پاکستان کا خطہ خدائے بزرگ وبرتر کی طرف سے ہمارے لئے ایک
انمول اور عظیم تحفہ ہے۔ اور اس تحفہ خداوندی کی حفاظت ہماری گھٹی میں شامل ہے اپنے وقت کے حکیم الامت حضرت علامہ اقبال فرماتے ہیں
تین سو سال سے ہے ھند کے میخانے بند
اب مناسب ہے ترا فیض عام ہو اے ساقی
دعا کی قبولیت کا وقت آتا ہے اور 14 اگست 1947 ستائیس رمضان المبارک کو خورشید فقر طلوع ہوتا ہے اور "ہندوستا کی سر زمین پر یہ نعرہ گونجتا ہے
" پاک سر زمین شاد باد ۔
اور وہ دھرتی جو ھندوؤں کی ہوتی ہے وہ دھرتی سوہنی دھرتی بن جاتی ہے
آج وطن عزیز جن حالات واقعات سے گزر رہا ہے وہاں ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے مخالف قوتوں کا نہ صرف ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے بلکہ ہمیں ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر اتحاد و یگانگت کا عملی ثبوت دینا چاہیے۔ اور ہر طرح کے خلفشار اور بد امنی کا تدراک کرنا چاہیے،یہ سب کچھ ممکنات میں سے ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زندگیوں میں امن قائم ہو زندگیوں سے بے چینی دور ہو تو ہمیں صوفیائے کرام کی تعلیمات پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔ اور امن و آشتی کا جو درس انہوں نے دیا ہے اسے اپنی زیست کا محور بنا کر ایک قوم ہونے کا ثبوت دینا ہوگا۔ ہمیں صوفیاء کے افکار و فرمودات کو اپنی حیات مستعار کا محور و مرکز بنانا ہوگا اس میں ہماری فلاح بھی ہے اور نجات بھی۔۔ صوفیائے کرام نے پیار و محبت سے لوگوں کے دلوں کو تسخیر کیا لوگوں کے دکھ بانٹے اور دلوں سے کدورت اور میل نکال کر انہیں شفافیت عطا کی جو اللہ اور اس کے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ ہے۔ جو ہر ذی روح کو سکون اور طمانیت بخشتا ہے، صوفیائے کرام نے اسی راستے پر چلنے کی تلقین کی۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس میں معاشرے کو اہمیت دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی محبت لیکر دنیا میں چھا جانے کا نام اسلام ہے اور ہمارے صوفیائے کرام اس کی عملی تفسیر ہیں ۔ اقبال نے بھی وضاحت کی ہے۔
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسمِ شبیری
کہ فقر خانقاہی ہے فقط اندوہ و دلگیری
اقبال نے امت مسلمہ کی تمام قیادتوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش کی اقبال ایک ایسے مرد مومن کی تلاش میں ہیں جو قوم کی ناؤ کو طوفان سے نکال کر ساحل سے ہم کنار کر دے۔اقبال فقر کے عریاں ہونے کی تمنا کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ فقر عریاں غزوات بدر و حنین کی گرمی ہے۔ فقر عریاں امام حسین عالی مقام کی تکبیر کی آواز ہے۔ اقبال کے نزدیک فقر کا عیاں اور عریاں نہ ہونا ہی امت کی پستی و زبوں حالی کا سبب ہے۔
*ہم اپنا کھویا ہوا وقار کیسے حاصل کر سکتے ہیں*
آئیے سلطان باہو کی جناب میں حاضر ہو کر معلوم کرتے ہیں ۔ وہ فرماتے ہیں کہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا احیاء ہے کہ مخلوق اللہ کا کنبہ ہے اور جب یہ تنکے بکھر جائیں انہیں پھر ایک جگہ جمع و یکجا کر دو اور یہ مشکل ترین کام زمانے سے ہٹ کر نہیں بلکہ زمانے کے تناظر میں رہ کر کرنا ہے۔ جس کی نشاندھی اقبال نے کچھ اس طرح کی ہے۔
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسم محمد سے اجالا کر دے
سلطان باہو کا پیغام ہیکہ روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ مادی ترقی کو بھی اپنائیں وگرنہ مسلمان دوسری قوموں کے زیر آجائیں گے اور اپنا تشخص کھو بیٹھیں گے۔ آپ فرماتے ہیں
روحانی ترقی + مادی ترقی= استحکام
پاکستان کے عوام اس وقت ایک ایسی بڑی تبدیلی چاہتے ہیں کہ انہیں مغربی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام سے مکمل آزادی حاصل ہو اور عدل و انصاف پر مبنی ایک اسلامی نظام قائم ہو۔
اس کے لئے امت کے اتحاد کی ضرورت ہے اور یہ اتحاد اس وقت پیدا ہو سکتا ہے جب مخلص مسلمان اس کام کے لئے کمر بستہ ہوں اور مسلمانوں کو قرآن و سنت کی واضح اور روشن تعلیمات پر اکھٹا کر دیں۔ یہ مقصد اس وقت حاصل ہو سکتا ہے جب ہم توحید خالص کی تعلیم دیں۔ اللہ کی بندگی کی طرف لوگوں کو دعوت دیں۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نقش قدم پر چلیں۔
اللہ رب العالمین کا ارشاد پاک موجود ہے۔
تمہارے لئے میرے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی میں بہترین نمونہ موجود ہے۔
اللہ فرماتا ہے۔۔۔۔۔
فلاح ان لوگوں کا مقدر بنتی ہے جو اللہ کی رضا کے طلب گار ہیں، جو آخرت کی کامیابی چاہتے ہیں، اور جو کثرت سے اللہ کو یاد رکھتے ہیں ۔ حضرت سلطان باہو سچے صوفی کا پیغام ہے۔۔۔۔۔
نئے چاند کی طرح منزل کی طرف کوشش کرتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جاؤ، اس نیلی فضا میں ہر وقت پھیلتے چلے جاؤ، اگر اس دنیا میں اپنا حقیقی مقام حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ کے ساتھ دل باندھ لو، اور مصطفوی اسوہ حسنہ اپنالو، اسی میں دارین کی فلاح و کامیابی کا راز چھپا ہے۔وطن عزیز بڑی قربانیوں کے بعد ملا ہے بہت بڑی شب کا بہت بڑا تحفہ ہے اس کی قدر کیجئے اپنے حصے کا کام کیجیے ہمارا مشن ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں کو اس کی وحدانیت کی طرف لے آئیں تبھی ہم ایک مرکز پر جمع ہوسکتے ہیں کیونکہ اس مرکز پر خدا ایک، رسول ایک، قرآن ایک، کلمہ ایک ہوجاتا ہے پھر اختلاف کی گنجائش نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کا حامی و ناصر ہو ۔ اور پاک رب العالمین وطن عزیز کی ہمیشہ حفاظت فرمائے ۔ آمین ثم آمین یارب العالمی
اللہ تبارک وتعالیٰ کا ذکر عذاب الہٰی سے نجات کا ذریعہ ہے
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
" عذاب الہٰی سے نجات کے لیئے آدمی کے پاس اللہ کے ذکر کے علاوہ کوئی معتبر عمل نہیں ہے"
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا،
کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی ذکر اللہ سے بہتر نجات دہندہ نہیں ہے؟
فرمایا۔۔۔۔ ہاں جہاد بھی نہیں۔ اگر چہ تمام جہاد میں تلوار سے ٹکڑے ٹکڑے ہی کیوں نہ کر دیئے جائیں۔ "
فرمانِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے،
" جب کبھی جنت کے باغوں سے گزرا کرو تو ان میں چر لیا کرو۔۔۔۔
صحابہ کرام نے عرض کیا۔۔۔
کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! مگر جنت کے باغوں سے کیا مراد ہے؟
فرمایا۔۔۔۔۔
ذکر اللہ کی مجالس۔"
** فرشتے اہل ذکر کی تلاش میں **
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے۔۔۔۔
" بیشک اللہ کے فرشتے چل پھر کر اہل ذکر کو تلاش کرتے رہتے ہیں، جب وہ کسی گروہ کو اللہ کے ذکر میں مشغول پاتے ہیں تو ایک دوسرے کو ان مطلوب ذاکرین کی طرف بلاتے ہیں،
پس وہ اہل ذکر کو آسمان دنیا تک اپنے پروں سے ڈھانپ لیتے ہیں۔"
آج شب قدر کی برکت، عظمت و رفعت و برکات والی رات ہے۔ بندوں پر اللہ کا بہت ہی عظیم تحفہ ہے یہ رات۔ آئیے اس رات میں اپنے خالق حقیقی سے رازونیاز کر لیں۔ وہ شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے۔ ایک ماں کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ اپنے بندوں سے محبت فرماتا ہے۔
آئیے اس کی عظیم بارگاہ میں جبین نیاز جھکا دیں۔ وہ رحیم ہے کریم ہے، اپنی شان ستاریت کا پردہ ہمارے گناہوں پر ڈال دے گا۔
آئیے اس عہد کو دہرائیں جو اس ارواحِ آدم سے لیا تھا۔
وہ عہد کیا تھا؟؟؟؟
وہ عہد تھا۔۔۔
تم میرے ساتھ اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کرنا،
تو میں تمہارے ساتھ کیا ہوا وعدہ پورا کروں گا
اللہ نے ارواحِ آدم سے کیا عہد لیا تھا؟؟
اللہ تبارک و تعالیٰ نے عہد لیا تھا۔۔۔
کہ جب میری طرف سے کوئی ہدایت تمہاری طرف آئے تو اس کی پیروی کرنا، میرے پیغمبروں کا ساتھ دینا۔ اور اللہ کے پیغام کو اس کے احکامات کو آگے پہنچاتے رہنا۔ اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہنا ۔
اولاد آدم نے اللہ کے ساتھ اس عہد کے نبھانے کا وعدہ کیا۔
اللہ نے جواب میں ارشاد فرمایا،
پھر میں اپنا عہد پورا کروں گا۔
اور
اللہ کا وعدہ بندوں کے ساتھ یہ تھا،
ہمیشہ رہنے والی جنت تمہارا انتظار کرے گی۔
دنیا سے اس حال میں رخصت ہو گے کہ اللہ فرمائے گا،
تم اللہ سے راضی ہوئے، اور اللہ تم سے راضی ہوا۔ اب مطمئن ہو کر جنت میں آ۔ اور یہاں آرام کر۔
یہ اللہ کا عہد ہے جو وہ اپنے بندوں کے ساتھ پورا کرے گا۔
اے باری تعالیٰ آج کی مبارک ساعتوں میں ہماری دعاؤں کو شرفِ قبولیت عطا فرما۔
اے مولا! میری، میرے والدین کی، جو ایمان والے میرے گھر میں داخل ہوں ان کی اور تمام امت مسلمہ کی اور خصوصاً امت محمدیہ کی بخشش و مغفرت فرما دے۔
یا اللہ! تو ہم سے راضی ہو جا۔ ہمیں جہنم سے خلاصی عطا فرما۔
یا اللہ ہمیں تیرا قرب نصیب ہو۔
یا اللہ ! ہمیں اپنا عہد پورا کرنے کی توفیق عطا فرما دے۔
اے پاک پروردگار! ہمیں ان لوگوں میں لکھ دے جن پر تیرا انعام ہوا، جو تیرے محبوب بندے ہیں۔
اے اللہ! قیامت کے دن ہمارے گناہوں پر، ہمارے عیبوں پر اپنی ستاریت کا پردہ ڈال دینا۔
یا اللہ! مسلمان جہاں کہیں پریشان حال ہیں ان کی پریشانیوں کو دور کر دے۔
یا اللہ! میرے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کرنا۔
اے رب کریم! مدینے والے آقا کے صدقے میں ہماری جھولیاں مرادوں سے بھردے۔
ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم°
سبحان ربک رب العزت عم یصفون° وسلام علی المرسلین° والحمد للّٰہ رب العالمین°