پروین شاکر 2



اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کھُل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں

شام بھی ہو گئی، دھُندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بھُولنے والے، میں کب تک ترا رَستا دیکھوں

ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں

کاش صندل سے مری مانگ اُجالے آ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ، جو اپنا دیکھوں

تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں!

بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں

سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ، ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں

مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

پھُول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کھِل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں

میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے، اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں

تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں

ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں


****************************************


سکوں بھی خواب ہُوا، نیند بھی ہے کم کم پھر
قریب آنے لگا دُوریوں کا موسم پھر

بنا رہی ہے تری یاد مُجھ کو سلکِ کُہر
پرو گئی مری پلکوں میں آج شبنم پھر

وہ نرم لہجے میں کُچھ کہہ رہا ہے پھر مُجھ سے
چھڑا ہے پیار کے کومل سُروں میں مدھم پھر

تجھے مناؤں کہ اپنی انا کی بات سُنوں
اُلجھ رہا ہے مرے فیصلوں کا ریشم پھر

نہ اُس کی بات میں سمجھوں نہ وہ مری نظریں
معاملاتِ زباں ہو چلے ہیں مبہم پھر

یہ آنے والا نیا دُکھ بھی اُس کے سر ہی گیا
چٹخ گیا مری انگشتری کا نیلم پھر

وہ ایک لمحہ کہ جب سارے رنگ ایک ہوئے
کِسی بہار نے دیکھا نہ ایسا سنگم پھر

بہت عزیز ہیں آنکھیں مری اُسے، لیکن
وہ جاتے جاتے انہیں کر گیا ہے پُر نم پھر
****************************************

دست گل پھیلا ہوا ہے میرے آنچل کی طرح

پھر مرے شہر سے گزرا ہے وہ بادل کی طرح
دست گُل پھیلا ہُوا ہے مرے آنچل کی طرح

کہہ رہا ہے کسی موسم کی کہانی اب تک
جسم برسات میں بھیگے ہُوئے جنگل کی طرح

اُونچی آواز میں اُس نے تو کبھی بات نہ کی
خفگیوں میں بھی وہ لہجہ رہا کومل کی طرح

مِل کے اُس شخص سے میں لاکھ خموشی سے چلوں
بول اُٹھتی ہے نظر، پاؤں کی چھاگل کی طرح

پاس جب تک وہ رہے ، درد تھما رہتا ہے
پھیلتا جاتا ہے پھر آنکھ کے کاجل کی طرح

اَب کسی طور سے گھر جانے کی صُورت ہی نہیں
راستے میرے لیے ہو گئے دلدل کی طرح

جسم کے تیرہ و آسیب زدہ مندر میں
دل سرِ شام سُلگ اُٹھتا ہے صندل کی طرح

***************************************

وہ جب سے شہر خرابات کو روانہ ہُوا
براہِ راست مُلاقات کو زمانہ ہُوا

وہ شہر چھوڑ کے جانا تو کب سے چاہتا تھا
یہ نوکری کا بُلاوا تو اِک بہانہ ہوا

خُدا کرے تری آنکھیں ہمیشہ ہنستی رہیں
یہ آنکھیں جن کو کبھی دُکھ کا حوصلہ نہ ہُوا

کنارِ صحن چمن سبز بیل کے نیچے
وہ روز صبح کا مِلنا تو اَب فسانہ ہُوا

میں سوچتی ہوں کہ مُجھ میں کمی تھی کِس شے کی
کہ سب کا ہوکے رہا وہ، بس اِک مرا نہ ہُوا

کِسے بُلاتی ہیں آنگن کی چمپئی شامیں
کہ وہ اَب اپنے نئے گھر میں بھی پرانا ہُوا

دھنک کے رنگ میں ساری تو رنگ لی میں نے
اور  اب یہ دُکھ ، کہ پہن کر کِسے دِکھانا ہُوا

میں اپنے کانوں میں بیلے کے پھُول کیوں پہنوں
زبانِ رنگ سے کِس کو مُجھے بُلانا ہُوا
***************************************

وہ عکسِ موجۂ گل تھا، چمن چمن میں رہا
وہ رنگ رنگ میں اُترا، کرن کرن میں رہا

وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا

سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا

وہ شہر والوں کے آگے کہیں مہذب تھا
وہ ایک شخص جو شہروں سے دُور بَن میں رہا

چراغ بجھتے رہے اور خواب جلتے رہے
عجیب طرز کا موسم مرے وطن میں رہا

****************************************


آج ملبوس میں ہے کیسی تھکن کی خوشبو
رات بھر جاگی ہوئی جیسے دُلہن کی خوشبو

پیرہن میرا مگر اُس کے بدن کی خوشبو
اُس کی ترتیب ہے ایک ایک شکن کی خوشبو

موجۂ گُل کو ابھی اِذنِ تکلم نہ ملے
پاس آتی ہے کسی نرم سخن کی خوشبو

قامتِ شعر کی زیبائی کا عالم مت پُوچھ
مہربان جب سے ہے اُس سرد بدن کی خوشبو

ذکر شاید کسی خُورشید بدن کا بھی کرے
کُو بہ کُو پھیلی ہُوئی میرے گہن کی خوشبو

عارضِ گُل کو چھُوا تھا کہ دھنک سی بکھری
کِس قدر شوخ ہے ننھی سی کرن کی خوشبو

کِس نے زنجیر کیا ہے رمِ آہو چشماں
نکہتِ جاں ہے انہیں دشت و دمن کی خوشبو

اِس اسیری میں بھی ہر سانس کے ساتھ آتی ہے
صحنِ زنداں میں انہیں دشت وطن کی خوشبو

****************************************
چہرہ میرا تھا نگاہیں اُس کی

چہرہ میرا تھا، نگاہیں اُس کی
خامشی میں بھی وہ باتیں اُس کی

میرے چہرے پہ غزل لکھتی گئیں
شعر کہتی ہوئی آنکھیں اُس کی

شوخ لمحوں کا پتہ دینے لگیں
تیز ہوئی ہُوئی سانسیں اُس کی

ایسے موسم بھی گزارے ہم نے
صبحیں جب اپنی تھیں ، شامیں اُس کی

دھیان میں اُس کے یہ عالم تھا کبھی
آنکھ مہتاب کی، یادیں اُس کی

رنگ جوئندہ وہ، آئے تو سہی!
آنکھ مہتاب کی، یادیں اُس کی

فیصلہ موجِ ہَوا نے لکھا!
آندھیاں میری ، بہاریں اُس کی

خُود پہ بھی کھُلتی نہ ہو جس کی نظر
جانتا کون زبانیں اُس کی

نیند اس سوچ سے ٹوٹی اکثر
کس طرح کٹتی ہیں راتیں اُس کی

دُور رہ کر بھی سدا رہتی ہیں
مُجھ کو تھامے ہُوئے باہیں اُس کی
****************************************
رنگ میرے ہاتھ کا حنائی ہو

ہتھیلیوں کی دُعا پھول لے کے آئی ہو
کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حِنائی ہو!

کوئی تو ہو جو مرے تن کو روشنی بھیجے
کِسی کا پیار ہَوا میرے نام لائی ہو!

گلابی پاؤں مرے چمپئی بنانے کو
کِسی نے صحن میں مہندی کی باڑھ اُگائی ہو

کبھی تو مرے کمرے میں ایسا منظر بھی
بہار دیکھ کے کھڑکی سے ، مُسکرائی ہو

وہ سوتے جاگتے رہنے کا موسموں فسوں
کہ نیند میں ہوں مگر نیند بھی نہ آئی ہو
**************************************


ہم سے جو کُچھ کہنا ہے وہ بعد میں کہہ
اچھی ندیا! آج ذرا آہستہ بہہ

ہَوا! مرے جُوڑے میں پھُول سجاتی جا
دیکھ رہی ہوں اپنے من موہن کی راہ

اُس کی خفگی جاڑے کی نرماتی دھُوپ
پارو سکھی! اس حّدت کو ہنس کھیل کے سہہ

آج تو سچ مچ کے شہزادے آئیں گے
نندیا پیاری! آج نہ کُچھ پریوں کی کہہ

دوپہروں میں جب گہرا سناٹا ہو
شاخوں شاخوں موجِ ہَوا کی صُورت بہہ

****************************************
بعد مدت اسے دیکھا لوگو

بعد مُدت اُسے دیکھا، لوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا، لوگو

خُوش نہ تھا مُجھ سے بچھڑ کر وہ بھی
اُس کے چہرے پہ لکھا تھا، لوگو

اُس کی آنکھیں بھی کہے دیتی تھیں
رات بھر وہ بھی نہ سویا، لوگو

اجنبی بن کے جو گزرا ہے ابھی
تھا کِسی وقت میں اپنا ، لوگو

دوست تو خیر کوئی کس کا ہے
اُس نے دشمن بھی نہ سمجھا، لوگو

رات وہ درد مرے دل میں اُٹھا
صبح تک چین نہ آیا ، لوگو

پیاس صحراؤں کی پھر تیز ہُوئی
اَبر پھر ٹوٹ کے برسا، لوگو

***************************************
چارہ گر ہار گیا ہو جیسے

چارہ گر، ہار گیا ہو جیسے
اب تو مرنا ہی دَوا ہو جیسے

مُجھ سے بچھڑا تھا وہ پہلے بھی مگر
اب کے یہ زخم نیا ہو جیسے

میرے ماتھے پہ ترے پیار کا ہاتھ
رُوح پر دست صبا ہو جیسے

یوں بہت ہنس کے ملا تھا لیکن
دل ہی دل میں وہ خفا ہو جیسے

سر چھپائیں تو بدن کھلتا ہے
زیست مفلس کی رِدا ہو جیسے

***************************************


پت جھڑ سے گلہ ہے نہ شکایت ہوا سے ہے 
پھولوں کو کچھ عجیب محبت ہوا سے ہے 

سرشارئ شگفتگی گل کو کیا خبر
منسوب ایک اور حکایت ہوا سے ہے 

رکھا ہے آندھیوں نے ہی ہم کو کشیدہ سر
ہم وہ چراغ ہیں جنہیں نسبت ہوا سے ہے 

اس گھر میں تیرگی کے سوا کیا رہے جہاں 
دل شمع پر ہیں اور ارادت ہوا سے ہے 

بس کوئی چیز سلگتی ہے دل کے پاس 
یہ آگ وہ نہیں جسے صحبت ہوا سے ہے 

صر صر کو اذن ہو جو صبا کو نہیں ہے بار
کنج قفس میں زیست کی صورت ہوا سے ہے ​
**************************************


بہت رویا وہ ہم کو یاد کرکے
ہماری زندگی برباد کرکے 

پلٹ کر پھر یہیں آجایئں گے ہم 
وہ دیکھے تو ہمیں آزاد کرکے 

رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے 
مگر ہاں منت صیاد کرکے

بدن میرا چھوا تھا اس نے لیکن 
گیا ہے روح کو آباد کرکے 

ہر آمر طول دینا چاہتا ہے 
مقرر ظلم کی معیاد کرکے​
****************************************

چلنے کا حوصلہ نہیں ، رکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مجھ کو نڈھال کر دیا

اے میری گل زمیں تجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر کیا تیرا حال کر دیا 

ملتے ہوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی 
اس نے مگر بچھڑتے وقت اور سوال کر دیا 

اب کے ہوا کے ساتھ ہے دامن یار منتظر
بانوئے شب کے ہاتھ میں رکھنا سنبھال کر دیا 

ممکنہ فیصلوں میں ایک ، ہجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی ، اس نے کمال کر دیا 

میرے لبوں پہ مہر تھی ، پر شیشہ رو نے تو 
شہر شہر کو میرا واقفِ حال کر دیا 

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہہ کو خواب و خیال کر دیا

مدتوں بعد اس نے آج مجھ سے کوئی گلہ کیا
منصب دلبری یہ کیا مجھ کو بحال کر دیا​
************************************

تخت ہے اور کہانی ہے وہی 
اور سازش بھی پرانی ہے وہی 

قاضی شہر نے قبلہ بدلہ
لیکن خطبے میں روانی ہے وہی 

خیمہ کش اب کے ذرا دیکھ کے ہو
جس پہ پہرہ تھا ، یہ پانی ہے وہی 

صلح کو فسخ کیا دل میں مگر
اب بھی پیغام زبانی ہے وہی 

آج بھی چہرہ ء خورشید ہے زرد
آج بھی شام سہانی ہے وہی 

بدلے جاتے ہیں یہاں روز طبیب
اور زخموں کی کہانی ہے وہی 

حجلہ غم یونہی آراستہ ہے 
دل کی پوشاک شہانی ہے وہی 

شہر کا شہر یہاں ڈوب گیا
اور دریا کی روانی ہے وہی​
‏**************************************
میں اس سے کہاں ملی تھی 
بس خواب ہی خواب دیکھتی تھی

سایہ تھا کوئی کنار دریا
اور شام کی ڈوبتی گھڑی تھی

کہرے میں چھپا ہوا تھا جنگل
چڑیا کہیں دور بولتی تھی

لپٹی ہوئی دھند کی ردا میں 
اک زرد گلاب کی کلی تھی 

اک سبز غبار تھا فضا میں 
بارش کہیں سانس لے رہی تھی 

بادل کوئی چھو گیا تھا مجھ کو 
چہرے پر عجیب تازگی تھی 

آنکھوں میں ٹھہر گئی تھی شبنم 
اور روح میں نرم روشنی تھی 

کیا چیز تھی جو میرے بدن میں 
آہستہ آہستہ کھل رہی تھی 

اک گیت ہوا کے ہونٹ پر تھا
اور اس کی زبان اجنبی تھی 

اس رات جبین ماہ پر بھی 
تحریر کوئی قدیم سی تھی 

یہ عشق نہیں تھا اس زمیں کا
اس میں کوئی بات سرمدی تھی​
‏***************************************
جب ساز کی لے بدل گئی تھی
وہ رقص کی کون سی گھڑی تھی

اب یاد نہیں کہ زندگی میں 
میں آخری بار کب ہنسی تھی

جب کچھ بھی نہ تھا یہاں پر ماقبل
دنیا کس چیز سے بنی تھی 

مٹھی میں تو رنگ تھے ہزاروں
بس ہاتھ سے ریت بہہ رہی تھی 

ہے عکس ، تو آئینہ کہاں ہے 
تمثیل یہ کس جہاں کی تھی 

ہم کس کی زبان بولتے ہیں 
گر ذہن میں بات دوسری تھی 

تنہا ہے اگر ازل سے انسان
یہ بزم کلام کیوں سجی تھی

تھا آگ ہی گر میرا مقدر
کیوں خاک میں پھر شفا رکھی تھی 

کیوں موڑ بدل گئی کہانی 
پہلے سے اگر لکھی ہوئی تھی​

***************************************

سلا رہا تھا نہ بیدار کر سکا تھا مجھے
وہ جیسے خواب میں محسوس کر رہا تھا مجھے

یہی تھا چاند اور اس کو گواہ ٹھہرا کر 
ذرا سا یاد تو کر تو نے کیاکہا تھا مجھے

تمام رات میری خواب گاہ روشن تھی
کسی نے خواب میں اک پھول دے دیا تھا مجھے 

وہ دن بھی آئے کہ خوشبو سے میری آنکھ کھلی 
اور ایک رنگ حقیقت میں چھو رہا تھا مجھے 

میں اپنی خاک پہ کیسے نہ لوٹ کر آتی 
بہت قریب سے کوئی پکارتا تھا مجھے 

درون خیمہ ہی میرا قیام رہنا تھا
تو میر فوج نے لشکر میں کیوں لیا تھا مجھے​
‏**************************************

کمالِ ضبط کو خود بھی تو آزماؤں گی
میں اپنے ہاتھ سےاس کی دلہن سجاؤں گی

سپرد کر کے اسے چاندنی کے ہاتھوں میں
میں اپنے گھر کے اندھیروں کو لوٹ آؤں گی

بدن کے کرب کو وہ بھی سمجھ نہ پائے گا
میں دل میں روؤں گی، آنکھوں میں مسکراؤں گی

وہ کیا گیا رفاقت کے سارے لطف گئے
میں کس سے روٹھ سکوں گی، کسے مناؤں گی

اب اُس کا فن تو کسی اور سے ہوا منسوب
میں کس کی نظم اکیلے میں گُنگناؤں گی

وہ ایک رشتہ بے نام بھی نہیں لیکن
میں اب بھی اس کے اشاروں پہ سر جھکاؤں گی

بچھا دیا تھا گلابوں کے ساتھ اپنا وجود
وہ سو کے اٹھے تو خوابوں کی راکھ اٹھاؤں گی

سماعتوں میں اب جنگلوں کی سانسیں ہیں
میں اب کبھی تری آواز سُن نہ پاؤں گی

جواز ڈھونڈ رہا تھا نئی محّبت کا
وہ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو بھول جاؤں گی
**************************************
حسن کو سمجھنے کو عمر چاہیے ، جانا!

دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں

وہ رت بھی آئی کہ میں پھول کی سہیلی ہوئی

مہک میں چمپا، روپ میں چنبیلی ہوئی

مجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح

انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں

ہتھیلیوں کی دعا پھول لے کے آئی ہو

کبھی تو رنگ مرے ہاتھ کا حِنائی ہو!
جاری ہے
***************************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...