اور۔۔۔ آسمان جیسی بلند اخلاقی کا مظاہرہ کرے۔۔۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔۔
”یاد کرو اپنے رب کو۔۔۔ اپنے دل میں خشیت اور عاجزی کے ساتھ۔۔۔ آہستہ آواز سے ہر صبح و شام اور ۔۔۔ تمہارا شمار غافلوں میں نہ ہو۔“ (القرآن)
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”یہ عمل مجھے دنیا و مافیہا سے۔۔۔ زیادہ محبوب ہے کہ ذاکرین کے ساتھ ۔۔۔صبح کی نماز کے بعد طلوع آفتاب تک۔۔۔ اور عصر کی نماز کے بعد غروب آفتاب تک ذکر الٰہی کروں۔۔۔“ (الحدیث)
چلتے پھرتے۔۔۔ اُٹھتے بیٹھتے ۔۔۔ وضو بے وضو ۔۔۔ ہر حال میں اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔
جب کوئی بندہ جلی یا خفی ذکر کرتا ہے۔۔۔ اس کے اندر VIBRATION کا عمل جاری ہو جاتا ہے۔۔۔ اس کے حواس ہمہ تن۔۔۔ اللہ کی طرف متوجہ ہو جاتے ہیں۔۔۔
************************************
اسلام کو دین توحید کہا جاتا ہے۔۔۔ اس کی توحیدی شان کا۔۔۔ ایک منظر یہ بھی ہے کہ۔۔۔ دین و دنیا میں۔۔۔ جدائی نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک وحدت بن جاتی ہے۔۔۔ صرف ایک کام آدمی کرے۔۔۔ دنیا کو دین کے تابع کرلے۔۔۔ تو ہر وہ کام جسے۔۔۔ ہم دنیا داری اور خالص اپنے حیوانی و جسمانی۔۔۔ تقاضے سمجھتے ہیں وہ سب۔۔۔ دین داری میں شمار ہو جاتا ہے۔۔۔ عبادت کا تصور کیا ہے۔۔۔
سورۃ الزاریات میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔
" میں نے جن و انس کو۔۔۔ صرف اس لئے پیدا کیا کہ۔۔۔ میری عبادت کریں۔۔۔"
اب سوال یہ ہے کہ۔۔۔ نماز حکم ہے۔۔۔ تو کیا انسان سارا دن نماز پڑھے۔۔۔ ہر وقت روزے سے رہے۔۔۔ مطلب کیا ہے؟؟۔۔۔ اگر تم اپنی پوری زندگی کو۔۔۔ اللہ کے تابع کر دو۔۔۔ کمانا خرچ کرنا۔۔۔ رزق حلال کی جدو جہد کرنا۔۔۔ یہاں تک کہ ازدواجی تعلقات بھی۔۔۔ عبادت بن جاتے ہیں۔۔۔ یہ تصور دنیا میں۔۔۔ کہیں نہیں ملے گا۔۔۔ عبادت و بندگی کا۔۔۔ ایسا پاکیزہ تصور صرف۔۔۔ اسلام دیتا ہے۔۔۔ اور اسی میں انسان کی۔۔۔ دنیوی اور اخروی زندگی۔۔۔ کی کامیابی ہے۔۔۔
****************************************
دین و دنیا میں کوئی دوئی نہیں ہے۔۔۔ یہ ایک ہیں۔۔۔ اللہ کے رسول کے بعض صحابہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا۔۔۔ یا رسول اللہ۔۔۔ دولت مند لوگ تو۔۔۔ اجرو ثواب میں بازی لے گئے۔۔۔ وہ اپنے مال سے اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات کرتے ہیں۔۔۔ ہم صدقہ نہیں کر سکتے کیونکہ۔۔۔ ہمارے پاس مال نہیں ہے۔۔۔ فرمایا۔۔۔ اللہ نے مال کی تقسیم رکھی ہے۔۔۔ تاکہ جن کے پاس نہ ہو۔۔۔ ان کو پہنچ جائے۔۔۔ یہ تقدیر ہے۔۔۔ غریبی اور امیری کے فرق میں۔۔۔ اگر سسٹم میں خرابی ہے تو اسے۔۔۔ دور کرنا چاہیے۔۔۔ مواقع سب کے لیے ایک جیسے ہوں۔۔۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں یہ نظام نہیں۔۔۔ لیکن دنیا نے کر کے دکھایا۔۔۔ تعلیم امیر غریب سب کے لیے یکساں۔۔۔ علاج کے مواقع سب کے لیے ایک جیسے ہونے چاہیے۔۔۔ لیکن جہاں امیر غریب میں فرق رکھا جائے تو۔۔۔ یہ نا انصافی ہے۔۔۔۔ اللہ کا نظام قانون ہے۔۔۔ جو مال ضرورت سے زائد ہو۔۔۔ وہ صدقہ کردو۔۔۔
صحابہ کرام کے سوال میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔
کیا اللہ نے آپ کے لیے ایسی چیزیں۔۔۔ مقرر نہیں کی جن سے تم صدقہ کر سکو۔۔۔ وہ صدقہ کیا ہے۔۔۔ ایک مرتبہ بھی ایک تسبیح۔۔۔ سبحان اللہ کہو گے۔۔۔ وہ صدقہ ہے۔۔۔ جتنی مرتبہ اللہ اکبر کہو گے۔۔۔ صدقہ کرنے کا ثواب ملتا رہے گا۔۔۔ یہ تسبیحات تمہارے لئے۔۔۔ صدقہ جاریہ ہیں۔۔۔ انہیں اپنے اوپر لازم کرلو۔۔۔
الحمدللہ کہنا۔۔۔ لا الہ الااللہ کہنا۔۔۔ امر بالمعروف۔۔۔ نیکی کا مشورہ دینا۔۔۔ برائی سے روکنا۔۔۔ بھلی بات کرنا۔۔۔ حکم دینا یہ صدقات ہیں۔۔۔ جہاں انسان کا اختیار ہو۔۔۔ وہاں حکم دینا ہوگا۔۔۔ جیسے گھر میں نظام کی درستگی۔۔۔ کے لیے حکم دے سکتے ہیں۔۔۔ اور جہاں اختیار نہ ہو۔۔۔ وہاں مشورہ۔۔۔ نصیحت۔۔۔ کسی برائی کو روکنا۔۔۔ زبان سے ہاتھ سے۔۔۔ صدقہ ہی تو ہے۔۔۔ دین میں بہت آسانی ہے۔۔۔
رب العزت سورہ طہ میں فرماتا ہے۔۔۔
ہم نے یہ قرآن تم پر۔۔۔ اس لئے نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑو۔۔۔
فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔
تم میں سے کسی کا۔۔۔ اپنی بیوی سے ہم بستری کرنا بھی۔۔۔ صدقہ ہے۔۔۔
صحابہ نے عرض کیا۔۔۔ یا رسول اللہ۔۔۔ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔ ایک شخص اپنے نفس کی خواہش۔۔۔ پوری کرتا ہے تو کیا اس میں اللہ ربّ العزت اجر دے گا۔۔۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا۔۔۔ تم نے کبھی سوچا۔۔۔ اگر وہ یہی کام۔۔۔ حرام راستے سے کرتا۔۔۔ تو گناہ ہوتا۔۔۔ عذاب ہوتا۔۔۔ وہ کام جب حلال جائز طریقے سے۔۔۔ کر رہا ہے دنیا کو دین کے تابع کر رہا ہے۔۔۔ تو رب العزت اسے عبادت کا درجہ دیتا ہے۔۔۔
دنیا کو دین کے تابع کردو۔۔۔ ایک فیصلہ۔۔۔
پوری دنیا داری۔۔۔ دین داری۔۔۔ کسب معاش عبادت۔۔۔ بیوی کا حق۔۔۔ نفس کا حق ادا کرنا۔۔۔ عبادت بن جاتا ہے۔۔۔ قرآن نے بتایا۔۔۔ تمہارے نفس کا بھی تم۔۔۔ پر حق ہے۔۔۔ تمہاری بیویوں کا بھی۔۔۔
حلال طریقے سے کئے ہوئے سارے کام عبادت بن جاتے ہیں۔۔۔ جو اللہ کے حدود کی پاسداری کرے۔۔۔ اللہ انہیں اپنے قریب کر لیتا ہے۔۔۔ اسلام کا تصور بندگی بہت خوبصورت ہے۔۔۔ اس نے انسان کے لیے آسانیاں رکھی ہیں۔۔۔ وہ تنگی پیدا نہیں کرتا۔۔۔ انسان خود دور بھاگتا ہے۔۔۔
***********************************
قرآن اور خوشحال زندگی۔۔۔
خوش رہنا اور پر نشاط زندگی بسر کرنا ۔۔۔اللہ تعالٰی کی انسان پر بہت بڑی نعمت ہے۔۔۔ لہذا جو شخص اپنی زندگی میں خوش رہے ۔۔۔سمجھئے اس کے پاس اللہ کی عطا کردہ بہت سی۔۔۔ نعمات ہیں جن پر وہ اللہ کی بارگاہ میں شکر گذار بھی ہے۔۔۔
قرآن مجید کے تمام احکام ۔۔۔ اوامر اور اخلاقیات کا مقصد ہی یہ ہے کہ۔۔۔ اس مجہول الحال انسان کی۔۔۔ دید کا منظر بدل جائے۔۔۔ اور جو چیزیں اس کی زندگی میں اسے نقصان۔۔۔ اور گھاٹا پہونچا سکتی ہیں۔۔۔ ان سے اسے روکا اور منع کیاجائے ۔۔۔چونکہ حرام کام انسان کے جسم و روح دونوں کو مجروح۔۔۔ اور بیمار کرتے ہیں۔۔۔ اسلام کی پوری توجہ۔۔۔ اس بات پر ہے کہ ایک انسان کے سامنے ۔۔۔ایک ایسی زندگی کا تصور پیش کیا جائے کہ۔۔۔ اسے دنیا میں بھی لذت حیات ملے اور۔۔۔ آخرت میں سعادت نصیب ہو ۔۔۔ ایسی زندگی علم و معرفت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔۔۔ کہ جس کے ساتھ ساتھ عمل کے۔۔۔ میدان میں بھی انسان کے قدم نہ ڈگمگائے۔۔۔ قرآن مجید نے خوشگوار زندگی کی نہایت ہی۔۔۔ مختصر اور سادہ اصولوں سے انسان کو متعارف کروایا ہ
رحمت خدا سے وابستگی۔۔۔
آپ اپنی خوشیوں کو کسی ایسے کے۔۔۔ دامن کرم میں تلاش مت کیجئے۔۔۔ جو ہمیشہ آپ کی دسترس میں نہ رہے۔۔۔ جب ہم لوگ اپنی زندگی کو ۔۔۔مادی لذات سے لطف اندوز ہونے میں محدود کرلیتے ہیں۔۔۔ تو ظاہر ہے جب یہ نعمات و لذتیں ختم ہوجاتی ہیں۔۔۔ تو ہم رنجیدہ و غم زدہ ہوجاتے ہیں ۔۔۔لہذا اپنی خوشیوں کو ایک ایسی قدرت لایزال سے وابستہ کیجئے کہ۔۔۔ جس کی ذات ہمیشہ رہنے والی ہے۔۔۔ اور اس کے یہاں کمال ہی کمال ہے۔۔۔ اور جہاں نقص کی گنجائش نہ ہو۔۔۔’’ قُلْ بِفَضْلِ اللّهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُواْ هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُونَ‘‘۔(یونس:58)
اے پیغمبر! کہہ دیجئے کہ یہ قرآن۔۔۔ فضل و رحم خدا کا نتیجہ ہے۔۔۔ لہٰذا انہیں اس پر خوش ہونا چاہئے۔۔۔ کہ یہ ان کے جمع کئے ہوئے اموال سے کہیں زیادہ بہتر ہے۔۔۔
اس آئیہ کریمہ کے تناظر میں۔۔۔ زندگی کی خوشیوں کو رحمت خدا سے۔۔۔ وابستہ ہونے کو اس طرح بیان کیا گیا ہے ۔۔۔کہ تمام خیر و خوبیاں اللہ تعالٰی کے وجود میں جمع ہیں۔۔۔ اور اس کی ذات ہر خیر و بھلائی کا سرچشمہ ہے۔۔۔ اور اپنے خزانہ غیب سے جسے جتنا چاہتا ہے بخش دیتا ہے۔۔۔’’ وَاللّهُ یَرْزُقُ مَن یَشَاء بِغَیْرِ حِسَابٍ‘‘۔(سورہ آل عمران:۳۷)۔ وہ جسے چاہتا ہے بے حساب رزق عطا کردیتا ہے
مثبت نظریہ۔۔۔
مثبت سوچ اپنے اندر بے انتہا۔۔۔ طاقت رکھتی ہے۔۔۔ ایک مثبت سوچ۔۔۔ مثبت نظریہ نہ صرف آپ کی زندگی کو۔۔۔ کامیابی و کامرانی کی طرف لیجائے گا۔۔۔ بلکہ اس سے ہزاروں لوگوں کی زندگی میں۔۔۔ مثبت تبدیلی ظاہر ہوگی۔۔۔
مثبت نظریہ انسانی زندگی پر۔۔۔ گہرا اثر چھوڑتا ہے۔۔۔ مثبت سوچ انسان کو کامیابی و کامرانی کی طرف لے جاتی ہے۔۔۔ نئی اور روشن راہیں کھولتی ہے۔۔۔ امید پیدا کرتی ہے۔۔۔ جینے کی امنگ پیدا کرتی ہے۔۔۔ جبکہ منفی سوچ منفی رویہ۔۔۔ کردار کو نہ صرف پست کرتی ہے۔۔۔ بلکہ زندگی میں اندھیرے پیدا کرتی ہے۔۔۔ انسان کو گمراہ کرتی ہے۔۔۔ مایوسیوں میں دھکیل دیتی ہے اور مایوسی گناہ ہے۔۔۔ کہ ہے جو اس دنیا میں ممکن نہیں۔۔۔ بس آپ کے عمل کی ضرورت ہے۔۔۔ اور چیزیں وجود میں آجائیں گی۔۔۔
ارشاد ہوتا ہے۔۔۔’’ وَ عَسَى أَن تَکْرَهُواْ شَیْئًا وَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَیْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّهُ یَعْلَمُ و
چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔۔۔’’ وَ عَسَى أَن تَکْرَهُواْ شَیْئًا وَهُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَعَسَى أَن تُحِبُّواْ شَیْئًا وَهُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّهُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُونَ‘‘۔(سورہ بقرہ:۲۱۶) اور یہ ممکن ہے کہ جسے تم برا سمجھتے ہو۔۔۔ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو ۔۔۔اور جسے تم دوست رکھتے ہو۔۔۔ وہ بری ہوں ۔۔۔ خدا سب کو جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ہو۔۔۔
زندگی کے تلخ حادثات سے۔۔ کبیدہ خاطر اور رنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔۔۔ منفی سوچ آپ کے جسم کے ساتھ ساتھ۔۔۔ روح کو بھی نقصان پہونچاتی ہے۔۔۔
آپ اپنی طاقت کے اعتبار س
ے۔۔۔ کوشش کیجئے اور نتیجہ کار کو خدائے حکیم کی ۔۔۔حکمت پر چھوڑ دیجئے۔۔۔ زندگی کو گزارنے کے بجائے۔۔۔ جینا سیکھ لیجئے۔۔۔ منفی دید کے چشمے کو آنکھوں سے ہٹا دیجئے۔۔۔ اپنے وجود میں موجود خوبیوں۔۔۔ اور اللہ کی بیکراں نعمتوں کو دیکھئے اور۔۔۔ ان سب کے مقابل اس کا شکر ادا کیجئے۔۔۔
************************************
روابط میں کامیابی ہے۔۔۔
اس دنیا میں انسان کے روابط 4 ہیں۔۔۔
۱۔بندے کا اللہ سے رابطہ
۲۔انسان کا اپنی ذات سے رابطہ
۳۔ایک انسان کا دوسرے انسان سے رابطہ
۴۔طبیعت میں موجود اشیاء سے رابطہ
اس میں پہلا رابطہ یعنی۔۔۔ بندے کا خدا کے ساتھ رابطہ۔۔۔ یہ رابطہ نہایت ضروری ہے۔۔۔ جس پروردگار نے آپ کو احسن تقویم کا لقب دیا ہے۔۔۔ اسے کبھی نہ بھولیں۔۔۔ اپنے پالنہار سے اتنا فاصلہ دوری نہ رکھیں کہ زندگی۔۔۔ مشکل ہو جائے۔۔۔ ایک اللہ کے سوا آپ کا کوئی۔۔۔ خیر خواہ نہیں ہے۔۔۔ اللہ سے جتنا انسان کا رابطہ۔۔۔ قوی ہوگا وہ آپ کے اندر ایک ایسی ۔۔۔طاقت ایجاد کردے گا ۔۔۔کہ جس کے بعد آپ کو کسی بھی طاقت۔۔۔ پر بھروسہ و وابستگی کی۔۔۔ ضرورت ہی محسوس نہیں ہوگی۔۔۔ اللہ کی غیبی طاقتوں پر۔۔۔ بھروسہ رکھیں۔۔۔ اللہ اپنے بندوں کو۔۔۔ کسی بھی حالت میں۔۔۔ اکیلا نہیں چھوڑتا۔۔۔ جب بندہ گرنے لگتا ہے تو۔۔۔ اس کی رحمت آکے تھام لیتی ہے۔۔۔ ہر آتی جاتی سانس کے ساتھ۔۔۔ اپنے رب کو یاد رکھو۔۔۔
اپنی زات سے رابطے میں رہیں۔۔۔
اپنے اندر کی کھوج لگائیں۔۔۔
اپنی زندگی کو کسی۔۔۔ اہم مقصد کے حصول کے لئے لگادیں۔۔۔ اور اس کے لئے بھر پور کوشش سے دریغ بھی نہ کیجئے ۔۔۔اور آپ کا سب سے اہم مقصد۔۔۔ اپنے رب کی رضا ہو۔۔۔ آپ زندگی میں جس بھی میدان میں۔۔۔ مصروف عمل ہیں۔۔۔ اپنا کام پوری ایمانداری اور دیانت داری سے کیجئے۔۔۔ مشکلات کی پرواہ کئے بغیر۔۔۔ محنت و کوشش کیجئے اور۔۔۔ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے۔۔۔ استقامت سے ڈٹ جائیں۔۔۔ کامیابی آپ کا مقدر ضرور بنے گی۔۔۔ اپنے آپ سے مخلص رہیں۔۔۔ اپنے کام سے مخلص رہیں۔۔۔ کامیابی قدم چوم لے گی۔۔۔
دوسروں کے ساتھ رابطہ
دوسروں کے ساتھ۔۔۔ روابط کو مضبوط اور مستحکم بنائیں۔۔۔ ایک دوسرے سے جڑے رہیں۔۔۔ دوسروں کی ضروریات کا خیال رکھیں۔۔۔ حدیثِ مبارکہ کے مطابق۔۔۔ بہترین انسان وہ ہے۔۔۔ جو دوسروں کے لیے۔۔۔ فایدہ مند ہو۔۔۔
دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کیجئے۔۔۔ دوسروں کو خوشیاں دینے کی فکر کیجئے۔۔۔
ایک مضبوط معاشرے کا قیام۔۔۔ مضبوط روابط پر قائم ہے۔۔۔ جہاں آپ کی بھی خوشیاں جڑی ہیں۔۔۔ جاہلوں سے نہ الجھیں۔۔۔ نیک لوگوں کے درمیان۔۔۔ رہنے کی کوشش کریں۔۔۔ انسان اپنے حلقہ احباب سے پہچانا جاتا ہے۔۔۔
’’ وَعِبَادُ الرَّحْمَنِ الَّذِینَ یَمْشُونَ عَلَى الْأَرْضِ هَوْنًا وَإِذَا خَاطَبَهُمُ الْجَاهِلُونَ قَالُوا سَلَامًا‘‘۔(فرقان:63) اور اللہ کے بندے وہی ہیں ۔۔۔جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں ۔۔۔اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں۔۔۔ توسلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں۔۔۔
دوسروں کی بد اخلاقی کا جواب۔۔۔ خوش اخلاقی سے دیں۔۔۔ دوسروں کا احترام کریں۔۔۔ ان کے جذبات کا احترام کریں۔۔۔ اس میں آپ ہی کی بھلائی ہے۔۔۔
ان لوگوں سے دوری اختیار کریں۔۔۔ جو آپ کی کامیابی کی راہ میں۔۔۔ رکاوٹیں ڈالتے ہوں۔۔۔ اللہ نے انسان کو۔۔۔ عقل و شعور کی۔۔۔ دولت سے نوازا ہے۔۔۔ اس سے کام لیں۔۔۔
معاشرے میں کامیاب زندگی گزارنے کے لیے۔۔۔ آپ دوسروں سے کٹ کر نہیں رہ سکتے۔۔۔
طبیعت میں موجود اشیاء سے رابطہ۔۔۔
دنیا میں کامیاب ہونے کے لیے۔۔۔ آپ تنہا کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اس کے لیے آپ کو۔۔۔ مادی وسائل۔۔۔ دوسروں کے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اس کے بغیر کامیابی ممکن نہیں ہے۔۔۔ اس لئے آپ کو اپنی فیلڈ میں۔۔۔ ہر اس چیز سے رابطے میں رہنا ہوگا۔۔۔ جو اس میدان عمل میں۔۔۔ کامیابی کی طرف لیجاتے ہوں۔۔۔ اب چاہے وہ انسان ہو۔۔۔ ادارہ ہو یا پھر وسائل۔۔۔
****************************************
No comments:
Post a Comment