*********************************************
الفاظ کی دنیا میں۔۔۔ اپنی جگہ اہمیت مسلم ہے۔۔۔ الفاظ دلوں کی دنیا میں ہلچل پیدا کرتے ہیں۔۔۔ بے حس لوگوں کی۔۔۔ بے حسی جگاتے ہیں۔۔۔ قرآن پاک کے لفظوں کا ہی تو اثر تھا۔۔۔ جنہوں نے۔۔۔ عرب کے سنگدل۔۔۔ ظالم جابر لوگوں کی دنیا بدل ڈالی۔۔۔ جنہوں نے تہذیب و تمدن کی بنیاد ڈالی۔۔۔ لفظوں نے جادو گری تھی۔۔۔ کہ عصمتوں کو پامال کرنے والے۔۔۔ دوسروں کی عصمتوں کے بھی محافظ بن گئے۔۔۔ جہالت کا خاتمہ ہوا اور علم کی روشنی کا نور پھیلا۔۔۔
دنیا میں اصل قوت۔۔۔ اور طاقت ہی الفاظ کی ہے۔۔۔اس کائنات کی ابتداء ایک لفظ سے ہوئی۔۔۔
لفظوں میں اثر ہوتا ہے۔۔۔ سحر ہوتا ہے۔۔۔ جو ہر کسی پر اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔۔۔
الفاظ امید کے چراغ روشن کرتے ہیں۔۔۔ کسی کے کہے ہوئے لفظ۔۔۔ موتی بن کے بکھرتے ہیں اور۔۔۔ کتنوں کی دنیا سنوار دیتے ہیں۔۔۔لفظوں کی جادو گری۔۔۔ ہنساتی بھی ہے۔۔۔ رلاتی ہے۔۔۔ امید اور آس بھی پیدا کرتی ہے۔۔۔ دلوں کو ڈھارس بندھاتی ہے۔۔ دنیا میں سارا کھیل لفظوں کا ہے۔۔۔ کوئی بھی بات ہو۔۔۔ کسی زبان میں ہو۔۔۔ لفظوں کے بغیر کہاں ہو سکتی ہے۔۔۔ اپنی کارکردگی بیان کرنی ہو۔۔۔ محبت کا اظہار کرنا ہو۔۔۔ اپنے خیالات دوسروں تک پہنچانے ہوں۔۔۔کسی پر الزام لگانے ہو۔۔۔ اپنا دفاع کرنا۔۔۔ تقریر کرنی ہو۔۔۔ تحریر لکھنی ہو۔۔۔ انسان الفاظ کا ہی سہارا لیتا ہے۔۔۔ لفظوں کی اپنی خوشبو ہوتی ہے۔۔۔ اپنا مزہ اپنی چاشنی ہوتی ہے۔۔۔ اپنی کڑواہٹ ہوتی ہے۔۔۔
الفاظ کی خوبصورتی ہو یا پھر بد صورتی۔۔۔ ہمیشہ اپنا اثر دکھاتے ہیں۔۔۔ کسی کے کہے ہوئے الفاظ۔۔۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی۔۔۔ اپنا اثر زائل نہیں کرتے۔۔۔ اس لئے لفظوں کا چناؤ۔۔۔ سوچ سمجھ کر احتیاط سے کریں۔۔۔ اور لفظوں کا حق ادا کریں۔۔۔
یہ الفاظ ہی ہوتے ہیں جن سے۔۔۔بے یقینی کے بیابانوں میں۔۔۔بہتری کی باد صبا چلتی ہے۔۔۔بے بس مرتے ہوئے بیل بوٹوں میں۔۔۔زندگی کی امید اگتی ہے۔۔
محبت کے سارے دروازے۔۔لفظوں کی صحیح استعمال سے ہی کھلتے ہیں۔۔۔
ہم الفاظ کی دنیا میں رہتے ہیں۔۔۔ الفاظ کے حصار میں بڑے ہوتے ہیں۔۔۔ الفاظ ہی ہمارا کردار بناتے ہیں۔۔۔ یہی الفاظ کانوں کے راستے دل پر اثرانداز ہوتے ہیں۔۔۔اور خدا کا نظام دیکھیں اچھے الفاظ پر کچھ خرچ نہیں ہوتا ۔۔۔ لیکن اچھے الفاظ سے بہت کچھ حاصل ہوتا ہے ۔۔۔ کیونکہ یہی انسان کو پسندیدہ اور ناپسندیدہ بناتے ہیں۔۔۔ یہی ایک دوسرے کے انتہائی قریب ۔۔۔اور دور کرنے کا بھی سبب ہوتے ہیں۔۔۔
الفاظ خدا کے ہوں۔۔۔ تو قرآن بنتا ہے۔۔۔ نبی کے الفاظ حدیث بنتے ہیں۔۔۔بزرگانِ دین کے الفاظ ملفوظات بنتے ہیں۔۔۔داناؤں کے الفاظ اقوال۔۔۔ بنتے ہیں۔۔۔
الفاظ ادا کرنے والی ہستی۔۔۔ جتنی مقدس اور عظیم ہوگی۔۔۔ الفاظ بھی اتنے ہی مقدس اور پاکیزہ ہوں گے۔۔۔ اور اتنی ہی ان میں تاثیر وکشش ہوگی۔۔۔
لفظ کے اندر یہ طاقت ہے کہ وہ ۔۔۔ بولتا ہے اور اپنی پوری کہانی بیان کرتا ہے۔۔۔ لفظ کی طاقت کا اس سے بڑھ کر کیا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔۔۔ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے۔۔۔ اپنی پوری کائنات کو اپنے ایک ہی لفظ۔۔۔ ﴿کُنْ﴾ سے بنایا۔۔۔
آپ کے الفاظ۔۔۔ آپ کے مزاج۔۔۔ شخصیت اور
خاندان کا پتہ دیتے ہیں۔۔۔ جو الفاظ دل سے نکلتے ہیں۔۔۔ وہی الفاظ دلوں پر اثر کرتے ہیں۔۔۔
پروردگار کا فرمان ہے۔۔۔
غفلت بھرے دل کی دعا۔۔۔ قبول نہیں کی جاتی۔۔۔
جب تک آواز دل سے نہ نکلے۔۔۔ روح کی گہرائیوں سے الفاظ ادا نہ ہوں۔۔۔ تب تک وہ سوز و گداز سے۔۔۔خالی رہتے تھے۔۔۔ الفاظ دلوں کی دنیا کو۔۔۔ تہس نہس کرنے کی۔۔۔ دوسروں کی دنیا بگاڑنے۔۔۔ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔۔۔
فاروق اعظم کے دل کی دنیا۔۔۔ قرآن کے لفظوں نے بدلی تھی۔۔۔ بہن کا پرسوز پاکیزہ لہجہ۔۔۔ قرآن کریم کے دل نشیں الفاظ۔۔۔ عمر کو کفر کے اندھیروں سے نکال کر۔۔۔ ایمان کی روشنی میں لے آئے۔۔۔
الفاظ امر ہیں۔۔۔یہ حساس ہوتے ہیں۔۔۔ ان کونازک آبگینے کی طرح نہ برتا جائے تو۔۔۔ یہ روٹھ جاتے ہیں۔۔۔ اور جس سے الفاظ روٹھ جائیں اس کی ناکامی باعث عبرت ہوتی ہے۔۔۔ جس شخص میں لفظوں کو برتنے جیسی خوبی نہ ہو۔۔۔ اسے اپنی دیگر خوبیاں دکھانے کا موقع بھی نہیں ملتا۔۔۔
اظہار کا ہر عمل لفظ سے وابستہ ہے۔۔۔ الفاظ ساتھ دیں گے تو۔۔۔ انسان بولے گا۔۔۔ الفاظ ساتھ دیں گے تو تحریروجود میں آئے گی۔۔۔ آواز ہو یا عبارت ۔ ۔ سب الفاظ ہیں۔۔۔ الفاظ اگر صحیح طور برتے جائیں تو یہ مخاطب کو۔۔۔ اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔۔۔
اچھے الفاظ کی اچھی اور برے الفاظ کی بری تاثیریں ہوتی ہیں۔۔۔ جیسے’’ قبول‘‘ بھی ایک لفظ ہے اور ’’طلاق‘‘ بھی ایک لفظ ہے۔۔۔ ایک لفظ کے بولنے سے آدمی جڑ جاتا ہے ۔۔۔ اور ایک لفظ کے بولنے سے۔۔۔ آدمی کٹ جاتا ہے۔۔۔
منفی الفاظ کا کثرت سے ۔۔۔ استعمال کرنے والے اکثر مسائل سے ہی۔۔۔ دوچار رہتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کے بیماریاں ان کو گھیر لیتی ہیں۔۔۔ مصیبتیں ان کے درکو اپنا ٹھکانا بنا لیتی ہیں۔۔۔
گمان، ارادے، عزم اور ان جیسے دیگر رویے۔۔۔ ہمارے اندر کے الفاظ ہوتے ہیں۔۔۔ ان لفظوں کے ادا کرنے والے بھی ہم ہوتے ہیں۔۔۔ اور ان کے مخاطب بھی ہم خود ہوتےہیں۔۔۔ ہم جیسے الفاظ خود سے بولیں گے۔۔۔ ہماری دنیا بھی ویسے ہی ہوگی۔۔۔ الفاظ نہ صرف ہمارے ذہنوں پر اثرانداز ہوتےہیں۔۔۔ بلکہ ہماری جسمانی کیفیات پر بھی۔۔۔ ان کا گہرا اثرہوتا ہے۔۔۔
الفاظ امر ہوتے ہیں۔۔۔ الفاظ کی ادائیگی کے بغیر زندگی ہی ادھوری ہے۔۔۔ ہماراسب سے زیادہ واسطہ ہی لفظوں سے پڑتا ہے۔۔۔ اگر ہم لفظوں کا درست استعمال نہ کریں تو۔۔۔ لفظ تازیانے بن کرہمارے اوپر ہی برستے ہیں۔۔۔یہ ہمارا گھیراؤکرلیتے ہیں۔۔۔ ان سے دشمنی بدترین غلطی ہے۔۔۔ جو الفاظ کا حق ادا کرتے ہیں۔۔۔ وہ عظمت کے بلند ترین مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔۔۔الفاظ
خدا اور انسان کے درمیان۔۔۔ ایک پل کا کردار ادا کرتے ہیں۔۔۔یہ دنیا کی سب سے مقدس ترین شے ہیں۔۔۔ لفظ سچ بن کر بھی اداہوتے ہیں۔۔۔ اور جھوٹ بن کربھی ۔ ۔ ۔ ۔ یہ محبت کا اظہار بھی بنتے ہیں اور نفرت کا بھی ۔ ۔ ۔ لفظ میٹھے بھی ہوتے ہیں، کڑوے بھی۔۔۔ یہ زہریلے بھی ہوتے ہیں اور تلخ بھی ۔ ۔ ۔ ان کے اندر ہر ذائقہ ہے۔۔۔یہ ہر رنگ میں دستیاب ہیں۔۔۔
یہ دنیا الفاظ کی دنیا ہے۔۔۔ حسن بھی لفظوں کا محتاج ہے۔۔۔ الفاظ نہ ہوں تو یہ دنیا بے رنگ ہے۔۔۔ الفاظ نہ ہوں تو کائنات گونگی ہو جائے۔۔۔ یہ الفاظ ہی ہیں جنہوں نے ۔۔۔ ماضی کو حال سے جوڑ رکھا ہے۔۔۔جو مستقبل کی تعمیر کرتے ہیں۔۔۔ ارادہ بن کر دلوں میں پلنے والے عزائم ۔۔۔کا پہلا قدم اظہار ہوتا ہے ۔۔۔اور اظہار لفظوں کی زنبیل میں سے ہی نکلا ہوا۔۔۔
الفاظ خاندان رکھتے ہیں۔۔۔ قصیدے کے الفاظ اور ہوتے ہیں ۔۔۔ مرثیے کے الفاظ کچھ الگ ہیں ۔۔۔ تنقید کے ۔۔۔ تعریف کے کچھ اور ہیں۔۔۔ کسی بھی آدمی کے ذخیرہ الفاظ سے یہ معلوم کرنا آسان ہے۔۔۔ کہ وہ آدمی کون سے علاقے کا رہنے والا ہے۔۔۔ اور کون سے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔۔۔ الفاظ کی حرمت بولنے والے کے انداز اور لہجے کے دم سے ہے۔۔۔
آج جب کہ ہماری زندگیوں سے سکون رخصت ہو گیا ہے۔۔۔ بے چینی اور افراتفری کا عالم ہے۔۔۔
تلخ الفاظ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں ۔۔۔ ہمیں میٹھے بول زندہ کرنے چاہیے ۔۔۔ زندہ رہو اور زندہ رہنے دو کے اصول کو اپنانا چاہیے۔۔۔ لفظوں کی تلخیوں کو ختم کرنا ہوگا۔۔۔ الفاظ کا احترام ہی انسان کا احترام ہے ۔۔۔ لفظوں کا صحیح کر کے لفظوں کا حق ادا کرنا ہوگا۔۔۔
الفاظ کے صحیح استعمال کی توفیق نعمت ہے۔۔۔ الفاظ سے ماحول کو خوش گوار بنانے کا کام لیا جائے۔۔۔ دنیا کے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں۔۔۔ خالی الفاظ نگلنے اور الفاظ اگلنے سے۔۔۔ کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔۔۔الفاظ سے ماحول کو روشن کیا جائے۔۔۔ الفاظ سے دلوں کو خوش کیا جائے۔۔۔ الفاظ حقیقت ہیں ۔۔۔ الفاظ امانت ہیں ۔۔۔ الفاظ دولت ہیں ۔۔۔ الفاظ طاقت ہیں ۔۔۔ انہیں ضائع نہ کیا جائے ۔۔۔ انہیں رائیگاں نہ کیا جائے۔۔۔
ا
محبت ترے انجام پہ رونا آیا
جانے کیوں آج ترے نام پہ رونا آیا
یوں تو ہر شام امیدوں میں گزر جاتی ہے
آج کچھ بات ہے جو شام پہ رونا آیا
کبھی تقدیر کا ماتم کبھی دنیا کا گلہ
منزل عشق میں ہر گام پہ رونا آیا
مجھ پہ ہی ختم ہوا سلسلۂ نوحہ گری
اس قدر گردش ایام پہ رونا آیا
جب ہوا ذکر زمانے میں محبت کا شکیلؔ
مجھ کو اپنے دل ناکام پہ رونا آیا
++++++++++++++++++++++++++++
سحر کے ساتھ چلے روشنی کے ساتھ چلے
تمام عمر کسی اجنبی کے ساتھ چلے
ہمیں کو مڑ کے نہ دیکھا ہمیں سے کچھ نہ کہا
اس احتیاط سے ہم زندگی کے ساتھ چلے
تمہارے شہر میں انجان سا مسافر تھا
تمہارے شہر میں جس آدمی کے ساتھ چلے
غموں نے پیار سے جس وقت ہاتھ پھیلائے
تو سب کو چھوڑ کے ہم کس خوشی کے ساتھ چلے
±++++++++++++++++++++++++++++
***********************************************
مقرر کردہ ہدف کو۔۔۔ پوری محنت اور ایمانداری سے ۔۔۔حاصل کر لیناکامیابی کہلاتا ہے۔۔۔
کامیابی ایک ایسا نشہ ہے۔۔۔ جو ایک بار اس کی لذّت پالے۔۔۔ تو پھر مزید سے مزید تر کی تلاش میں۔۔۔ اس کے قدم نہیں رکتے۔۔۔ کامیابی ایک مسلسل جاری رہنے والے۔۔۔ سفر کا نام ہے۔۔۔ اور اس سفر میں۔۔۔ انسان کو بہت کٹھن مراحل سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔۔۔ جتنا بڑا مقصد۔۔۔ اتنی ہی زیادہ کوشش محنت اور جدو جہد درکار ہوتی ہے۔۔۔ اور پھر نتیجہ بھی اتنا ہی خوبصورت ہوتا ہے۔۔۔
کامیابی ایک پھل دار درخت کی۔۔۔ مانند ہوتی ہے جسے پانے کے لئیے مثبت سوچ اور۔۔۔ خوبصورت مقصدکا بیج محنت کے ۔۔۔ذرخیز جزیرے پر بونا پڑتا ہے۔۔۔خلوصِ دل سے صبر کاپانی۔۔۔ متواتر دینا پڑتا ہے۔۔۔
صرف آسائشوں کو پالینا ہی کامیابی نہیں ہے۔۔۔ اصل چیز سکون ہے۔۔۔ مکمل سکون۔۔۔ جو آپ کی ذات میں نظر آئے۔۔۔ بے شمار آسائشیں۔۔۔ عیش و عشرت میسر ہو۔۔۔ لیکن آپ کے چہرے پر مسکراہٹ نہ ہو۔۔۔ زندگی میں سکون نہ ہو تو یہ۔۔۔ کامیابی ہر گز نہیں ہے۔۔۔
لائن میں کھڑے ہو کر۔۔۔ اپنی باری کا انتظار کرنے والوں کو۔۔۔ کامیابی کبھی نہیں ملتی۔۔۔ یہ کامیابی کا راستہ نہیں ہے۔۔۔ کامیابی انہی لوگوں کے حصے میں آتی ہے۔۔۔ جو کوشش کرتے ہیں۔۔۔ محنت کرتے ہیں۔۔۔ حوصلے اور لگن سے کام کرتے ہیں۔۔۔
کامیابی کے پیچھے سب سے زیادہ اہم کردار۔۔۔ انسان کی خوش اخلاقی کا ہے۔۔۔مشکل سے مشکل حالات میں بھی ۔۔۔ا اپنی خوش اخلاقی کو کبھی نہیں چھوڑنا چاہئے۔۔۔
خوش اخلاق اوراچھا انسان۔۔۔ بہترین مواقع زیادہ حاصل کرتا ہے۔۔۔ اگر آپ کو کاروبار شروع کرنا ہے اور ۔۔۔اس میں کامیاب بھی ہونا ہے تو۔۔۔ آپ کو بہت زیادہ خوش اخلاق ہونا پڑے گا۔۔۔ ویسے بھی جو مذہب اسلام سے تعلق رکھتے ہیں۔۔۔ انہیں پیغمبر اسلام نے۔۔۔ چودہ سو سال پہلے یہ نسخہ بتا دیا تھا۔۔۔
قرآن کریم کی تعلیم ہے کہ اپنے اخلاق کو بلند رکھو۔۔۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا تھا کہ۔۔۔
کامیابی حاصل کرنے کے لیے ۔۔۔مستقل مزاج اور محنتی ۔۔۔ ہونا نہایت ہی ضروری ہے۔۔۔ قدرت اور زمینی ذرائع بھی اس انسان کا۔۔۔ ساتھ دیتے ہیں جو اپنا کام محنت لگن۔۔۔ اور جذبے سے کرتے ہیں۔۔۔ بے شمار لوگ اس لیے کامیاب نہیں ہوتے۔۔۔ کیونکہ ان میں استقامت نہیں ہوتی۔۔۔ مستقل مزاجی نہیں ہوتی۔۔۔ جن سے استقامت دکھائی۔۔۔ صبر کا دامن تھام لیا۔۔۔ اسے کامیابی ضرور ملتی ہے۔۔۔ مستقل مزاج انسان دراصل اس یقین کا اظہار بھی کر رہا ہوتا ہے کہ۔۔۔ قدرت اس کی محنت کو ضائع نہیں کرسکتی۔۔۔ اور یہ سچ ہے کہ۔۔۔ اللہ کسی کی بھی محنت کو ضائع نہیں کرتا۔۔۔ اب یہ محنت اب چاہے۔۔۔ کسی بھی راستے میں کی گئی ہو۔۔۔ محنت اور جدو جہد کا صلہ۔۔۔ ملتا ضرور ہے۔۔۔
اگر آپ کسی بھی میدان میں۔۔۔ کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں تو۔۔۔ اپنا کام ایمانداری سے کیجیے۔۔۔ بد نیتی۔۔۔ دھوکہ آپ کو کبھی کامیاب ہونے نہیں دے گا۔۔۔ نیت کو خالص کر لیجئے۔۔۔ منزل آسان ہو جائے گی۔۔۔ آپ کے اندر ایسی ایمانداری ہونی چاہئے کہ۔۔۔ آپ کے مخالفین۔۔۔ آپ کے دشمن بھی۔۔۔ آپ کی ایمانداری کی گواہی دیں۔۔۔
اس دنیا میں ہر شخص کے لئے۔۔۔ سچی کامیابی کا دروازہ۔۔۔ ہر وقت کھلا ہوا ہے۔۔۔ شرط یہ ہے کہ وہ بر وقت حاصل شدہ۔۔۔ "امکان" یا "امکانات" کو۔۔۔ شعوری طور پر جانے۔۔۔ اور اس کو مادی اور معنوی دونوں پہلوؤں سے۔۔۔ ایسے واقعے میں تبدیل کرنے کے۔۔۔ سنجیدہ عمل میں مسلسل سرگرم رہے۔۔۔ جن میں ایک طرف اپنی اور دوسرں کی منفعت
۔۔۔ اور دوسری طرف خالق کی عبادت۔۔۔ہو
کامیابی کا یہ فارمولا ایسا ہے۔۔۔ جسے ہر با شعور مرد اور عورت۔۔۔ چاہے وہ امیر ہو یا غریب۔۔۔ تندرست ہو یا بیمار۔۔۔ نوجوان ہو یا بوڑھا۔۔۔ تعلیم یافتہ ہو یا ناخواندہ۔۔۔ اس کے حالات سازگار ہوں یا ناسازگار۔۔۔ ہر وقت اور ہر جگہ استعمال کر سکتا ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے سے۔۔۔ کامیابی ملتی ہے۔۔۔ شکر
نعمتوں کو بڑھاتا ہے۔۔۔ کامیابی کے راستے کھولتا ہے۔۔۔ اللہ کی ذات پر بھروسہ۔۔۔ انسان کو اپنی منزل کے قریب کر دیتا ہے۔۔۔
اپنے نیک مقصد کے لئے دل سے ۔۔۔ محنت کرنا جو ریاکاری۔۔۔ خود غرصی اور لالچ سے پاک ہو۔۔۔جو لوگ ساری عمر نیک نیتی سے محنت کرتے ہیں وہ ایک اچھی زندگی گزار تے ہیں۔۔۔۔ وہ نہ صرف معاشی طور پر مستحکم ہوتے ہیں۔۔۔ بلکہ نفسیاتی طور پر بھی مضبوط ہوتےہیں۔۔۔انہیں نہ تو خوش ہونے کے لئے کسی ۔۔۔ بڑے تہوار کی ضرورت پڑتی ہے۔۔۔ اور نہ ہی بڑے سے بڑا صدمہ ان سے ہمیشہ کے لئے ۔۔۔اطمینان چھین سکتا ہے۔۔۔
آپکے عمل سے۔۔۔ آپکا ضمیر۔۔۔ دل اور نفس مطمئن ہیں تو آپ کامیاب ہیں ۔۔۔ورنہ اہداف تو جرائم پیشہ افراد بھی۔۔۔ حاصل کر لیتے ہیں۔۔۔
دین و دنیا کے دائرے میں رہتے ہوئے۔۔۔ خلوص دل سے کسی اچھے مقصد کے لئے ۔۔۔تگ و دو کرناآپکو کامیاب بنا دے گا۔۔۔
کامیاب لوگ مسائل سے نہیں گھبراتے ۔۔۔اور نہ ہی عدم تحفظ کا شکار ہوتے ہیں۔۔۔
وہ اپنی قدر پہچانتے ہیں اور ۔۔۔اپنی خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں۔۔۔
اپنے کام کو وقت پر کرنے کے عادی ہوتے ہیں۔۔۔ وقت کو ضائع نہیں کرتے۔۔۔
کامیاب لوگ اعلی درجے کے ذمہ دار۔۔۔ افراد ہوتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں ۔۔۔کہ آزادانہ طور پر کام کرنے کے لئے۔۔۔ ذمہ داری قبول کرنا ضروری ہوا کرتا ہے۔۔۔
ان میں آگے بڑھنے کی لگن اور حوصلہ ہوتا ہے۔۔۔
وہ خطرات سے کھیلنا جانتے ہیں۔۔۔
ان میں تجسس اور نئی چیزوں کو۔۔۔ دریافت کرنے کا مادہ پایا جاتا ہے۔۔۔
انہیں مطالعہ کا شوق ہوتا ہے۔۔۔ مطالعہ ذہن کو بیدار کرتا ہے۔۔۔ اور سوچ کی نئی راہیں کھولتا ہے۔۔۔ سوچ کے انداز بدلتا ہے۔۔۔
وہ غور و فکر سے کام لیتے ہیں۔۔۔
تدبر کرتے ہیں۔۔۔ تحقیق وجستجو کا مادہ ان میں۔۔۔ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوتا ہے۔۔۔
وہ مسائل سے آنکھیں نہیں چراتے۔۔۔ بلکہ ان کے حل کا طریقہ نکالتے ہیں۔۔۔
· وہ جو وعدہ کرتے ہیں، اسے پورا کرتے ہیں۔
ان میں انسانیت کی خدمت کا۔۔۔ جذبہ موجود ہوتا ہے۔۔۔
کامیاب لوگ ایماندار ہوتے ہیں۔۔۔ فرض شناس ہوتے ہیں۔۔۔
دوسروں کی حق تلفی نہیں کرتے۔۔۔ نہ ہی دوسروں کے لئے۔۔۔ برا سوچتے ہیں۔۔۔
وہ مواقع کا بھرپور استعمال کرنا جانتے ہیں۔
وہ اپنی ذمہ داری پر خطرات مول لینے پر تیار رہتے ہیں۔
کامیاب خوشگوار ازدواجی زندگی۔۔۔ کا آغاز۔۔۔ نکاح کے مقدس لفظوں کے ساتھ۔۔۔ ہوتا ہے۔۔۔ نکاح اسلام میں۔۔۔ ایک پاکیزہ زندگی کا۔۔۔ آغاز کرتا ہے۔۔۔ یہ وہ واحد تعلق اور۔۔۔ رشتہ ہے۔۔۔ جس کا آغاز۔۔۔ آسمان کی بلندیوں پر ہوا۔۔۔ یہ وہ واحد رشتہ ہے جس میں۔۔۔ محبت کی چاشنی سب سے زیادہ۔۔۔ ہوتی ہے۔۔۔
قرآن کریم کا فرمان ہے۔۔۔
ترجمہ۔۔۔
" ہم نے تمہارے درمیان۔۔۔ مودت و رحمت رکھ دی ہے۔۔۔ تاکہ تم ایک دوسرے سے۔۔۔ سکون حاصل کر سکو۔۔۔"
میاں بیوی ایک دوسرے سے۔۔۔ سکون حاصل کرنے کا۔۔۔ ذریعہ ہیں۔۔۔ اور یہ سکون اسی وقت۔۔۔ حاصل ہو سکتا ہے جب۔۔۔ دونوں اپنے اپنے دائرے میں رہ کر۔۔۔ اپنے حقوق و فرائض۔۔۔ خوش اسلوبی کے ساتھ انجام دیں۔۔۔
میاں بیوی کو اپنے رشتے میں۔۔۔
اخلاق سے پیش آنا چاہیے۔۔۔ اور باہمی احترام رکھنا چاہیے۔۔۔
فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
"نیک بیوی وہ ہے۔۔۔ کہ جب شوہر دیکھے تو۔۔۔ اس کا دل خوش ہو جائے۔۔۔"
مردوں کے لیے ارشاد فرما یا گیا۔۔۔
" تم میں سب سے بہتر وہ ہے۔۔۔ جو اپنے گھر والوں کے لیے۔۔۔ حسن سلوک کا معاملہ رکھتا ہو۔۔۔ اور میں تم سب سے بہتر ہوں۔۔۔"
اس اہم رشتے میں اگر کوئی۔۔۔ اپنے ساتھی کا شکریہ ہی ادا کر دے۔۔۔ تو وہ اگلے کو خوش کر سکتا ہے۔۔۔ اس سے نہ صرف تعلق مستحکم ہوگا۔۔۔ بلکہ انسان خوش بھی رہتا ہے۔۔۔
بیوی کو چاہئے کہ اگر مرد۔۔۔ کسی وقت غلطی کر بیٹھے تو ۔۔۔ تم چشم پوشی سے کام لے۔۔۔
اپنے شوہر کی۔۔۔ چھوٹی موٹی کوتاہیوں کو نظر انداز کر دیے۔۔۔ شوہر کو ڈھول کی طرح نہ بجائے۔۔۔ شوہر اگر غصے میں ہے تو شوہر کو اس وقت جواب نہ دیے۔۔۔
ایک دوسرے پر بھروسہ۔۔۔ اور اعتماد اس رشتے کو۔۔۔ مضبوطی فراہم کرتا ہے۔۔۔
ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں۔۔۔ ساتھ دینے سے۔۔۔ رشتہ پائیدار ہوتا ہے۔۔۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس۔۔۔ جیسے زندگی کے دوسرے شعبوں میں۔۔۔ انسانیت کے لئے راہ نما ہے۔۔۔ اسی طرح آپ کی ازدواجی زندگی بھی۔۔۔ انسانیت کے لیے۔۔۔ راہ کامل ہے۔۔۔ اپنی ازدواجی زندگی میں آپ۔۔۔ ایک محبت کرنے والے شفیق و کریم ۔۔۔
قدردان ۔۔۔ مزاج شناس اور بردباد شوہر تھے۔۔۔ آپ پوری انسانیت کے لئے نمونہ تھے۔۔۔ اور زندگی کے ہرشعبہ میں آپ کا عمل ۔۔۔۔تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ ہے۔۔۔ اس لئے آپ کی خلوت اور جلوت کو۔۔۔ اللہ ربّ العزّت نے کھول کر رکھا۔۔۔ تاکہ امت کو ہر معاملے میں۔۔۔ راہ نمائی مل سکے۔۔۔ کل قیامت کے دن۔۔۔ کوئی عزر۔۔۔ باقی نہ رہے۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔۔۔ معمول مبارک تھا کہ آپ ۔۔۔روزانہ دو دفعہ تمام ازواج مطہرات کے یہاں۔۔۔ تشریف لے جاتے ۔۔۔ ان کی خیریت دریافت کرتے۔۔۔ اور کچھ وقت ان کے ساتھ گزارتے ۔۔۔ عصر کے بعد آپ کی تشریف آوری ہوتی۔۔۔ حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ۔۔۔ آپ تمام ازواج مطہرات کے پاس تشریف لے جاتے۔۔۔اظہار محبت کے لئے ان پر ہاتھ رکھتے۔۔۔ اور ایسا عمل کرتے جس سے تعلق کا اظہار ہو ۔۔۔ یہاں تک کہ آخری گھر تک پہنچتے ۔۔۔اور جن کی باری ہوتی ۔۔۔ان کے یہاں قیام فرماتے ۔۔۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ۔۔۔ فجر کے بعد مسجد میں تشریف فرما ہوتے۔۔۔ اور صحابہ استفادہ کے لئے آپ اکے گِرد بیٹھ جاتے۔۔۔ پھر جب سورج طلوع ہوجاتا تو۔۔۔ ایک ایک بیوی کے پاس تشریف لے جاتے ۔۔۔ ان کو سلام کرتے ۔۔۔ انھیں دُعا دیتے اور ۔۔۔جس کی باری ہوتی ۔۔۔ ان کے پاس مقیم ہوجاتے۔۔۔
سفر میں ازواج مطہرات کو۔۔۔ ساتھ رکھتے۔۔۔
سفر میں ازواج مطہرات کو ساتھ رکھنے کا۔۔۔ ایک مقصد یہ بھی ہوتا تھا کہ۔۔۔ آپ کو سہولت ہو ۔۔۔صلاحیت و قوت کے لحاظ سے بعض عورتیں ۔۔۔ سفر کی رفاقت کے لئے زیادہ موزوں ہوتی ہیں ۔۔۔ اس لئے آپ چاہتے تو اپنی طرف سے کسی۔۔۔ زوجہ مطہرہ کو نامزد فرمادیتے۔۔۔ لیکن آپ اپنی طرف سے نامزد کرنے کے بجائے۔۔۔ ہمیشہ قرعہ اندازی فرماتے۔۔۔ اور قرعہ اندازی میں جس کا نام نکل آئے ۔۔۔ ان ہی کو اپنے ساتھ لے جاتے ۔۔۔ تاکہ دوسری ازواج کو یہ احساس نہ ہو کہ۔۔۔ آپ کی ان کی طرف رغبت نہیں ہے ۔۔۔
آپ ازواج مطہرات کے ساتھ۔۔۔ شگفتہ گفتگو فرماتے۔۔۔ ان سے ہنسی مذاق کرتے۔۔۔ اور خوش مزاجی سے پیش آتے۔۔۔
آپ ہمیشہ بیویوں کے درمیان ۔۔۔ فرماتے تھے۔۔۔ جس دن جس کی باری ہوتی ۔۔۔اس کے یہاں قیام فرماتے۔۔۔ ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں دیتے تھے ۔۔۔
عدل و انصاف کے معاملے میں۔۔۔ احتیاط کا حال یہ تھا کہ۔۔۔ حضرت عائشہؓ کی ذہانت اور صلاحیت کی وجہ سے۔۔۔ آپ اکی ان کی طرف زیادہ رغبت تھی۔۔۔ آپ فرماتے تھے۔۔۔ اے اللہ یہ دل عائشہ کو زیادہ چاہتا ہے۔۔۔ تو اس پر میرا مواخذہ نہ کرنا۔۔۔
آپ ازواج مطہرات کی تربیت فرماتے۔۔۔ رمضان المبارک کے ت فرماتے۔۔۔ رمضان المبارک کے اخیر عشرے میں۔۔۔ ازواج مطہرات کو آخر شب میں بیدار کرتے تھے ۔۔۔تاکہ وہ عبادت میں شامل ہوں ۔۔۔ حضرت عائشہؓ کو شب قدر کی دُعا سکھائی ۔۔۔
’’ اللّٰہم إنک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘
ایک موقع پر حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ۔۔۔ گن کر خرچ نہ کرو ۔۔۔تاکہ تم کو بھی اللہ کی طرف سے حساب کتاب سے۔۔۔ گن کر نہ ملے ۔۔۔ یعنی خوب خرچ کرو ۔۔۔ تاکہ اللہ کی طرف سے خوب ملے ۔۔۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔
” تم لو گ عورتوں کے بار ے میں ۔۔۔اللہ سے ڈرو۔۔۔ کیوں کہ تم نے انہیں اللہ کی اما نت میں لیا ہے۔۔۔ اور ان کی شر م گاہوں کو اللہ کے کلمے ( نکا ح کے دو بول )۔۔۔ کے ذریعے حلال کر لیا ہے۔۔۔ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ ۔۔۔ وہ تمہا رے بستروں پر ان لو گوں کو نہ بٹھا ئیں۔۔۔ جن کو تم نا پسند کرتے ہو۔۔۔
اگر وہ ایسا کریں تو تم انہیں۔۔۔ ہلکی سی مار مارو ۔۔۔ اور ان کا حق تم پر یہ ہے کہ۔۔۔ تم ان کے کھا نے اور کپڑے کی۔۔۔ خبر گیری اچھے طریقے سے کر و۔۔۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔” اور تم عورتوں کے ساتھ بہتر زندگی گزارو۔۔۔“
اس اصول کی تشریح رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خورا ک ، پو شاک اور حسن ِ معاملہ کے ذریعے کی ہے۔۔۔
جو شخص ایک مسرت بخش زندگی۔۔۔ گزارنے کا طالب ہو تو۔۔۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مصنو عی او ر بنا وٹی۔۔۔ طور طریقوں سے کلی طور پر اجتنا ب کرتے ہوئے ۔۔۔ زندگی کی اصل حقیقت سمجھنے۔۔۔ اور پھر اس کے تقاضوں کے مطابق۔۔۔ اپنی زندگی ڈھالنے کی کو شش کرے ۔۔۔ وقتی و عارضی فوا ئد ۔۔۔اور دو روزہ عیش ۔۔۔ مو ج و مستی کے لیے اپنی۔۔۔ ابدی مسرتوں اور حیا ت جاودانی کو قربان نہ کرے ۔۔۔ورنہ وہ دینی و دنیا وی دونوں جہانوں کی سعا دتوں سے محروم رہے گا ۔۔۔
دنیا میں ایسی بہت سی قومیں پا ئی گئی ہیں۔۔۔ جن میں عورت کا درجہ نہایت حقیر مانا گیا ہے۔۔۔ اسے مر د کی ایک کنیز یا ۔۔۔ دا سی قرار دیتے ہوئے اس کے حقوق کو ۔۔۔ پوری طر ح پامال کیا گیا ہے۔۔۔ اس کے بر عکس چو دہ سو سال پہلے اسلام نے عورت کو ۔۔۔جو حقوق دیے اور مرد و عورت کے درمیان۔۔۔ صحیح حدود قائم کر تے ہوئے ۔۔۔ان دونوں پر جو فرائض عائد کیے ۔۔۔ اس نے زندگیوں میں سکون و اطمینان پیدا کیا۔۔۔ ایک مثالی معاشرے کی تعمیر کے لیے۔۔۔ عورت اور مرد دونوں کو اپنے اپنے فرائض وواجبات۔۔۔ خوشدلی اور ایمانداری کے ساتھ۔۔۔ ادا کرنے ضروری ہیں۔۔۔ و رنہ معا شرہ پنپ نہیں سکتا۔۔۔
+++++++++++++++++++++++++++++++++++
سقراط کے پاس ایک شخص آیا اور کہنے لگا۔۔۔
”بتائیں میرا مستقبل کیسا ہوگا؟“
سقراط نے ایک کاغذ منگوایا۔۔۔ اور کہا اس پر اپنے خیالات لکھو۔۔۔ اس نے جو جو سوچا تھا سب لکھ ڈالا۔۔۔ سقراط نے بتا دیا کہ۔۔۔ جیسے تمہارے خیالات ہیں۔۔۔ اس کے مطابق تمہارا مستقبل ایسا ہوگا۔۔۔
طرز فکر وعمل کا انجام۔۔۔ کامیابی اور منفی کا انجام۔۔۔ ناکامی ہے۔۔۔ خواہ اس کا تعلق دنیا سے ہو یا ۔۔۔آخرت سے ہو۔۔۔ دنیاوی زندگی میں مثبت طرز حیات۔۔۔ اعلیٰ اخلاقی کردار کو تخلیق کرتاہے۔۔۔ منزل تک رسائی آسان بناتا ہے۔۔۔
مال میں برکت لاتا ہے۔۔۔اولاد کو صالح بناتا ہے۔۔۔ شریک حیات کو اعتماد و سکون دیتاہے۔۔۔ ماں باپ کی خدمت کرواتاہے ۔۔۔اعلیٰ صحت و معیار زندگی فراہم کرتا ہے۔۔۔اور مادی فلاح و بہبود کا باعث بنتا ہے۔۔۔
منفی سوچ سے ۔۔۔منفی رویے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ جو آخر کارانسانی صحت کو۔۔۔ بری طرح متاثر کرتے ہیں۔۔۔ اور گھن کی طرح کھا جاتے ہیں۔۔۔انسان کی کامیابی کا زینہ۔۔۔ مثبت سوچ اور ذہنی رویہ ہوتا ہے۔۔۔ مثبت رویوں کو اپنانے۔۔۔ اورمنفی خیالات سے چھٹکارا حاصل کرنے کی۔۔۔ ہر ممکن کوشش کریں۔۔۔ منفی سوچ انسان کی شخصیت کو۔۔۔ مسخ کرکے رکھ دیتی ہے۔۔۔ اس کا سکون۔۔۔ برباد کر دیتی ہے۔۔۔
منفی انداز فکر سوائے۔۔۔ مایوسیوں کے آپ کو کچھ نہیں دیتا۔۔۔
اپنی سوچ کو ہمیشہ۔۔۔ مثبت اور تعمیری رکھیں۔۔۔ کیونکہ
سوچ سے جذبات اور جذبات سے۔۔۔ عمل سرزد ہوتا ہیں۔۔۔ اور عمل سے ہی کردار بنتا ہے۔۔۔
دنیا میں اچھی اور خوشگوار زندگی۔۔۔ گزارنے کے لئے اپنی سوچ۔۔۔ اور اپنے الفاظ کو بہتر بنانا ضروری ہے ۔۔۔ ہمارے بیشتر مسائل کی وجہ۔۔۔ ہماری منفی سوچ ہوتی ہے ۔۔۔ اگر آپ کے ذہن پر نقش روشن اور خوبصورت ہیں تو ۔۔۔ اس کا اثر آپ کی زندگی پر۔۔۔ بہت مثبت اور بہتر ہو گا۔۔۔
منفی سوچنے سے ۔۔۔منفی عمل اور کردار بنتا ہے۔۔۔ منفی سوچوں سے۔۔۔ رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔۔۔ تخریبی عمل رونما ہوتے ہیں ۔۔۔ اور سب سے اہم بات۔۔۔ انسان کا سکون برباد ہوتا ہے۔۔۔ اسی لئے قرآن حکیم میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے۔۔۔
"اللہ کی زمین میں۔۔۔ فساد برپا نہ کرو۔۔۔"
مثبت سوچنے سے مثبت عمل اور۔۔۔ کردار جنم لیتا ہے۔۔۔زندگی میں کامیابی اور خوشی اس وقت حاصل ہوتی ہے۔۔۔ جب آپ نہ صرف اپنے لئے۔۔۔ اچھا سوچتے ہیں بلکہ۔۔۔ دوسروں کے لیے بھی۔۔۔ مثبت سوچ رکھتے ہیں۔۔۔
فرمان رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔
"مسلمان اپنے بھائی کے لئے بھی۔۔۔ وہی پسند کرتا ہے جو۔۔۔ اپنے لیے کرتا ہے۔۔۔"
جب آپ اپنے لیے۔۔۔ خسارے کا سودا نہیں چاہتے تو۔۔۔ پھر دوسروں کے لیے کیوں؟؟...
زندگی سے خوب مزہ اس۔۔۔ وقت لے سکتے ہیں۔۔۔جب آپ مثبت سوچ کے حامل ہوں۔۔۔مثبت خیالات اس وقت پروان چڑھتے ہیں۔۔۔ جب آپ لوگوں کی مدد اور فلاح کے لیے کام کریں ۔۔۔اور ان کے غم اور خوشی میں حصہ لیں۔۔۔
انسانیت کی خدمت کو۔۔۔ ایسے ہی تو۔۔۔ عبادت کا درجہ نہیں دیا گیا۔۔۔ دوسروں کی رکاوٹیں دور کریں۔۔۔ اللہ آپ کے راستے کی رکاوٹیں دور فرما دے گا۔۔۔
حدیثِ مبارکہ ہے۔۔۔
" جب مسلمان اپنے بھائی کے۔۔۔ کاموں میں لگ جاتا ہے تو۔۔۔ اللہ اس کے کاموں میں لگ جاتا ہے۔۔۔"یقین۔۔۔ کامیابی کی کنجی ہے۔۔۔
اگر آپ کامیابی کی راہ کے مسافر ہیں۔۔۔ تو اپنی زندگی میں۔۔۔ یقین کی چابی۔۔۔ ضرور ساتھ رکھیں رکھیں ۔۔۔ اس چابی کے بغیر۔۔۔ کامیابی کا تالا نہیں کھل سکتا۔۔۔
اگر آپ کے پاس مثبت ۔۔۔اور مضبوط یقین۔۔۔ کی چابی ہے۔۔۔ تو آپکی کامیابی پکی ہے۔۔۔
منفی سوچ انسان کو ۔۔۔ ذہنی مریض بناتی ہے۔۔۔ مایوسی پیدا کرتی ہے۔۔۔حسد و جلن کے الاؤ جلاتی ہے۔۔۔ صحت برباد کرتی ہے۔۔۔ بے چینی پیدا کرتی ہے۔۔۔ رزق میں بے برکتی لاتی ہے۔۔۔ نفرتوں کے جنگل اگاتی ہے۔۔۔
بھائی کو بھائی سے۔۔۔ جدا کرتی ہے۔۔۔اور رشتوں میں تفریق کراتی ہے۔۔۔ دینی امور میں یہی منفی طرز حیات۔۔۔ انسان کو اپنے رب سے بدگمان کرتاہے۔۔۔ اللہ کی رحمت و بخشش سے۔۔۔ دور کرتا ہے۔۔۔ نا امیدی پیدا کرتا ہے۔۔۔ عبادت سے برگشتہ کرتا ہے ۔۔۔اور مایوسی کی بنا پر ۔۔۔ کفر کی جانب لے جاتا ہے۔۔۔
مثبت طرز عمل ۔۔۔ پیغمبروں کی سنت ۔۔۔جبکہ منفی طرز شیطان کا فعل ہے۔۔۔
منفی سوچ کے حامل انسان میں۔۔۔ بغض حسد کینہ غیبت
بہتان۔۔۔ عداوت اور مایوسی جیسی روحانی بیماریاں جنم لیتی ہیں۔۔۔جس کے نتیجے میں۔۔۔ اس کی صلاحیت۔۔۔ تخریب کاری میں صرف ہوتی ہے۔۔۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں۔۔۔ ماند پڑ جاتی ہیں۔۔۔ وہ کوئی صحیح۔۔۔ فیصلہ نہیں کر پاتا۔۔۔ اور اس کا دل۔۔۔ پریشانی اور اضطراب کا ٹھکانہ۔۔۔ اور مسکن ہوتا ہے۔۔۔ مسلسل منفی ماحول۔۔۔ اور منفی سوچنے سے انسان۔۔۔ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔۔۔
1... اللہ تعالیٰ سے متعلق ۔۔۔مثبت سوچ قائم رکھنا۔۔۔
2۔۔۔ اپنی ذات سے متعلق۔۔۔ مثبت سوچ قائم رکھنا۔۔۔
3۔۔۔ اللہ کے بندوں سے متعلق۔۔۔ مثبت سوچ قائم رکھنا۔
اچھی سوچ ایک ایسا خزانہ ہے۔۔۔ جس سے مٹی کو بھی۔۔۔ سونا بنایا جاسکتا ہے۔۔۔ جبکہ منفی اور گھٹیا سوچ رکھنے والا شخص ۔۔۔سونے کو ہاتھ ڈالے تو وہ بھی۔۔۔ مٹی بن جائے۔۔۔ اچھا سوچنے والے لوگ۔۔۔ مسائل کو حل کرنے کی بہتر اہلیت رکھتے ہیں۔۔۔ وہ اپنے آپ کو دوسروں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑتے۔۔۔ کہ ایسے ان سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھائے ۔۔۔اور ان کو دھوکا دے۔۔۔ جن کی اپنی آزاد سوچ ہوتی ہے۔۔۔ ان کو غلام نہیں رکھا جا سکتا۔۔۔ اور قوموں کی غلامی اصل میں سوچ کی غلامی ہوتی ہے۔۔۔
محض اہداف طے کر لینے سے۔۔۔ کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔۔۔ بلکہ جرأت اور حوصلہ بھی ہونا چاہئے۔۔۔ کیوںکہ عمل کے ذریعے ہی ۔۔۔ خوابوں اور منصوبوں کو۔۔۔ حقیقت بنایا جا سکتا ہے۔۔۔ رکاوٹیں اور مسائل ہمیں۔۔۔ خوفزدہ کر دیتے ہیں۔۔۔ اگر ان سے مقابلہ شروع کر دیا جائے۔۔۔ تو یہ پسپائی اختیار کر لیتے ہیں۔۔۔ کامیاب اور ناکام لوگوں میں۔۔۔ صلاحیتوں کا فرق نہیں ہوتا ۔۔۔بلکہ حوصلے اور جرأت کا فرق ہوتا ہے۔۔۔ حوصلہ اور جرأت کا مطلب محض۔۔۔ میدان جنگ میں ہیرو جیسے کارنامے دکھانا نہیں۔۔۔ بلکہ عام زندگی کو بااثر بنانے کے لئے بھی۔۔۔ حوصلہ اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔۔۔ اگر آپ اپنے منصوبے پر کام کا آغاز نہیں کرتے۔۔۔ تو آپ اپنے خوف میں اضافہ ہی کرتے رہیں گے۔۔۔ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ۔۔۔ صورت حال کا تجزیہ کریں۔۔۔ اور جس بات پر اطمینان ہو جائے۔۔۔ اس راستے کا انتخات کر لیا جائے۔۔۔۔ آپ کوئی بھی راستہ اختیار کریں۔۔۔ اس بات کو ذہن میں رکھیں۔۔۔ کہ آپ غلطیاں بھی کریں گے۔۔۔ ناکامیوں سے بھی واسطہ پڑے گا۔۔۔ غلط سمت میں قدم اٹھ جانا بہتر ہے۔۔۔ بجائے اس کے کہ آپ ۔۔۔ اپنی جگہ پر رکے رہیں۔۔۔ دنیا میں کسی بھی منزل کے بارے میں۔۔۔ مکمل یقین دہانی نہیں کرائی جا سکتی۔۔۔ چھوٹی بڑی کامیابیاں اس طرح رسک لینے سے ہی۔۔۔ حاصل ہوتیں ہیں۔۔۔ بڑے بڑے بہادر لوگ۔۔۔ اپنی ساری زندگی شک اور بے یقینی میں گزاردیتے ہیں ۔۔۔اور چھوٹے چھوٹے مسائل سے شکست کھا جاتے ہیں۔۔۔ اپنے اندر عزم و حوصلہ پیدا کریں۔۔۔ اور ڈٹ جائیں۔۔۔ جو ڈٹ گیا۔۔۔ جس نے استقامت دکھائی۔۔۔ منزل اس کی ہے۔۔۔
++++++++++++++++++++++++++++++++++++++
اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...