نور کا سفر

دنیا کی حقیقت۔۔۔


فرمان الہی ہے۔۔۔

{اعْلَمُوا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ كَمَثَلِ غَيْثٍ أَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَكُونُ حُطَامًا وَفِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيدٌ وَمَغْفِرَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ الْغُرُورِ } [الحديد: 200]

’’تم سب جان لوکہ۔۔۔ بے شک دنیا کی زندگی کھیل۔۔۔ تماشہ۔۔۔ زیب و زینت۔۔۔ آپس میں ایک دوسرے پر فخر کرنا۔۔۔
اور مال و دولت میں۔۔۔ ایک دوسرے سے
آگے بڑھنا ہے۔۔۔ اور اس بارش کی طرح ہے۔۔۔
جس کی پیداوار کسانوں۔۔۔
کو اچھی معلوم ہوتی ہے۔۔۔ پھر جب وہ ۔۔۔
خشک ہوجاتی ہے۔۔۔ تو زرد رنگ میں۔۔۔ اس کو تم دیکھتے ہو ۔۔۔پھر وہ بالکل چورا چورا ہوجاتی ہے۔۔۔ اور آخرت میں۔۔۔ (برے لوگوں کے لئے) سخت عذاب اور (اچھے لوگوں کے لئے) ۔۔۔
اللہ کی مغفرت اور رضامندی ہے۔۔۔ اور دنیا کی زندگی بجز دھوکے کے سامان کے۔۔۔ اور کچھ بھی نہیں ہے۔۔۔ ‘‘

ان آیتوں میں حق سبحانہ وتعالی نے دنیا۔۔۔ کی حقیقت کو بڑے واضح۔۔۔ الفاظ میں بیان فرمایا ہے۔۔۔ دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر۔۔۔ اپنے رب سے غافل نہ ہو جانا۔۔۔ جو لوگ نیک اعمال کرتے ہوئے۔۔۔ زندگی بسر کریں گے۔۔۔ ان کے لئے بخشش اور مغفرت۔۔۔ کا وعدہ ہے۔۔۔ اور جو سر کشی پر اتر آئیں۔۔۔ ان کے لئے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔۔۔
اے پیغمبر۔۔۔! صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔۔ انہیں سخت ترین عذاب کی۔۔۔ خوشخبری دے دیجئے۔۔۔۔


سورہ آل عمران میں حق سبحانہ کا ارشاد ہے۔۔۔


"اور دنیا کی زندگی تو محض... دھوکے کا سامان ہے۔۔۔" (ال عمران ١٨٥)

آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے انسانی حرص کو لگام دیتے ہوئے فرمایا ۔۔۔

”انسان ہمیشہ یہ کہتا رہتا ہے ۔۔
کہ یہ میرا مال ہے۔۔
اور یہ میرا مال ہے۔۔۔ حالانکہ سوائے تین چیزوں کے کوئی اس کا مال نہیں ہے۔۔۔

1) جو کچھ کھا کر ختم کردیا ۔۔۔ وہ اس کا ہے۔۔۔

2) جو کچھ پہن کر پرانا کردیا۔۔۔ وہ اس کا ہے۔۔۔

3)اور جو کچھ (اچھا یا برا )عمل کرکے ۔۔۔ توشہ آخرت تیار کرلیا۔۔۔ ( وہ اس کا ہے ۔۔۔ کیونکہ اس کی جزا یا سزا۔۔۔ اس کو آخرت میں ملے گی )۔۔۔

اس کے سوا جو کچھ ہے وہ ۔۔۔
وارثوں کو جانے والا ۔۔۔ اور لوگوں کے لیے چھوڑ کر مرنے والا ہے ۔۔۔“



حضرت عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں۔۔۔
کہ ہم حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔۔۔ اور آپﷺ اس وقت۔۔۔ کھجور کی چھال پر استراحت فرمارہے تھے۔۔۔
آپﷺ اٹھ بیٹھے تو ہم نے دیکھا۔۔۔ کہ آپﷺ کی کمر پر ۔۔۔ کھجو ر کی چھال کے نشان پڑے ہوئے ہیں ۔۔
تو ہم نے عرض کیا۔۔۔ کہ اے اللہ کے رسولﷺ۔۔۔!!ہم آپ ﷺ کے لئے کوئی... آرام دہ بستر نہ بنادیں... تو آپﷺ نے فرمایا ...

"کہ مجھے اس دنیا سے کیا لینا دینا...
میری مثال تو اس مسافر کی سی ہے۔۔۔
جو تھوڑی دیر آرام کے لئے۔۔۔ درخت کے سائے میں بیٹھا ہے۔۔۔"

ایک روایت میں آتا ہے کہ۔۔۔ حضورﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کے۔۔۔ کندھے کو پکڑ کہا۔۔۔ کہ

"دنیا میں ایسے رہو... جیسے اجنبی... بلکہ راہ گزر کا مسافر۔.."


ارشاد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔۔۔
"دنیا مردار کی مانند ہے... اور اس کے طلب گار... کتوں کی طرح ہیں ... جو مردار پر جھپٹتے ہیں۔۔۔"

انسان دنیا ہی کو۔۔۔ سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے۔۔۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے وفادار۔۔۔ نیک اور صالح بندوں ۔۔۔ کے لئے آخرت کی نعمتیں رکھی ہیں ۔۔۔
جس کے لئے اللہ کا ارشاد ہے۔۔۔

"میرے نیک بندوں کے لئے۔۔۔ میں نے ایسی نعمتیں۔۔۔ تیار رکھی ہیں۔۔۔ جن پر کسی کی۔نظر نہیں گزری۔۔۔ جو کسی کے گمان میں نہیں اسکتیں۔۔۔"

اللہ قدرت رکھنے والا ہے۔۔۔ ہر چیز پر قادر ہے۔۔۔
مال و متاع۔۔۔ اور بیٹے دنیا کی زینت ہیں۔۔۔ اس عارضی زندگی کی۔۔۔ زینت کے سامان میں سے دو بہت اہم ہیں۔۔۔
مال و دولت۔۔۔ اور اولاد میں بیٹے۔۔۔
انسان اپنے رب کو۔۔۔ بھول کر ان میں مگن ہوجاتا ہے۔۔۔ جبکہ یہ آزمائش کا سامان ہیں۔۔۔

مال اور اولاد کی محبت۔۔۔ انسان کو اللہ کی یاد۔۔۔ اور آخرت سے غافل کردیتی ہے۔۔۔ اور نفاق کا بیج پیدا ہوتا ہے۔۔۔


سورۃ منافقون میں اللہ کا ارشاد ہے۔۔۔
" اے وہ لوگو ...!! جو ایمان لائے ہو۔۔۔تمہیں تمہارے مال اور اولاد۔۔۔ اللہ کی یاد سے۔۔۔ غافل نہ کرنے پائیں۔۔۔
انسان فانی ہے۔۔۔ باقی رہنے والی اس کی نیکیاں ہیں۔۔۔
حدیث مبارکہ میں ہے کہ ۔۔۔

تین چیزیں میت کے ساتھ جاتی ہیں۔۔۔
اس کا خاندان۔۔۔
اس کا مال ۔۔۔
اور اس کا عمل۔۔۔
دوچیزیں تو لوٹ آتی ہیں ۔۔۔
اور ایک چیز ساتھ جاتی ہے۔۔۔

اس کے اہل عیال بھی لوٹ جاتے ہیں۔۔۔ اور مال بھی ۔۔۔

اورباقی رہنے جانے والا اس کا عمل ہے۔۔۔
جو اس کیساتھ جاتا ہے۔۔۔

سورہ العنکبوت میں۔۔۔ ارشاد ربانی ہے۔۔۔

"و ما ھذہ الحیوۃ الدنیا الا لھو و لعب و ان الدار الاخرۃ لھی الحیوان لو کانوا یعلمون ۔۔۔
سورۃ العنکبوت ۔۔۔٦٤
ترجمہ۔۔۔

"اور یہ دنیا کی زندگی تو... کھیل تماشا ہے ... آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے ۔۔۔ کاش وہ اس حقیقت کو جانتے۔۔۔"
اسی طرح سورہ الحدید میں ارشاد ہوتا ہے۔۔۔

اعلموا أنما الحياة الدنيا لعب ولهو وزينة وتفاخر بينكم وتكاثر في الأموال والأولاد كمثل غيث أعجب الكفار نباته ثم يهيج فتراه مصفرا ثم يكون حطاما وفي الآخرة عذاب شديد ومغفرة من الله ورضوان وما الحياة الدنيا إلا متاع الغرور۔۔۔
سورۃ الحدید ۔۔۔ ٢٠
ترجمہ۔۔۔

" جان رکھو کہ دنیا کی زندگی... محض کھیل اور تماشا اور زینت... اور تمہارے آپس میں... فخر اور مال و اولاد کی... ایک دوسرے سے زیادہ طلب ہے ...( اسکی مثال ایسی ہے ) جیسے بارش کہ ( اس سے کھیتی اگتی اور ) کسانوں کو کھیتی بھلی لگتی ہے ... پھر وہ خوب زور پر آتی ہے ۔۔۔ پھر ( اسے دیکھنے والے ) ۔۔۔تو اس کو دیکھتا ہے کہ یہ۔۔۔ ( پک کر ) زرد پڑ جاتی ہے ۔۔۔پھر چورا چور ہوتی ہے ۔۔۔اور آخرت میں کافروں کے لیے )۔۔۔ عذاب شدید اور ( مومنوں کے لیے ) خدا کی طرف سے ۔۔۔ بخشش اور خوشنودی ہے۔۔۔ اور دنیا کی زندگی۔۔۔ تو متاع فریب ہے۔۔۔"

اس لئے اس چند روزہ زندگی پر۔۔۔ گھمنڈ نہ کرنا کہ اپنے پالنہار کو ہی بھول جاؤ۔۔۔ اس نے تمہیں جس کام کے لیے۔۔۔ اس دنیا میں بھیجا ہے وہ کرنا۔۔۔ دنیا کے دھوکے میں آکر۔۔۔ اپنا فریضہ نہ بھول جانا۔۔۔


سورہ فاطر میں ۔۔۔ارشاد باری تعالی ہے۔۔۔

یا ایھاالناس ان وعد اللہ حق فلا تغرنکم الحیوۃ الدنیا ولا یغرنکم باللہ الغرور ۔۔۔
سورۃ فاطر ۔۔۔٥
ترجمہ۔۔۔

" اے لو گو... ! بے شک اللہ کا وعدہ قیامت... برحق ہے ... لہذا دنیا کی زندگی تمہیں۔۔۔ دھوکے میں نہ ڈالے اور نہ وہ۔۔۔ بڑا دھوکے باز۔۔۔ تمہیں اللہ کے بارے میں دھوکا دینے پائے۔۔۔"
شیطان کے بہکاوے میں نہ انا۔۔۔ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔۔۔ اللہ کی بارگاہ میں۔۔۔ اس شیطان سے پناہ۔۔۔ طلب کرتے رہنا۔۔۔

یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے۔۔۔ اور اس انسان اس دنیا میں۔۔۔ ضرور آزمایا جائیگا۔۔۔ اللہ تمہیں مال و دولت۔۔۔ اولاد۔۔۔ اور ہر طرح کی آزمائش سے گزارے گا۔۔۔اور جب ایک مؤمن آزمائش سے گزرے۔۔۔ تو اس کا رویہ۔۔۔ برتاؤ کیسا ہوتا ہے۔۔۔ وہ کونسے کلمات ادا کرتا ہے۔۔۔ مصیبت اور پریشانی کے وقت۔۔۔ کن کلمات کو ادا کرنا چاہئے۔۔۔ وہ سب درج ذیل آیات مبارکہ میں۔۔۔اللہ نے واضح کیا ہے۔۔۔ آئیے اللہ کے کلام پر غور کرتے ہیں۔۔۔


ارشاد باری تعالیٰ ہے۔۔۔

ولنبلونكم بشيء من الخوف والجوع ونقص من الأموال والأنفس والثمرات وبشر الصابرين (البقرہ-155)
الذين إذا أصابتهم مصيبة قالوا إنا لله وإنا إليه راجعون (156)
"اور ھم یقیناً آزمائیں گے ... تمہیں کچھ خوفناک حالات کے ساتھ ۔۔۔اور بھوک یعنی فاقوں کی کیفیت۔۔۔ اور جان و مال ۔۔۔اور پھلوں کے نقصان کے ساتھ ۔۔۔ اور خوشخبری سنا دیجئے۔۔۔ صبر کرنے والوں کو۔۔۔ جنہیں جب بھی کسی مصیبت سے پالا پڑے۔۔۔ تو کہتے ھیں۔۔۔
( ھم نے کونسا یہاں سدا رھنا ھے )
یقیناً ھم اللہ کی طرف سے آئے ھیں۔۔۔ اور اسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ھیں۔۔۔"


أمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَأْتِكُمْ مَثَلُ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ مَسَّتْهُمُ الْبَأْسَاءُ وَالضَّرَّاءُ وَزُلْزِلُوا حَتَّى يَقُولَ الرَّسُولُ وَالَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ.

" کیا تم نے یہ حساب لگا رکھا تھا... کہ تم ایسے ھی جنت میں جا گھسو گے... اور تمہیں وہ حالات پیش نہیں آئیں گے ...جو تم سے پہلوں کو پیش آئے... انہیں تنگیوں اور تکلیفوں نے گھیرے رکھا ۔۔۔ اور وہ ھلا مارے گئے۔۔۔ یہانتک کہ رسول اور اس کے ساتھیوں نے کہا کہ ۔۔۔اللہ کی مدد کب آئے گی۔۔۔ ؟ جان لو کہ اللہ کی مدد بہت قریب ھے۔۔۔"

أَمْ حَسِبْتُمْ أَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنْكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ (آل عمران 142)

" کیا تم نے یہ سمجھ رکھا تھا کہ... تم یونہی ( ٹھنڈے ٹھنڈے )... جنت میں داخل ھو جاؤ گے... حالانکہ اللہ نے ابھی تم میں سے... جہاد کرنے والوں اور صبر کرنے والوں کو... چھانٹا نہیں ھے...




أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ (22) وَلَقَدْ فَتَنَّا الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۖ فَلَيَعْلَمَنَّ اللَّهُ الَّذِينَ صَدَقُوا وَلَيَعْلَمَنَّ الْكَاذِبِينَ (3) العنکبوت
" کیا لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ھے کہ۔۔۔ انہیں چھوڑ دیا جائے گا۔۔۔ صرف یہ کہہ دینے پر کہ ھم ایمان لائے۔۔۔ اور ان کو آزمایا نہ جائے گا۔۔۔ بےشک ھم ان سے پہلوں کو بھی آزمایا ھے ۔۔۔
پس اللہ چھانٹ کر رھے گا ان لوگوں کو ۔۔۔جو سچے ہیں۔۔۔"
اگر انسان اپنے ایمان لانے کا۔۔۔ اعلان کرتا ہے تو پھر۔۔۔ بارگاہ ربوبیت سے۔۔۔ اس کے ایمان کا۔۔۔ امتحان بھی لیا جائے گا۔۔۔

فرمانِ باری تعالیٰ ہے۔۔۔


الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاۃَ لِیَبْلُوَکُمْ أَیُّکُمْ أَحْسَنُ عَمَلاً۔(الملک:۲)

’’اس نے موت اور زندگی پید ا کی۔۔۔ تاکہ وہ تمکو آزمائے کہ۔۔۔ تم میں سے کون عمل میں زیادہ بہتر ہے۔۔۔"
اللہ تعالیٰ انسان کو عمل کا موقع دیکر۔۔۔ یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ۔۔۔ انسان دنیاوی لذتوں اور آسائشوں میں ۔۔۔ رہ کر اپنے منعم حقیقی کو پہچانتا اور یاد رکھتا ہے کہ نہیں۔۔۔
یا پھر مقصد حیات سے غافل ہو کر۔۔۔ شیطان کے شکنجوں میں جکڑ جاتا ہے۔۔۔ اور اپنی عاقبت خراب کر لیتا ہے۔۔۔
تم اس دنیا میں۔۔۔ عیش و عشرت کے لئے۔۔۔ پیدا نہیں کئے گئے۔۔۔ تمہاری زندگی کا ایک۔۔۔ مقصد ہے۔۔۔ اور وہ مقصد یہ ہے کہ۔۔۔ زندگی کے ہر شعبے میں۔۔۔ ہر مرحلے میں۔۔۔ بندگی کا حق ادا کرو۔۔۔ مخلوق کی خدمت کا۔۔۔ فریضہ سر انجام دو۔۔۔ بھٹکی ہوئی انسانیت کو۔۔۔ راہ راست دکھاؤ۔۔۔ اللہ کے بندوں کو۔۔۔ اللہ کیساتھ جوڑ دو۔۔۔
اللہ کا فرمان ہے۔۔۔
" تم وہ بہترین امت ہو۔۔۔ جسے انسانوں کی اصلاح کے لیے۔۔۔ میدان میں اتارا گیا ہے۔۔۔"

اللہ نے تم پر تبلیغ کی۔۔۔ ذمہ داری عائد کی ہے۔۔۔ اور اپنی عبادت اور بندگی کا حکم دیا ہے۔۔۔ وہ بجا لاؤ ورنہ خسارہ ہی خسارہ ہے۔۔۔

اور دنیا کی حقیقت و حیثیت کیا ہے؟؟..
اللہ تعالی سورہ حدید کی آیات میں۔۔۔ واضح
کردی ہے۔۔۔

»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»


No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...