پروین شاکر 1

کتاب ۔۔۔۔۔۔ بارش میں گلاب جل رہا ہے


انتخاب ۔۔۔۔۔۔ شمائلہ مظہر

انتساب

خوشبو کی شاعرہ
پروین شاکر کے نام
جن کی شاعری آج بھی کانوں
میں رس گھولتی اور
خوشبو بکھیرتی ہے۔

کتاب کا نام بھی انہی کے شعر پر رکھا گیا ہے۔
اپنی آراء سے ہمیں ضرور نوازئیے گا آپ کی آراء ہمارے لئے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ آپ کی حوصلہ افزائی مزید اچھا کام کرنے کی ترغیب دیتی ہے۔
Rohaandroid
کا بہت شکریہ جن کے توسط سے کتاب پبلش ہوئی۔ اور آپ تک پہنچی۔
Join us...
Facebook/Articlesbyshumaila
Blog:
Successsm.blogspot.com
Email: mazharshumaila755@gmail.com
****************************************

پہلا باب

پروین شاکر

شاعرہ کا مختصر تعارف


چوبیس نومبر ،پیر کی سرد رات اور رم جھم برستی بارش میں جونہی مؤذن نے صدا ئے اذان بلند کی ،کراچی کے ایک ہسپتال میں ایک ننھی سی کلکاری گونجی اور افضل النسا اور سید شاکر حسین زیدی کے ہاں ایک پری کا جنم ہوا جسے آج دنیا پروین شاکر کے نام سے جانتی ہے۔

پروین شاکر نومبر، 1952 ء کو پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا  ہوئیں۔ آپ کے والد کا نام سید شاکر حسن تھا۔ ان کا خانوادہ صاحبان علم کا خانوادہ تھا۔ ان کے خاندان میں کئی نامور شعرا اور ادبا پیدا ہوئے۔ جن میں بہار حسین آبادی کی شخصیت بہت بلند و بالا ہے۔ آپ کے نانا حسن عسکری اچھا ادبی ذوق رکھتے تھے۔ انہوں نے بچپن میں پروین کو کئی شعرا کے کلام سے روشناس کروایا۔ پروین ایک ہونہار طالبہ تھیں۔ دورانِ تعلیم وہ اردو مباحثوں میں حصہ لیتیں رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ریڈیو پاکستان کے مختلف علمی ادبی پروگراموں میں شرکت کرتی رہیں۔ انگریزی ادب اور زبان دانی میں گریجویشن کیا اور بعد میں انہی مضامین میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی  ڈگری حاصل کی۔ 

انگلش لٹریچر اور لنگئٹکس میں ماسٹرز کے بعد پروین شاکر کچھ عرصہ انگلش کی لیکچرر رہیں پھر سی۔ایس۔ایس کا امتحان پاس کرنے کے بعد کسٹم میں اسسٹنٹ کمشنر کے طور پر تعینات ہوئیں۔

پروین شاکر استاد کی حیثیت سے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہیں اور پھر بعد میں آپ نے سرکاری ملازمت اختیار کر لی۔

معروف شاعرہ پروین شاکر نے اپنی شاعری میں صرف رومانوی موضوعات پر قلم نہیں اٹھایا بلکہ اُن کے اشعار میں بھرپور عصری شعور بھی ملتا ہے۔ پروین نے اپنی شاعری میں نسائی جذبات کی تہذیب یافتہ شکل کو متعارف کرایا۔

پروین شاکر نے کم سنی ہی میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں اردو ادب پڑھنے والوں کے دِل میں گھر کر لیا تھا۔ ’خوشبو‘ کی رومانوی فضا سے لے کر ’صد برگ‘ تک کا شعری سفر کچے جذبات رکھنے والی لڑکی کے عصری اور قلبی تجربات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے کا سفر ہے۔


ان کی ایک عادت یہ تھی کہ وہ کسی بھی محفل میں اپنے جوتے اتار دیا کرتیں اور ننگے پیر پھرا کرتیں ،واپسی پر اکثر ہی جوتے گم ہو جایا کرتے اور انہیں ننگے پیر گھر آنا پڑتا،وہ گاڑی بھی جوتا اتار کر چلایا کرتیں،ایک دفعہ کا واقعہ ہے کہ وہ اسلام آباد کی جناح سپر مارکیٹ میں جوتوں کی دکان کے سامنے گاڑی روکے زورزور سے ہارن بجا رہی تھیں ، شاپ سے سیلزمین باہر آیا تو پتا چلا کہ پروین شاکر ہیں اور ننگے پیر ہیں انہیں جوتا چاہیے،اصل میں وہ کسی تقریب میں اپنا جوتا کھو بیٹھی تھیں اور اب جہاں جانا تھا وہاں بغیر جوتے کے جا نہیں سکتی تھیں۔

ان کے سفر میں جوتے کبھی آڑے نہیں آئے۔ کوئی چیز ان کی راہ میں حائل نہیں ہوئی۔ صرف 24برس کی عمر میں ان کا پہلا مجموعہ ’’ خوشبو‘‘ شائع ہوا۔

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

پروین شاکر اپنی نجی زندگی میں بظاہر ناکام رہیں۔ چھوٹی عمر کے ایک جذباتی تعلق میں ناکامی کے بعد اُن کے والدین نے پروین کی شادی اُن کے کزن سے کر دی تھی۔ جو پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر تھے اورشادی سے کچھ عرصہ پہلے ہی ڈھاکہ سے کراچی آئے تھے۔

1976میں اُن کی شادی ڈاکٹر نصیر علی سے ہوئی اور 1978ء میں ان کا بیٹا مراد علی پیدا ہوا۔

شادی کے بعد شروع کا کچھ عرصہ تو پروین بہت خوش رہیں لیکن پھر اُن کی ازدواجی زندگی میں مسائل پیدا ہونے لگے اور بالآخر یہ رشتہ بھی ٹوٹ گیا۔
 اور1987ءمیں ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔

کوئی سوال کرے تو کیا کہوں اس سے
بچھڑنے والے سبب تو بتا جدائی کا

کیسے کہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

کون چاہے گا تمہیں میری طرح 
اب کسی سے نہ محبت کرنا


پروین کی شاعری کے موضوعات میں ایک اہم موضوع اُن کا بیٹا مراد بھی رہا

مجھے تیری محبت نے عجب اک روشنی بخشی

میں اس دنیا کو اب پہلے سے بہتر دیکھ سکتی ہوں

محبت میں ناکامی کا دکھ اُن کے اشعار میں جا بجا محسوس ہوتا ہے۔

ممکنہ فیصلوں میں ایک ہجر کا فیصلہ بھی تھا

میں نے تو ایک بات کی، اس نے کمال کر دیا
اور
کیسے کہہ دوں کہ مجھے چھوڑ دیا ہے اس نے

بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی

پروین نے ایک بار کہا تھا

مر بھی جاؤں تو کہاں لوگ بھلا ہی دیں گے
لفظ میرے، مرے ہونے کی گواہی دیں گے


شاعرہ کا یہ گلہ تو بجا نہیں کہ لوگ انہیں بھلا دیں گے۔ البتہ، مصرہ ثانی ،خوشبو جیسے لہجے کی شاعرہ کے امر ہونے کا ایک زمانہ گواہ ہے۔

 پروین شاکر جنہیں دنیا سے رخصت ہوئے 25 برس گزرنے کے باوجود لوگ بھولے نہیں ، ان کے لفظ ہمیشہ ان کے ہونے کے گواہ رہیں گے۔


چھبیس دسمبر پیر ہی کے روز آفس جاتے ہوئےاسلام آباد میں ان کی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہوا اور کومل لہجے والی ہی شاعرہ صرف 42 برس کی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔انہیں اسلام آباد کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔

اُن کے کتبے پر یہ شعر درج ہیں

مر بھی جاؤں تو کہاں ،لوگ بھلا ہی دیں گے 
لفظ میرے ،مرے ہونے کی گواہی دیں گے

عکس خوشبو ہوں بکھرنے سے نہ روکے کوئی 
اور بکھر جاؤں تو مجھ کو نہ سمیٹے کوئی

چھبیس دسمبر کو  پاکستان کی اس معروف شاعرہ کی برسی منائی جاتی ہے اور اس موقع پر سُخن و ادب سے شوق رکھنے والے افراد پروین شاکر کو نہ صرف یاد کرتے ہیں بلکہ اُن کے کلام کی خوشبو محسوس کرنے اور اسے پھیلانے کے لیے خصوصی نشستوں کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

پروین شاکر کی جواں مرگی نے اُن کی شہرت کو کم نہیں ہونے دیا۔ آج بھی اردو ادب میں جب ایک مکمل شاعرہ کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو پروین کے نعم البدل کے طور پر کوئی شاعرہ ادبی منظر پر نظر نہیں آتی۔
************************************** رات ابھی تنہائی کی پہلی دہلیز پہ ہے
اور میری جانب اپنے ہاتھ بڑھاتی ہے
سوچ رہی ہوں
ان کو تھاموں
زینہ زینہ سناٹوں کے تہ خانوں میں اتروں
یا اپنے کمرے میں ٹھہروں 
چاند مری کھڑکی پہ دستک دیتا ہے
************************************

تشکر

دشتِ غربت میں جس پیڑ نے
میرے تنہا مسافر کی خاطر گھنی چھاؤں پھیلائی ہے
اُس کی شادابیوں کے لیے
میری سب انگلیاں ۔۔۔
ہوا میں دعا لکھ رہی ہیں !​
**************************************

تمام رات میرے گھر کا ایک در کُھلا رہا

تمام رات میرے گھر کا ایک در کھُلا رہا
 میں راہ دیکھتی رہی وہ راستہ بدل گیا

وہ شہر ہے کہ جادوگرنیوں کا کوئی دیس ہے
 وہاں تو جو گیا، کبھی بھی لوٹ کر نہ آ سکا

میں وجہِ ترکِ دوستی کو سُن کر مُسکرائی تو
 وہ چونک اُٹھا۔عجب نظر سے مجھ کو دیکھنے لگا

بچھڑ کے مُجھ سے، خلق کو عزیز ہو گیا ہے تُو
 مجھے تو جو کوئی ملا، تجھی کو پُوچھتا رہا

وہ دلنواز لمحے بھی گئی رُتوں میں آئے۔ جب
 میں خواب دیکھتی رہی، وہ مجھ کو دیکھتا رہا

وہ جس کی ایک پل کی بے رُخی بھی دل کو بار تھی
 اُسے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے۔مجھ کو بھُول جا

دمک رہا ہے ایک چاند سا جبیں پہ اب تلک
گریز پا محبتوں کا کوئی پل ٹھہر گیا

****************************************

نظر آئے وہ کھڑے ہوئے

دروازہ جو کھولا تو نظر آئے وہ کھڑے وہ
حیرت ہے مجھے ، آج کدھر بھُول پڑے وہ

بھُولا نہیں دل ، ہجر کے لمحات کڑے وہ
راتیں تو بڑی تھیں ہی، مگر دن بھی بڑے وہ!

کیوں جان پہ بن آئی ہے ، بِگڑا ہے اگر وہ
اُس کی تو یہ عادت کے ہواؤں سے لڑے وہ

الفاظ تھے اُس کے کہ بہاروں کے پیامات
خوشبو سی برسنے لگی، یوں پھُول جھڑے وہ

ہر شخص مجھے ، تجھ سے جُدا کرنے کا خواہاں
سُن پائے اگر ایک تو دس جا کے حروف جڑے وہ

بچے کی طرح چاند کو چھُونے کی تمنا
دِل کی کوئی شہ دے دے تو کیا کیا نہ اڑے وہ

طوفاں ہے تو کیا غم، مجھے آواز تو دیجے
کیا بھُول گئے آپ مرے کچے گھڑے وہ

****************************************
ان آنکھوں نے پہچانا ہمیں

یہ غنیمت ہے کہ اُن آنکھوں نے پہچانا ہمیں
 کوئی تو سمجھا دیارِ غیر میں اپنا ہمیں

وہ کہ جن کے ہاتھ میں تقدیرِ فصل گُل رہی
 دے گئے سُوکھے ہُوئے پتوں کا نذرانہ ہمیں

وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح
 اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں

سچ تمھارے سارے کڑوے تھے، مگر اچھے لگے
 پھانس بن کر رہ گیا بس ایک افسانہ ہمیں

اجنبی لوگوں میں ہو تم اور اِتنی دُور ہو
 ایک اُلجھن سی رہا کرتی ہے روزانہ ہمیں

سُنتے ہیں قیمت تمھاری لگ رہی ہے آج کل
سب سے اچھے دام کس کے ہیں ، یہ بتلانا ہمیں

تاکہ اُس خوش بخت تاجر کو مبارکباد دیں
(اور اُس کے بعد دل کو بھی ہے سمجھانا ہمیں)

****************************************
رہنما بھی گیا

چراغِ راہ بُجھا کیا ، کہ رہنما بھی گیا
ہَوا کے ساتھ مسافر کا نقشِ پا بھی گیا

میں پھُول چنتی رہی اور مجھے خبر نہ ہُوئی
وہ شخص آ کے مرے شہر سے چلا بھی گیا

بہت عزیز سہی اُس کو میری دلداری
مگر یہ ہے کہ کبھی دل مرا دُکھا بھی گیا

اب اُن دریچوں پہ گہرے دبیز پردے ہیں
وہ تاک جھانک کا معصوم سلسلہ بھی گیا

سب آئے میری عیادت کو، وہ بھی آیا
جو سب گئے تو مرا درد آشنا بھی گیا

یہ غربتیں مری آنکھوں میں کسی اُتری ہیں
کہ خواب بھی مرے رُخصت ہیں ، رتجگا بھی گیا

***************************************
لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے

لمحات وصل کیسے حجابوں میں کٹ گئے
وہ ہاتھ بڑھ نہ پائے کہ گھونگھٹ سمٹ گئے

خوشبو تو سانس لینے کو ٹھہری تھی راہ میں
ہم بدگماں ایسے کہ گھر کو پلٹ گئے

ملنا __ دو بارہ ملنے کو وعدہ __ جُدائیاں
اتنے بہت سے کام اچانک نمٹ گئے

روئی ہوں آج کھُل کے، بڑی مُدتوں کے بعد
بادل جو آسمان پہ چھائے تھے، چھٹ گئے

کِس دھیان سے پرانی کتابیں کھلی تھیں کل
آئی ہوا تو کِتنے ورق ہی اُلٹ گئے

شہرِ وفا میں دھُوپ کا ساتھی کوئی نہیں
سُورج سروں پہ آیا تو سائے بھی گھٹ گئے

اِتنی جسارتیں تو اُسی کو نصیب تھیں
جھونکے ہَوا کے، کیسے گلے سے لپٹ گئے

دستِ ہَوا نے جیسے درانتی سنبھال لی
اب کے سروں کی فصل سے کھلیان پٹ گئے

**************************************
نیند تو خواب ہوگئی شاید

نیند تو خواب ہو گئی شاید
جنس نایاب ہو گئی شاید

اپنے گھر کی طرح وہ لڑکی بھی
نذرِ سیلاب ہو گئی شاید

تجھ کو سوچوں تو روشنی دیکھوں
یاد ، مہتاب ہو گئی شاید

ایک مدت سے آنکھ روئی نہیں
جھیل پایاب ہو گئی شاید

ہجر کے پانیوں میں عشق کی ناؤ
کہیں غرقاب ہو گئی شاید

چند لوگوں کی دسترس میں ہے
زیست کم خواب ہو گئی شاید


***************************************
چاند اس دیس میں نکلا کہ نہیں

چاند اُس دیس میں نکلا کہ نہیں! 
جانے وہ آج بھی سویا کہ نہیں!

اے مجھے جاگتا پاتی ہُوئی رات
وہ مری نیند سے بہلا کہ نہیں!

بھیڑ میں کھویا ہُوا بچہ تھا 
اُس نے خود کو ابھی ڈھونڈا کہ نہیں!

مجھ کو تکمیل سمجھنے والا 
اپنے معیار میں بدلا کہ نہیں!

گنگناتے ہوئے لمحوں میں اُسے
دھیان میرا کبھی آیا کہ نہیں!

بند کمرے میں کبھی میری طرح 
شام کے وقت وہ رویا کہ نہیں!

میری خود داری برتنے والے!
 تیرا پندار بھی ٹوٹا کہ نہیں!

 الوداع ثبت ہُوئی تھی جس پر 
اب بھی روشن ہے وہ ماتھا کہ نہیں!

***************************************
اس نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی
اُن نے خوشبو کی طرح میری پذیرائی کی

کیسے کہہ دوں کہ مُجھے چھوڑ دیا اُس نے
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی

وہ کہیں بھی گیا، لَوٹا تو مرے پاس آیا
بس یہی بات اچھی مرے ہرجائی کی

تیرا پہلو، ترے دل کی طرح آباد ہے
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی

اُس نے جلتی ہُوئی پیشانی پہ جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آ گئی تاثیر مسیحائی کی

اب بھی برسات کی راتوں میں بدن ٹوٹتا ہے
جاگ اُٹھتی ہیں عجب خواہشیں انگڑائی کی

***************************************


وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

تمہاری پوروں کا لمس اب تک

مری کفِ دست پر ہے

اور میں سوچتا ہوں

وہ لمحے کتنے دروغ گو تھے

وہ کہہ گئے تھے

کہ اب کے جو ہاتھ تیرے ہاتھوں کو چھو گئے ہیں

تمام ہونٹوں کے سارے لفظوں سے معتبر ہیں

وہ کہہ گئے تھے

تمہاری پوریں

جو میرے ہاتھوں کو چھو رہی تھیں

وہی تو قسمت تراش ہیں

اور اپنی قسمت کو

سارے لوگوں کی قسمتوں سے بلند جانو

ہماری مانو

تو اب کسی اور ہاتھ کو ہاتھ مت لگانا

میں اُس سمے سے

تمام ہاتھوں

وہ ہاتھ بھی

جن میں پھول شاخوں سے بڑھ کے لطف نمو اٹھائیں

وہ ہاتھ بھی جو سدا کے محروم تھے

اور ان کی ہتھیلیاں زخم زخم تھیں

اور وہ ہاتھ بھی جو چراغ جیسے تھے

اور رستے میں سنگ فرسنگ کی طرح جا بجا گڑھے تھے۔

وہ ہاتھ بھی جن کے ناخنوں کے نشان

معصوم گردنوں پر مثال طوق ستم پڑے تھے

تمام نا مہربان اور مہربان ہاتھوں سے

دست کش یوں رہا ہوں جیسے

یہ مٹھیاں میں نے کھول دیں تو

وہ ساری سچائیوں کے موتی

مسرتوں کے تمام جگنو

جو بے یقینی کے جنگلوں میں

یقین کا راستہ بناتے ہیں

روشنی کی لکیر کا قافلہ بناتے ہیں

میرے ہاتھوں سے روٹھ جائیں گے

پھر نہ تازہ ہوا چلے گی

نہ کوئی شمع صدا جلے گی

میں ضبط اور انتظار کے اس حصار میں مدتوں رہا ہوں

مگر جب اک شام

اور وہ پت جھڑ کی آخری شام تھی

ہوا اپنا آخری گیت گا رہی تھی

مرے بدن میں مرا لہو خشک ہو رہا تھا

تو مٹھیاں میں نے کھول دیں

اور میں نے دیکھا

کہ میرے ہاتھوں میں

کوئی جگنو

نہ کوئی موتی

ہتھیلیوں پر فقط مری نامراد آنکھیں دھری ہوئی تھیں

اور ان میں

قسمت کی سب لکیریں مٹی ہوئی تھیں۔

***************************************


قریۂ جاں میں کوئی پھُول کھِلانے آئے
وہ مرے دِل پہ نیا زخم لگانے آئے

میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے
وہ مرے گھر کے دَر و بام سجانے آئے

اُس سے اِک بار تو رُوٹھوں میں اُسی کی مانند
اور مری طرح سے وہ مُجھ کو منانے آئے

اِسی کوچے میں کئی اُس کے شناسا بھی تو ہیں
وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے
اب نہ پُوچھوں گی میں کھوئے ہوئے خوابوں کا پتہ
وہ اگر آئے تو کُچھ بھی نہ بتانے آئے

ضبط کی شہر پناہوں کی، مرے مالک!خیر

غم کا سیلاب اگر مجھ کو بہانے آئے

***************************************
جاری ہے

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...