»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»»
سرکار دوعالم ﷺ کا فرمان مبارک ہے۔۔۔
ان الدعا والبلاء بین السماء والارض یقتتلان ،ویدفع الدعاء البلاء۔
"بے شک دعا اوربلاء( مصیبت) ...زمین و آسمان کے درمیان... جھگڑتی رہتی ہیں... پس دعاء مصیبت کو دورکردیتی ہے..."
یعنی جومصیبت نازل ہونے والی ہوتی ہے۔۔۔ وہ دعائیں مانگنے کی وجہ سے۔۔۔ انسان سے دور کردی جاتیں ہیں۔۔۔ اوراسے خبر تک نہیں ہوتی۔۔۔ کون سی مصیبت کس ۔۔۔۔دعا کی وجہ سے دور کردی گئی۔۔۔
فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔
"جسے دعا کی ۔۔۔ توفیق عطا کر دی گئی۔۔۔ اس کے لئے رحمت کے دروازے۔۔۔ کھول دیئے گئے۔۔۔"
"دعا کے سو اکوئی ... چیز قضا (یعنی تقدیر کے فیصلے)۔۔۔ کو رد نہیں کر سکتی۔(ترمذی)۔۔۔"
کوئی مصیبت یا پریشانی نازل ہونے۔۔۔ کو ہوتی ہے کہ۔۔۔ اتنے میں دعا کرنے والے ۔۔۔ کی دعا اس سے جاملتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ ۔۔۔علیم و خبیر کے فضل و کرم سے ۔۔۔ انسان اس دعا کی بدولت۔۔ آنے والی مصیبت سے بچ جاتا ہے۔۔۔
ہمیں چاہیے کہ دعائوں کا خصوصی۔۔۔ اہتمام کریں۔۔۔ ہر وقت مانگیں۔۔۔ اپنے ارد گرد دعاؤں کا۔۔۔ حصار رکھیں۔۔۔ اور صبر و شکر کے ساتھ اظہار بندگی بجا لائیں۔۔۔ دعا مانگنے والا کبھی نامراد نہیں رہتا۔۔۔
ترجمہ۔۔۔
"اے میرے رب...!! میں تجھ سے دعا مانگ کر... کبھی محروم نہیں رہا..."
سورۂ مریم۔۔۔
آیت قرآنی سے واضح ہوا۔۔۔ کہ رب سے مانگنے والا کبھی۔۔۔ محروم نہیں رہتا۔۔۔ بلکہ رب کی رحمت اپنے ۔۔۔ دعا مانگنے والے بندوں کے۔۔۔ شامل حال ہو جایا کرتی ہے۔۔۔
اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی دعا۔۔۔جو دل کی گہرائیوں سے نکلے۔۔۔ وہ ذاتِ باری تعالیٰ کے اختیاراتِ کلی۔۔۔ اور اس کی توحید والوہیت۔۔۔ پر بندے کے ایمان کو ظاہرکرتی ہے۔۔۔
پورے بھروسے اور کامل یقین کے۔۔۔ ساتھ اس ذات وحدہ لاشریک سے ۔۔۔دعا مانگنا ہی اپنی عاجزی۔۔۔ انکساری و بندگی۔۔۔ اور رب تعالیٰ کی شان رحیمی۔۔۔ اور شان کبریائی کا اقرار ہے۔۔۔
اللہ کو یہ بات پسند ہے کہ ۔۔۔اس کے آگے۔۔۔ دست سوال اور دامن حاجت ۔۔۔ دراز کیا جائے۔۔۔ اس کے سامنے گڑ گڑایا جائے۔۔۔ اوراسی سے مددمانگی جائے۔۔۔
صدق دل سے مانگی ہوئی دعا۔۔۔ کسی صورت میں بھی رائیگاں نہیں جاتی ۔۔۔ نہ جانے ہماری کس دعا کی قبولیت ۔۔۔باری تعالیٰ کوکس صورت سے منظور ہو۔۔۔
اگر اس غفور الرحیم کے نزدیک قرین ۔۔۔ مصلحت ہو تو ہماری مراد ۔۔۔فوراً پوری کر دی جائے۔۔۔
اگر فوراً مراد پوری کرنا ۔۔۔ قرین مصلحت نہ ہو تو۔۔۔ مناسب وقت پر وہ مراد پوری کر دی جائے۔۔۔ ورنہ اس کا بہتر نعم البدل۔۔۔ دنیا یا آخرت میں دے دیا جائے گا۔۔۔ یا کسی آنے والی مصیبت و بلا کو ٹال دیا جائے گا۔۔۔
اللہ رب العزت نےاپنی ذات سے۔۔۔ مانگنے والے کے لئے ۔۔۔قرآن مجید میں یہ اعلان فرمایاہے کہ۔۔۔
" وہ سائل سے قریب ہے ...اوراس کی دعائیں قبول کرتاہے..."
سورۃ البقرہ میں ارشاد ربانی ہے۔۔۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي۔۔۔
البقرۃ۔۔۔186
"اے میرے محبوب...! جب میرے بندے تم سے... میرا پوچھیں تومیں ...نزدیک ہوں اورپکارنے والے کی پکار سنتا ہوں۔۔۔ جب وہ مجھے پکارے۔۔۔"
سرورِکائنات علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے فرمایا کہ۔۔۔
" بندۂ مومن رب کے حضور ...دعا کر کے کبھی نامراد نہیں رہتا...اگر دنیا میں اس کی... مراد پوری نہیں ہوتی... تو آخرت میں ...اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایسے بندےکو ...اس قدر اجر عظیم عطا فرمائے گا... کہ وہ بندہ خوش ہو جائے گا ...اور خواہش کرے گا کہ... کاش میری کوئی دعا ... دنیا میں مقبول نہ ہوتی ۔۔۔بلکہ تمام دعائوں کے ثمرات۔۔۔ جنت میں حاصل ہوتے۔۔۔"
مولانا رومی رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔
مومن کی پکار کو۔۔۔اللہ دوست اور عزیز رکھتا ہے۔۔۔
نالۂ مومن ہمید اریم دوست
گوتضرع کن ایں اعزاز اوست
“ہم مومن کے نالہ کو ۔۔۔دوست رکھتے ہیں۔۔۔ اورمومن کا تضرع کرنا ۔۔۔اس کے لئے اعزاز ہے۔۔۔"
دعا میں یقین۔۔۔
دعا اور تلاوت قرآن میں۔۔۔ ً اتنی تاثیر ہے کہ۔۔۔ اگرکوئی شخص پہاڑ کو۔۔۔ اپنی جگہ سے ہٹانے کے لئے بھی۔۔۔ یقین کے ساتھ دعاکرے۔۔۔ یا تلاوت کرے۔۔۔تو ضرور بالضرور وہ۔۔۔ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا۔۔۔
حدیث مبارکہ ہے۔۔۔
حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ۔۔۔ انہوں نے ایک بیماری میں مبتلا شخص۔۔۔ کے کان میں کچھ پڑھا۔۔۔ جس سے اسے افاقہ ہوا۔۔۔
آپپ ﷺنے پوچھاکہ۔۔۔ تم نے اس شخص کے کان میں۔۔۔ کیاپڑھا ہے۔۔۔؟
انہوں نے جواب دیا کہ۔۔۔
سورۃ المومنون أفحسبتم أنما خلقناكم عبثا ۔۔۔سے آخرتک تلاوت کی ہے۔۔۔
آپ ﷺ نے فرمایا۔۔۔
لو أن رجلا موقنا قرأ بها على جبل لزال
”اگرکوئی صاحب یقین۔۔۔ اس کو پہاڑ پر بھی پڑھے۔۔۔ تو وہ اپنی جگہ سے ہٹ جائے۔۔۔”
دعامانگتے وقت انسان یہ نہ کہے۔۔۔ کہ اے اللہ اگر توچاہے۔۔۔ تو قبول فرما۔۔۔ اور اگر تونہ چاہے تو نہ قبول فرما ۔۔۔ بلکہ پورے یقین سےدعا مانگیں کہ۔۔۔ قدرت رکھنے والے رب سے مانگا ہے۔۔۔ انشاء اللہ ضرور قبول ہوگی۔۔۔
مسلم شریف کی حدیث ہے۔۔۔
إِذَا دَعَا أَحَدُكُمْ فَلْيَعْزِمْ فِي الدُّعَاءِ وَلَا يَقُلْ اللَّهُمَّ إِنْ شِئْتَ فَأَعْطِنِي فَإِنَّ اللَّهَ لَا مُسْتَكْرِهَ لَهُ۔
” جب تم میں سے کوئی دعا کرے۔۔۔ تو وہ پختگی اوریقین کے ساتھ کرے۔۔۔ اوریہ نہ کہے کہ اے اللہ ۔۔۔! اگر تو چاہے تو مجھے عطاکر بے۔۔۔ شک اللہ تعالیٰ پر کوئی جبر کرنے والانہیں۔۔۔"
دعا مانگنے سے قبل۔۔۔ اللہ رب العزت کی حمدوثناء ۔۔۔ کرنی چاہئے اورحضور ﷺ پر درود شریف کا نذرانہ ۔۔۔ بھیجناچاہئے۔۔۔
حدیث مبارکہ ہے۔۔۔
إذا صلى احدكم فليبدأ بتحميد الله تعالى ، والثناء عليه ثم ليصل على النبي صلى الله عليه وسلم ، ثم ليدعو بعد بما شاء.
“جب تم میں سے کوئی شخص۔۔۔ دعا مانگے تو دعا کے آغاز میں۔۔۔ اللہ کی حمد و ثناء کرے۔۔ پھر نبی اکرم ﷺپر۔۔ درود بھیجے پھر وہ۔۔۔ جووہ چاہے دعا کرے۔۔۔"
(کنزالاعمال)
ایک اورحدیث میں آتاہے۔۔۔
كل دعاء محجوب حتى يصلي على محمد صلى الله عليه وسلم وآل محمد.
“ہر دعا معلق رہتی ہے۔۔۔ یہاں تک کہ وہ (سائل)۔۔۔حضرت محمد ﷺ اور۔۔ ان کی آل پر درود نہیں بھیجتا۔۔۔"
دعا مانگنے کے لئے ہاتھ بھی اٹھائے جائیں۔۔۔جو کہ حضور ﷺ کی سنت مبارکہ ہے۔۔۔
أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا دَعَا فَرَفَعَ يَدَيْهِ مَسَحَ وَجْهَهُ بِيَدَيْهِ۔
“حضور ﷺ جب دعا فرماتے تو۔۔۔ اپنے ہاتھ بلند فرماتے۔۔۔ اورہاتھوں کو چہرہ انور پرپھیرتے۔۔۔(ابوداود)
دعا کی ابتداء اپنی ذات سے۔۔۔ کرنی چاہئے پھر اس میں ۔۔۔ دوسروں کے لئے بھی بھلائی۔۔۔ اورخیر مانگنی چاہئے۔۔۔ دوسروں کے لیے خیر و عافیت مانگیں۔۔۔ اللہ آپ کی مرادیں پوری فرمائے گا۔۔۔
أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَعَا بَدَأَ بِنَفْسِهِ۔
“حضور ﷺ جب دعا فرماتے۔۔۔ تو اس کی ابتداء اپنی ذات مبارکہ سے کرتے۔۔۔"(ابوداود)
اللہ کو صرف تنگی و مصیبت میں۔۔۔ یاد نہ کرو۔۔۔ بلکہ اپنی خوشحالی میں بھی۔۔۔اس کی یاد سے غافل نہ ہو۔۔۔ خوشحالی میں اس کا۔۔۔ شکر ادا کرتے رہو۔۔۔ تاکہ اس کی رحمت۔۔۔ ہمیشہ تم پہ بنی رہے۔۔۔
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔۔۔
مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَسْتَجِيبَ اللَّهُ لَهُ عِنْدَ الشَّدَائِدِ وَالْكَرْبِ فَلْيُكْثِرْ الدُّعَاءَ فِي الرَّخَاءِ۔
“جو شخص چاہتا ہے کہ اللہ رب العزت۔۔۔ شدت اورتکلیف میں ۔۔۔اس کی دعائیں قبول کرے۔۔۔ اسے چاہئے کہ وہ بحالت فراخی۔۔۔ کثرت سے دعائیں کیاکرے۔۔۔"(سنن ترمذی)
دعا مانگتے وقت ۔۔۔ دل میں یقین ہو کہ۔۔۔ اللہ تعالیٰ مجھے دیکھ رہاہے۔۔۔
عاجزی و انکساری سے۔۔۔ اپنی عرض اس کی بارگاہ میں پیش کرو۔۔۔ دعا میں خوب محنت کرو۔۔۔ اللہ کی بارگاہ میں۔۔۔ انمول موتیوں کا نذرانہ پیش کرو۔۔۔ اس کی بارگاہ میں۔۔۔ انسان کے آنسوؤں کی بڑی۔۔۔ قدر و منزلت ہے۔۔۔ پتھر دل آنسوؤں سے پگھل جاتے ہیں۔۔۔ وہ تو پھر بڑا کریم اور۔۔۔ رحیم ہے۔۔۔ اسے بندوں کے آنسو۔۔۔ بہت پسند ہیں۔۔۔ آنسو اپنا کام کر جاتے ہیں۔۔۔
اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...