سحر کے وقت ابراہیم نے اٹھ کر دعا مانگی،
سکون قلب مانگا، خوئے تسلیم ورضا مانگی،

کہ اے مالک عمل کو تابع ارشاد کرتا ہوں،
میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں،

اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے،
اسی بے برگ وسامانی  میں شان صد  بہاراں دے،

الہیٰ نسل   اسمعیل  بڑھ  کر  قوم  ہو جائے،
یہ قوم ایک روز پابند صلواۃ و صوم ہو جائے،

اسی  وادی میں  تیرا  ھادی  موعود   ہو  پیدا،
کرے جو فطرت انسان  کو تیرے  نام پر شیدا،

بشارت تیری سچی ہے  تیرا وعدہ  بھی سچا ہے،
پس اب تو ہی محافظ، لے یہ بیوی ہے یہ بچہ ہے،

* قربانی کے معنی اور مفہوم**


قربانی، عربی زبان کا لفظ ہے جو ’’ قرب‘‘ سے مشتق ہے اور جس کے معنیٰ، نزدیک یا قریب ہونے کے ہیں۔

قربانی سے مُراد، اللہ کے قرب کا حصول ہے، خواہ وہ ذبیحہ سے ہو یا صدقہ و خیرات سے، جب کہ عام طور پر قربانی کا لفظ جانور کے ذبیحہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
قرآنِ کریم میں یہ لفظ کئی جگہوں پر استعمال ہوا ہے۔
سورۂ کوثر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔۔۔۔

 ’’اپنے ربّ کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔‘‘

تاریخِ انسانی میں قربانی کا تصوّر ہمیشہ سے رہا ہے اور کم و بیش تمام مذاہب میں قربانی کا تصوّر موجود ہے۔
 دنیا میں سب سے پہلی قربانی، حضرت آدمؑ کے بیٹوں، ہابیل اور قابیل نے کی، جس کا تذکرہ قرآنِ کریم کی سورہ المائدہ میں اس طرح ہے۔۔۔۔

’’ اور جب اُن دونوں نے قربانی کی، تو ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہیں ہوئی‘‘ (27:5)۔

ہابیل نے اللہ کی رضا کی خاطر خُوب صُورت دنبے کی قربانی پیش کی، جب کہ قابیل نے بے دلی کے ساتھ، ناکارہ غلّے کا ڈھیر پیش کیا۔

 ہابیل کی قربانی کو آسمانی آگ نے جلا ڈالا۔ اس زمانے میں قربانی کی قبولیت کی یہ ہی علامت تھی۔

اللہ نے ہر امّت پر قربانی مقرّر فرمائی اور اس پر عمل پیرا رہنے کا حکم دیا۔

چناں چہ سورۃ الحج میں ارشادِ باری ہے۔۔۔

’’ہم نے ہر امّت کے لیے قربانی مقرّر کی ہے تاکہ وہ لوگ اللہ کا نام لیں، چوپائے جانوروں پر، جو اس نے اُنہیں دیے ہیں (34:22)۔


حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ نے عرض کیا۔۔۔۔

 ’’ یا رسول اللہ ! ان قربانیوں کی حقیقت اور تاریخ کیا ہے ؟ ‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔

 ’’ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا۔۔۔۔۔

’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ان قربانیوں میں ہمارا کیا اجر ہے ؟ ‘‘

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’

قربانی کے جانور کے ہر بال کے عوض ایک نیکی ہے۔‘‘ (مسند احمد، سنن ابن ماجہ)

اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ سے روایت ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔

’’یوم النحر (دس ذوالجہ) میں ابن آدم کا کوئی عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک خون بہانے (قربانی کرنے) سے زیادہ پیارا نہیں ہے۔ اور قربانی کا جانور قیامت کے دن اپنے سینگ ، بال او رکھروں کے ساتھ آئے گا۔ قربانی کا خون زمین پر گرنے سے قبل خدا کے نزدیک مقام قبولیت کو پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا! اسے خوش دلی سے کرو۔‘‘
(ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ)

حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف قربانی کے فضائل او رحکم بیان نہیں فرمایا، بلکہ ان پر عمل کرکے بھی دکھلایا ہے۔

حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں۔۔۔۔

’’ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینے میں دس سال مقیم رہے ، اس عرصے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی۔‘‘
 (مشکوٰۃ ترمذی)

جبکہ حضرت انس ؓ فرماتے ہیں ۔۔۔

’’ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کیا کرتے تھے اور میں بھی دو ہی مینڈھوں کی قربانی کیا کرتا ہوں‘‘

اگر ایک جانب قربانی کا حکم اور اس کے فضائل وارد ہوئے ہیں تو دوسری جانب قربانی نہ کرنے والے کے بارے میں بھی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔۔۔۔۔۔۔
 "جسے وسعت ہو اور اس کے باوجود وہ قربانی نہ کرے، وہ ہماری عید گاہ کے قریب بھی نہ آئے‘‘ (ابن ماجہ)۔

عیدالاضحی پر جانوروں کی قربانی جہاں ایک عظیم عبادت ہے، وہاں تجدید عہد وفا بھی ہے۔ قربانی درحقیقت اس وعدے کو دہرانے کا نام ہے کہ ہمارا جینا، ہمارا مرنا او رہماری پوری زندگی اللہ تعالیٰ کے لیے ہے۔

 یہی ایک مسلمان کی زندگی کا حقیقی مقصد ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’

 خدا تک نہ ان (قربانی کے جانوروں) کا گوشت پہنچتا ہے اور نہ ہی خون، بلکہ اس تک تمہاری پرہیز گاری پہنچی ہے‘‘ (سورۃ الحج)۔

 اس آیت میں اللہ کریم نے بڑے واضح طور پر فرما دیا کہ تقویٰ اور پرہیزگاری ہی قربانی کی حقیقی روح ہے۔


** قربانی کی فضیلت**


حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا.....

’’ مجھے یوم الاضحی (قربانی کے دن) کو عید کا حکم دیا گیا ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے اس امّت کے لیے عید بنایا ہے ۔۔(سنن ابودائود)۔

حضرت عبداللہ بن عُمرؓ سے روایت ہے کہ نبیٔ مکرم ﷺ نے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ میں دس سال قیام فرمایا اور آپؐ ہر سال قربانی کیا کرتے تھے (ترمذی)۔

ابنِ عبّاسؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔
’’ جو مال عید کے دن قربانی میں خرچ کیا گیا، اس سے زیادہ کوئی مال پیارا نہیں (طبرانی)۔

سیّدنا حَسن بن علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم ﷺ نے فرمایا۔۔۔۔۔

’’ جس نے خوش دِلی سے، طالبِ ثواب ہوکر قربانی کی، وہ اُس کے لیے آتشِ جہنّم سے حجاب (روک) ہوجائے گی(طبرانی)۔

** قربانی کِن لوگوں پر واجب ہے **


عیدالاضحیٰ کے موقعے پر ہر صاحبِ نصاب، عاقل، بالغ، آزاد اور مقیم مسلمان مَرد اور عورت پر جانور کی قربانی کرنا واجب ہے۔

** کس جانور کی قربانی جائز ہے **


قربانی کے جانور شرعاً مقرّر ہیں، جن میں اونٹ اونٹنی، گائے، بھینس، بیل، بکرا، بکری، بھیڑ، دنبہ، مینڈھا شامل ہیں۔
ان کے علاوہ، کسی اور جانور کی قربانی جائز نہیں، خواہ وہ کتنا ہی خُوب صورت، قیمتی اور کھانے میں لذیذ ہو۔

حضرت علی المرتضیٰؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا....

’’ چار قسم کے جانور قربانی کے لیے درست نہیں۔ (1) لنگڑا جانور، جس کا لنگڑا پَن ظاہر ہو
( 2) ایسا کانا جانور، جس کا کانا پَن ظاہر ہو 3) )ایسا بیمار جانور، جس کا مرض ظاہر ہو
(4) ایسا دُبلا جانور، جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو(ترمذی، ابودائود)۔

حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ۔۔۔۔

’’ قربانی کے جانور کی آنکھ، کان خُوب اچھی طرح دیکھ لیا کرو اور ایسے جانور کی قربانی نہ کرو، جس کا کان چِرا ہوا، کٹا ہوا یا سوراخ والا ہو یا اس کے سینگ ٹوٹے ہوئے ہوں۔
(ترمذی، ابنِ ماجہ)۔

** قربانی کا وقت **


10 ذی الحجّہ کی صبح سے 12 ذی الحجّہ کی شام تک قربانی کرنا جائز ہے ہے.

 تاہم، قربانی کرنے کا سب سے افضل دن، دس ذی الحجّہ یعنی عید کا پہلا دن ہے، پھر دوسرا اور تیسرا دن۔

** نمود و نمائش **


دراصل قربانی کا عمل، اللہ کی رضا کے لیے اپنی خواہشات کو قربان کرنا ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ اس افضل عمل کو بھی نمود و نمائش کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے۔
قیمتی جانور کو ذاتی نمود و نمائش کے لیے خرید کر گھروں کے سامنے نمائش لگانا اور علاقے میں جلوس کی شکل میں گشت کروانا، کوئی اچھا عمل نہیں۔ یہ عمل غرور و تکبّر کے زمرے میں آتا ہے، جب کہ اللہ کو عاجزی و انکساری پسند ہے۔
اسی طرح، قربانی کے گوشت کے تین حصّے کرنے چاہئیں۔
 ایک غریب، غربا کے لیے، ،،
دوسرا رشتے داروں کے لئے اور
دوست احباب کے لیے ،،،،
اور تیسرا اپنے اہلِ خانہ کے لیے،،،،

اللہ تبارک تعالیٰ ہم سب کو سنّتِ ابراہیمیؑ کی حقیقی رُوح، یعنی ایثار و قربانی، صبر و شُکر، قناعت و اطاعت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔


 فرمانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے ۔۔۔۔۔


جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈوایا اور نہ ناخن ترشوائے۔۔۔

 '' پیارے محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ سے مخاطب ہو کرارشاد فرمایا۔۔۔۔۔۔۔

 ''قربانی کے جانور کے پا س کھڑی ہو اس لئے کہ قربانی کے جانور کی گردن سے جب خون کا پہلا قطرہ گرگا تو اس کا عوض تمہارے گناہ معاف کردئیے جائیں گے۔"

 اسی طرح پیارے محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔۔۔۔۔

''جس شخص نے دل کی خوشی کے ساتھ اور طلبِ ثواب کے لئے قربانی کی وہ قربانی اسکے لئے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوگی''۔ ۔۔۔

یوں یہ مہینہ نہایت ہی عظمت اور مرتبے والا ہے اس کا چاند(ہلال) نظر آتے ہی ہر قلب میں اس عظیم و الشان قربانی کی یاد تازہ ہوجاتی ہے جس کی مثال تاریخ انسانی آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے بے شک یہ ماہِ مبارکہ اصل میں اس جلیل و قدر پیغمبر کی یادگار ہے جن کی زندگی قربانی و ایثار سے بھرپور تھی۔

**حضرت ابراہیم علیہ السلام **



اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے جلیل القدر اور عظیم المرتب رسول ہیں۔ آپ کا لقب خلیل اللہ ہے۔
آپ نے پرچم توحید کی سر بلندی کے لئے نمرود جیسے خدائی کا دعویٰ کرنے والے طاغوت سے جہاد فرمایا۔اور آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بے خطر کود پڑے۔
آپ کعبہ کے بانی آور ابو الانبیاء ہیں۔

یہ اندازہ کریں کے وہ کون سا امتحان ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ (ابراہیم) سے نہیں لیا
مگر آپ کی ذاتِ والا صفات پر کسی میدان میں بھی پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی ۔

یہ بھی حقیقیت ہے کہ دو چیزیں دنیامیں انسان کو سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں۔۔۔۔
 ایک اپنی جان اور دوسر ی اپنی اولاد
 مگر کروڑ روں ، اربوں اور کھربوں سلام ہوں حضرت ابراہیم پر کہ آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی اور تقویٰ کا وہ عظیم الشان مظاہر ہ کیا کہ جب نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے تو آپ کو اس میں ڈالا گیا اور آپ بے خوف و خطر خود پڑے اور اللہ کے فضل و کرم سے آگ حضرت ابراہیم علیہ السلام پر گل و گلزار ہوگئی۔

منجنیق کے زریعے پھینکنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں کفر خوش ہے کہ آج کے بعد ہمارے معبودوں کو برا بھلا کہنے والا کوئی نہیں ہوگا مخالف ہمیشہ کے لئے ختم ہوا جاتا ہے تو ادھر حضر ت جبرائیل حاضر ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ۔۔۔

 ''اے اللہ کے بندے پیارے خلیل ! کوئی حکم کوئی حاجت ؟
اس کے جواب میں حضر ت خلیل اللہ فرماتے ہیں
اما الیک فلا ۔۔۔۔۔
''میرے ساتھ کوئی حاجت نہیں ''

اور پھر جبرائیل نے عرض کی ۔۔۔۔

اچھا تو اللہ کی بارگاہ میں عرض کیجئے کے مجھے آگ میں ڈالا جا رہا ہے ''۔

آپ خلیل اللہ نے فرمایا ''

جانتا ہے وہ میرا رب ِ جلیل
آگ میں پڑتا ہے اس کا خلیل

اسے کیوں کہوں ؟
کیا وہ سمیع و بصیر نہیں ہے؟

عقل نے اس موقعے پر حضر ت ابراہیم سے مخاطب ہوکر کہا ہوگا کہ۔۔۔۔
 ابراہیم جان بڑی عزیز شے ہے جو ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں ملتی اس کی حفاظت کرو

عقل بولی کہ بڑی شے جان ہے
عشق بولا کے یار پر قربان ہے

حضر ت علامہ اقبال اس واقعے اورتقویٰ سے متعلق فرماتے ہیں

بے خطر کود پڑ ا ا تش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا نے لب بام ابھی

اور حضر ابراہیم نے عقل کی دلیل کو یکسر رد کرتے ہوئے عشق الہی میں آگ میں چھلانگ لگا دی تب اللہ تعالیٰ نے اللہ تعالیٰ نے آگ کو حکم کو دیا۔۔۔۔

" اے آگ ! میرے ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا واور سلامتی والی ہوجا ''

رب تعالیٰ کی جان کی آزمائش اور امتحان کے بعد ربِ کائنات کی جانب سے دوسرا بڑا اور سب سے کٹھن امتحان ہونے والا تھا اور وہ اولاد سے متعلق تھا اور یوں بھی جان کے بعد اولاد کا مقام آتا ہے انتہائی اختصار کے ساتھ رب کائنات اللہ تعالیٰ کی جانب سے حضرت ابراہیم پر دوسرا امتحان شروع ہوا اور اس میں بھی وہ ثابت قدمی سے پورے اترے اور ایسے اترے کہ رہتی دنیا تک یہ سلسلہ جاری و ساری رہے گا بے

** ولادت حضرت اسماعیل علیہ السلام **


سرّ ابراہیم و اسماعیل بود

یعنی آن اجمال را تفصیل بود


اللہ تعالیٰ کے مقدس پیغمبر حضرت ابراہیم علیہ السلام بڑے جلیل القدر اور عظیم المرتب رسول ہیں۔ آپ کا لقب خلیل اللہ ہے۔
آپ نے پرچم توحید کی سر بلندی کے لئے نمرود جیسے خدائی کا دعویٰ کرنے والے طاغوت سے جہاد فرمایا۔اور آگ کے بھڑکتے ہوئے شعلوں میں بے خطر کود پڑے۔
آپ کعبہ کے بانی آور ابو الانبیاء ہیں۔
خدا کی شان کہ بہت عرصے تک آپ کے گھر میں کوئی فرزند نہیں تھا اور آپ فرزند صالح کی تمنا میں بار بار رب کریم کے دربار میں دعائیں مانگتے رہتے اور اس طرح عرض کرتے تھے۔۔۔

رب ھب لی من الصالحین°


"اے پروردگار ! مجھے نیک بیٹا عطا فرما"

درد مند دل سے اخلاص کے ساتھ مانگی ہوئی آپ کی دعا اللہ کی جناب میں مقبول ہوئی۔۔
اور اللہ نے بڑھاپے میں آپ کی زوجہ محترمہ حضرت ہاجرہ کے بطن سے آپ کے فرزند ارجمند حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیدا فرمایا۔

جو بچہ بڑی دعاؤں اور تمناؤں کے بعد ملا ہو گا وہ ماں باپ کی نظر میں کتنا عزیز اور کس قدر محبوب اور پیارا ہوگا۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنے اس فرزند جمیل و جلیل سے بہت زیادہ محبت کرنے لگے۔


 حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت ابراہیم کے بیٹے تھے- آپ کی پیدائش سے قبل کے حالات یوں بیان کئے گئے ہیں-

مفسرین و مورخین کے مطابق حضرت ابراہیم اپنی بیوی حضرت سارہ، کنیز حضرت ہاجرہ علیہما السلام اور خدمائ و سامان کے ساتھ جب فلسطین جا کر آباد ہوئے تو اُس وقت بہت آسودہ حال تھے لیکن بے اولاد -
 وہاں آپ ایک ’’خانہ ذاد الیعرذد‘‘ دمشقی کے گھر مقیم ہو گئے۔۔۔۔۔

 آپ کی بیوی حضرت سارہ علیہا السلام عمر رسیدہ تھیں- ان سے اولاد کی امید نہ تھی جبکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اولاد کے شدت سے خواہش مند تھے-
حضرت سارہ علیہا السلام کو جب آپ کی خواہش کا علم ہوا تو ایک روز آپ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ اولاد کے لئے بافا، تابع ، امین، نوعمر اور حسین و جمیل کنیز حضرت ہاجرہ سے شادی کر لیں تاکہ تنہائی و وحشت کا خاتمہ ہو جائے اور اولادِ نرینہ کی تمنا بھی پوری ہو جائے-
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو یہ تجویز پسند آئی اور آپ نے حضرت ہاجرہ سے نکاح کر کے اولاد کے لئے دعا کی -
دعا قبول ہوئی اور حضرت ہاجرہ حاملہ ہوگئیں-

جب حضرت سارہ علیہا السلام کو پتہ چلا تو بتقاضائے انسانیت حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے رشک کرنے لگیں، اور انہیں تنگ کرنا شروع کر دیا اور قسم کھائی کہ حضرت ہاجرہ کے تین اعضاء کاٹ دیں گی-
بعض کتب میں ہے کہ حمل ٹھہرنے کی وجہ سے حضرت ہاجرہ علیہا السلام حضرت سارہ علیہا السلام کی صحیح طرح سے خدمت نہ کر سکیں جس وجہ سے حضرت سارہ علیہا السلام نے حضرت ہاجرہ کو تنگ کرنا شروع کر دیا اور تین اعضاء کاٹنے کی قسم کھائی-
مجبوراً حضرت ہاجرہ علیہا السلام آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلی گئیں-
تورات کے مطابق اللہ کے فرشتے نے آپ کو واپس جانے اور حضرت سارہ علیہاالسلام کی اطاعت کا حکم دیا اور ساتھ ہی بیٹے کی پیدائش کی خوشخبری دی -
حضرت ہاجرہ علیہا السلام واپس آگئیں تب حضرت ابرہیم علیہ السلام نے حضرت سارہ علیہا السلام سے کہا کہ حضرت ہاجرہ علیہا السلام سے دل صاف کریں اور ان کے کانوں اور ناک میں سوراخ کر دیں اور اندام نہانی کا کچھ حصہ کاٹ دیں-
لہٰذا آپ نے ایسا ہی کیا اور قسم پوری کر دی- حضرت ہاجرہ علیہا السلام نے کانوں میں بالے ڈال لیے جس کے سبب وہ پہلے سے زیادہ خوبصورت دکھائی دینے لگیں اور تب سے یہ عمل خواتین میں جاری ہو گیا ۔۔

وقتِ مقررہ پر حضرت اسماعیل علیہ السلام حضرت لوط علیہ السلام کے محل کے قریب پیدا ہوئے -
 آپ کی پیدائش پر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی درازیٔ عمر کی دعا مانگی تو تورات کے مطابق اللہ تعالیٰ نے دعا کی قبولیت کی خوشخبری سنائی اور بتایا کہ وہ اُسے
 ﴿ حضرت اسماعیل علیہ السلام کو﴾ برکت دے گا، اُسے آبرومند کرے گا اور اس کی نسل کو بڑھائے گا جس میں سے بارہ سردار ہوں گے -

تورات کی معلومات کے برعکس قرآن پاک میں حضرت اسماعیل علیہ السلام کی ولادت کا کوئی واضح بیان نہیں ملتا -
اس سلسلے میں جتنی بھی تفصیلات ملتی ہیں انحصار، تورات کے بیان کردہ واقعات ہیں یا پھر تاریخی رعایات وغیرہ-
اکثر مورخین نے آپ کی پیدائش کے بارے میں تفصیلات انہی ذرائع سے حاصل کی ہیں- البتہ قرآن مجید آپ کا تعارف ایک سچے اور وعدے کے پکے نبی کی حیثیت سے کرواتا ہے-

﴿وَاذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّ ہ، کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا﴾ ﴿مریم : ۴۵﴾

’’اور کتاب میں اسماعیل کو یاد کرو بے شک وہ وعدے کا سچا تھا اور رسول تھا۔"

حضرت سارہؓ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کی پہلی بیوی تھیں۔ اس لئے حضرت ہاجرہؓ کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السّلام کی پیدائش ان پر بہت شاق گزری اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السّلام سے بہت اصرار کیا کہ حضرت ہاجرہؓ اور ان کے بیٹے کو یہاں سے دور کر دو تا کہ یہ لوگ میری نگاہ کے سامنے نہ رہیں۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام کو یہ بات بہت ناگوار گزری مگر بارگاہِ الٰہی سے جب حکم ہُوا کہ بی بی ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو عرب کے ریگستان میں چھوڑ دیا جائے تو حضرت ابراہیم علیہ السّلام حضرت ہاجرہؓ اور حضرت اسماعیل علیہ السّلام کو اس جگہ لے آئے جہاں اب کعبہ ہے۔ اس زمانے میں یہ جگہ بالکل غیر آباد تھی۔

** فاران کے بیابانوں میں **


عرب کی بیابان وادیوں، لَق و دَق بے آب و گیا صحرائوں کو عبور کرتا، دو افراد اور ایک نومولود بچّے پر مشتمل مختصر سا قافلہ، کالے سنگلاخ پہاڑوں کے درمیان ایک ایسے ٹیلے کے قریب پہنچا، جہاں ویرانے میں ایک بوڑھا صحرائی درخت نہ جانے کب سے اپنے مکینوں کے انتظار میں تنہا کھڑا تھا۔ اللہ کے عظیم المرتبت اور جلیل القدر پیغمبر، حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ نے اس درخت کے مختصر سے سایے کو غنیمت جانا اور اپنی فرماں بردار، نیک، چہیتی اہلیہ کو معصوم لختِ جگر سمیت اس درخت کے سایے میں بٹھا دیا۔ زادِ راہ قریب رکھا اور خاموشی سے واپس جانے لگے۔ جاں نثار اہلیہ حیران و پریشان ہو کر شوہر کی جانب لپکیں اور گویا ہوئیں۔۔۔
’’ اے ابراہیمؑ! اس ویرانے میں ہمیں چھوڑ کر، جہاں زندگی کا نام و نشان تک نہیں، کہاں جارہے ہیں؟‘‘

 حضرت حاجرہؑ شوہر کے دامن کو پکڑ کر بار بار التجائی انداز میں سوال کرتی رہیں،
 لیکن حضرت ابراہیم علیہ السّلام خاموش رہے۔

حضرت حاجرہؑ جانتی تھیں کہ پیغمبروں کا ہر عمل، اللہ کے حکم کے تابع ہوتا ہے، اس لیے فرمایا’’۔۔۔۔
 اے اللہ کے نبیؐ! کیا یہ حکمِ الٰہی ہے؟‘‘
 حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا ’’ہاں‘‘۔
یہ سُن کر حضرت حاجرہؑ کو اطمینان ہوگیا اور پُرعزم لہجے میں کہا’’ ۔۔۔

"تو پھر مجھے یقینِ کامل ہے کہ اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔‘‘ "
اور پھر ارض و سما نے دیکھا کہ اللہ نے اپنی برگزیدہ بندی اور اُس کے معصوم گوشۂ جگر کے لیے نہ صرف زَم زَم کے چشمے کو جاری فرمایا، بلکہ اُس سنسان ویرانے میں دنیا کا سب سے عظیم اور مقدّس شہر، ’’مکّہ‘‘ آباد کر کے اُن کی اس قربانی کو رہتی دنیا تک کے لیے قربِ الٰہی کا ذریعہ بنادیا۔

 بے آب و گیاہ پہاڑوں کا سلسلہ دور دور تک پھیلا ہوا ہے اور جہاں تک انسانی نظر کام کرتی ہے وہاں تک سبزہ کا نام و نشان تک نہیں یہ اللہ کے پیارے خلیل اللہ اپنے لختِ جگر حضرت اسمعیل کو جو ابھی والدہ کی گود میں ہیں ان کی والدہ حضرت ہاجرہ سمیت اس وادی میں چھوڑ جا رہے ہیں۔

حضرت ہاجرہ نے عرض کیا ۔۔۔۔
حضور یہ کس جرم کی سزا ہے آپ خلیل اللہ نے ان کے کسی بھی سوال کا کوئی بھی جواب نہیں دیا پھر کچھ دیر بعد حضرت ہاجرہ خود بولیں کہ ۔۔۔۔

"کیا یہ اللہ کا حکم ہے"
 تو پھر اس پر خلیل اللہ نے فرمایا
 ہاں۔۔۔۔!!
 ہاجرہ یہ اللہ کا ہی حکم ہے

اتنا سننے کے بعد حضر ت ہاجرہ نے فرمایا ۔۔۔۔

"تو پھر ہمیں کوئی غم نہیں اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا ''

سحر کے وقت ابراہیم نے اٹھ کر دعا مانگی،

سکون قلب مانگا، خوئے تسلیم ورضا مانگی،


کہ اے مالک عمل کو تابع ارشاد کرتا ہوں،

میں بیوی اور بچے کو یہاں آباد کرتا ہوں،


اسی سنسان وادی میں انہیں روزی کا ساماں دے،

اسی بے برگ وسامانی  میں شان صد  بہاراں دے،


الہیٰ نسل   اسمعیل  بڑھ  کر  قوم  ہو جائے،

یہ قوم ایک روز پابند صلواۃ و صوم ہو جائے،


اسی  وادی میں  تیرا  ھادی  موعود   ہو  پیدا،

کرے جو فطرت انسان  کو تیرے  نام پر شیدا،


بشارت تیری سچی ہے  تیرا وعدہ  بھی سچا ہے،

پس اب تو ہی محافظ، لے یہ بیوی ہے یہ بچہ ہے،



کچھ دور جا کر حضرت خلیل اللہ نے دونوں ہاتھ اللہ کی بارگاہ میں اٹھائے اور عرض کی ،،،

''اے میر ے رب !! میں نے اپنی اولا د ایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ،، تیرے حرمت والے گھر کے پاس،،
 اے ہمارے رب ! اسلئے کے وہ نماز قائم رکھیں تو لوگوں کے دل ان کی طرف مائل کر دے اور پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان فرمائیں۔""

حضرت خلیل اللہ نے یہ تین دعائیں کیں۔۔
 روایت میں آ تا ہے کہ ۔۔۔
حضرت ابراہیم خلیل اللہ اپنی اہلیہ حضرت بی بی ہاجرہ اور شیر خوار بیٹے حضرت اسمعیل کو جب اس بے آب و گیاہ مقام پر اللہ تعالی ٰ کے سپرد چھوڑے جا رہے تھے تو وہ اس وقت چلتے چلتے پانی کا ایک مکشیزہ ان کے نزدیک رکھ گئے تھے اور یہ مختصر سا کھا نا پانی آخر کب تک چلتا بالا خر ختم ہی ہوگیا تو حضرت بی بی ہاجرہ کو شدید تشویش ہوئی کہ ان کی گود میں معصوم پھول سا ننھا منا سا بچہ تھا وہ بچے کو پیارے سے دیکھتیں تو جی بھر آتا دوردور تک پانی کا نام و نشان تک نہ تھا ۔
ان سے بچے کی پیاس دیکھی نہ گئی وہ شیر خوار بچے کو زمین پر لیٹا کر اس کے لئے پانی کی تلاش میں بے قرار ہو گئیں قریب ایک پہاڑی پر گئیں تاکہ انہیں کہیں سے پانی مل جائے مگر بے سود پانی کہیں نظر نہیں آ یا اور پھر واپس بچے کے پاس آئیں تو بچے کا پیاس سے برا حال تھا۔

پھر دوسری پہاڑی پر چڑھیں مگر وہاں بھی مقصد حاصل نہ ہو ا یہ دونوں پہاڑیاں جنہیں صفا اور مروہ کہا جاتا ہے وہ ان دونوں پہاڑیوں کے درمیان دورتی رہیں یوں وہ(ہاجرہ) ان کے درمیان سات مرتبہ دوڑیں ۔ لیکن پانی کا کوئی نام و نشان نظر نہ آیااس دوران اللہ تعالیٰ کی رحمت اپنے خلیل کی اہل خانہ کی بے تابی دیکھ کر جوش میں آگئی اور جب آخری مرتبہ حضرت بی بی ہاجرہ بچے کے پاس آئیں تو عجیب منظر دیکھا کہ شیر خوار حضرت اسمعیل کی ایڑیاں رگڑنے کے مقام سے وہاں پر پانی کا ایک صاف چشمہ جاری ہے حضرت بی بی ہاجرہ کی اس پانی کے اچانک ظاہر ہونے سے خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی اور وہ فوراً اللہ تعالی ٰ کا شکر بجا لائیں اور پھر خیال آیا کہ اب اس بڑھتے ہوئے پانی کو روکنا چاہئے۔

چنانچہ بی بی ہاجرہ نے اس کے ارد گرد رکاوٹ بنائی پانی کو روکتے ہوئے حضرت بی بی ہاجرہ نے زم زم (یعنی ٹہرجا ) کہہ کر بے تحاشہ بہتے ہوئے پانی کے چشمے کو روک دیا۔
زم زم رک جانے کو کہتے مگر آ ج ہم زم زم اس پانی کو کہتے ہیں جسے دنیا کے کڑوڑ وں لوگ بطور تبرک پیتے اور لے جاتے ہیں اگر چہ اسے آج بہتے ہوئے چارہزار سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے یہ چشمہ پہلے روز کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے اور اب تو اس پانی کو نکالنے کے لئے ٹیوب ویل جیسے جدید مشینری اور آلا ت بھی نصب کئے گئے ہیں۔

اس پانی کو پینے والوں کا اتنا ہجوم رہتا ہے کہ باری نہیں آتی مگر اس متبرک چشمے سے مبارک پانی کبھی ختم نہیں ہوا تا قیامت جاری و ساری رہے گا ۔۔۔
پیارے  آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ ۔۔۔۔

" اگر حضرت ہاجرہ اس پانی کو زم زم نہ کہتی تو یہ پانی ساری کائنا ت کی ہر ضرورت کو پورا کرنے کے لئیکافی ہوتا ۔"

یہی صفا و مروہ ہے جہاں حاجیوں کے لئے ضروری ہیکہ وہی طریقہ اختیار کریں جو حضرت ہاجرہ نے کیا اور یوں اللہ تعالیٰ نے حضرت ہاجرہ کی سنت کو ہمیشہ کے لئے باقی رکھا پھر اللہ تعالی ٰ نے ان پہاڑوں کو شعائر اللہ قرار دیا اور پھر اس بے آب و گیاہ کے درمیان زندگی کے اثار نمودار ہوئے اور آج یہ وادی حضرت ابراہیم کی دعاؤں کی بدولت حسین و خوبصورت وادی میں تبدیل ہوگئی ہے آپ اندازہ کریں کہ آج سے تقریباً چار ہزار سال گزر چکے ہیں۔

مگر یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی دعاؤں کا ہی اثر ہے کہ
 جو فروٹ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتا وہ مکّہ شریف میں موجود ہے۔۔۔
 قلب میں کھچے چلے آتے ہیں ۔
 اسی طرح جب حضرت اسماعیل علیہ السلام بلوغت کے قریب پہنچ گئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم سے  حضرت اسماعیل کی قربانی طلب فرمائی۔۔۔


** حضرت ابراہیم علیہ السّلام کا خواب **


13 سال کا طویل عرصہ پَلک جھپکتے ہی گزر گیا۔
ننّھا، کم زور اسماعیلؑ، مکّے کی پاکیزہ فضائوں، زَم زَم کے مقدّس پانی اور صبر و شُکر کی پیکر، عظیم ماں کی آغوشِ تربیت میں پروان چڑھتا ہوا ایک خُوب صورت، کڑیل نوجوان کے رُوپ میں اپنے 100سالہ بوڑھے باپ کا سہارا بننے کے لیے تیار تھا کہ ایک رات، حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے لختِ جگر کو اپنے ہاتھوں سے ذبح کررہے ہیں۔ صبح اٹھے، تو بڑے مضطرب اور پریشان تھے۔ دِل کو تسلّی دی کہ شاید یہ کوئی شیطانی وسوسہ ہو؟
دوسری رات پھر وہی خواب، وہی قربانی کا منظر… بیدار ہوئے، تو اضطرابی کیفیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔
یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے؟
لیکن ،پھر خیال آیا کہ کہیں یہ حکمِ الٰہی تو نہیں؟
تیسری رات، جب پھر وہی قربانی کا منظر دیکھا، تو یقینِ کامل ہوگیا کہ یہ حکمِ الٰہی ہے اور ویسے بھی نبیوں کے خواب سچّے اور پیغامِ خداوندی ہی ہوتے ہیں۔
 چناں چہ، بیٹے اسماعیلؑ کو خواب کی کیفیت سے آگاہ کیا۔

اللہ نے اس واقعے کا ذکر قرآنِ پاک میں یوں فرمایا ہے۔۔۔
’’اے بیٹا! مَیں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) مَیں تم کو ذبح کررہا ہوں۔ تو تمہارا کیا خیال ہے؟ (اطاعت شعار بیٹے نے سرِ تسلیمِ خَم کرتے ہوئے مؤدبانہ لہجے میں فرمایا) ابّا! جو آپ کو حکم ہوا ہے، وہی کیجیے۔ اللہ نے چاہا، تو آپ مجھے صابروں میں پائیں گے،
(سورۃ الصٰفّٰت، 102:37) ۔

حضرت اسماعیل علیہ السّلام کا یہ سعادت مندانہ جواب، دنیا بھر کے بیٹوں کے لیے آدابِ فرزندگی کی ایک شان دار مثال ہے۔ اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی اس کیفیت کو علّامہ اقبالؒ نے یوں بیان کیا

؎ یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی…
سِکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی۔

**  منیٰ کی جانب سفر اور شیطان کا ورغلانا**

حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے بیٹے کا جواب سُنا، تو اُنہیں سینے سے لگایا اور حضرت حاجرہؑ کے پاس لے آئے۔ فرمایا.....

’’ اے حاجرہؑ! آج ہمارے نورِ نظر کو آپ اپنے ہاتھوں سے تیار کردیجیے۔  آج آپ کے بیٹے کی ایک بہت بڑے اور عظیم شہنشاہ کے دربار میں دعوت ہے‘‘


ممتا کے مقدّس، شیریں اور اَن مول جذبوں میں ڈوبی ماں نے اپنے اکلوتے بیٹے کو نئی پوشاک پہنائی، آنکھوں میں سرمہ، سَر میں تیل لگایا اور خوش بُو میں رچا بسا کر باپ کے ساتھ باہر جانے کے لیے تیار کردیا۔
اس اثنا میں حضرت ابراہیم علیہ السّلام بھی ایک تیز دھار چُھری کا بندوبست کرچکے تھے۔ بیٹے کو ساتھ لے کر مکّہ سے باہر منیٰ کی جانب چل دیے۔ شیطان نے باپ، بیٹے کے درمیان ہونے والی گفتگو سُن لی تھی۔ اُس نے جب صبر و استقامت اور اطاعتِ خداوندی کا یہ رُوح پرور منظر دیکھا، تو پریشان ہوگیا اور اُس نے باپ، بیٹے کو اس قربانی سے باز رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
چناں چہ، جمرہ عقبیٰ کے مقام پر راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے ساتھ موجود فرشتے نے کہا۔۔۔۔۔۔

’’ یہ شیطان ہے، اسے کنکریاں ماریں‘‘،


حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے’’ اللہ اکبر‘‘ کہہ کر اُسے سات کنکریاں ماریں، جس سے وہ زمین میں دھنس گیا۔ ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ جمرہ وسطیٰ کے مقام پر پھر ورغلانے کے لیے آموجود ہوا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام
 نے پھر اُسی طرح کنکریاں ماریں، وہ پھر زمین میں دھنسا، لیکن ابھی آپؑ کچھ ہی آگے بڑھے تھے کہ وہ جمرہ اولیٰ کے مقام پر پھر موجود تھا۔
حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے تیسری بار ’’اللہ اکبر‘‘ کہہ کر کنکریاں ماریں اور وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔

(اللہ تبارک وتعالیٰ کو ابراہیم خلیل اللہؑ کا شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل اس قدر پسند آیا کہ اُسے رہتی دنیا تک کے لیے حاجیوں کے واجبات میں شامل فرمادیا)۔

** حضرت حاجرہؑ کو ورغلانے کی کوشش**


شیطان اپنی ناکامی پر بڑا پریشان تھا۔ تینوں مرتبہ کی کنکریوں نے اُس کے جسم کو زخموں سے چُور کردیا تھا۔ اچانک اُسے ایک نئی چال سوجھی اور وہ عورت کا بھیس بدل کر بھاگم بھاگ حضرت حاجرہؑ کی خدمت میں پہنچ گیا اور بولا......

’’ اے اسماعیل( علیہ السّلام) کی ماں! تمہیں علم ہے کہ ابراہیمؑ تمہارے لختِ جگر کو کہاں لے گئے ہیں؟
 حضرت حاجرہؑ نے فرمایا......
’’ ہاں، وہ باہر گئے ہیں، شاید کسی دوست سے ملنے گئے ہوں۔‘‘

عورت کے رُوپ میں شیطان نے سَر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا،
’’ اللہ کی بندی! وہ تیرے بیٹے کو ذبح کرنے وادیٔ منیٰ لے گئے ہیں۔‘‘
حضرت حاجرہؑ نے حیرت اور تعجب کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا....

’’ یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک شفیق اور مہربان باپ اپنے چہیتے اور اکلوتے بیٹے کو ذبح کردے؟‘‘ اس پر شیطان کے منہ سے بے ساختہ نکلا.....

’’ یہ سب وہ اللہ کے حکم پر کررہے ہیں۔‘‘


یہ سُن کر صبر و شُکر اور اطاعت و فرماں برداری کی پیکر، اللہ کی برگزیدہ بندی نے فرمایا........

" اگر یہ اللہ کا حکم ہے، تو ایک اسماعیلؑ کیا، اس کے حکم پر تو 100 اسماعیلؑ قربان ہیں۔‘‘

اللہ نے باپ ، بیٹے کی قربانی قبول فرمالی
شیطان نامُراد ہوکر واپس منیٰ کی جانب پلٹا، لیکن وہاں کا ایمان افروز منظر دیکھ کر اپنے سَر پر خاک ڈالنے اور چہرہ پیٹنے پر مجبور ہوگیا۔

وادیٔ منیٰ کے سیاہ پہاڑ، نیلے شفّاف آسمان پر روشن آگ برساتا سورج، فلک پر موجود تسبیح و تہلیل میں مصروف ملائیکہ، اللہ کی راہ میں اپنی متاعِ عزیز کی قربانی کا محیّر العقول منظر دیکھنے میں محو تھے۔ مکّہ سے آنے والی گرم ہوائیں بھی منیٰ کی فضائوں میں موجود عبادت و اطاعت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر کی ایک عظیم داستان رقم ہوتے دیکھ رہی تھیں۔

روایت میں آتا ہے کہ جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ کو لیٹنے کی ہدایت کی، تو حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا،
"’ ابّا حضور! مَیں پیشانی کے بَل لیٹتا ہوں تاکہ آپ کا چہرہ مجھے نظر نہ آئے اور آپؑ بھی اپنی آنکھوں پر پٹّی باندھ لیں تاکہ آپ ؑمجھے ذبح کررہے ہوں، تو شفقتِ پدری کے جذبے کا امرِالٰہی پر غالب آنے کا امکان نہ رہے۔‘‘

صبر و استقامت کے کوہِ گراں والد نے گوشۂ جگر کی بات پر عمل کیا اور جب اسماعیلؑ لیٹ گئے، تو تکمیلِ احکامِ خداوندی میں تیز دھار چُھری پوری قوّت کے ساتھ لختِ جگر کی گردن پر پھیر دی۔

زمین سہمی پڑی تھی،، آسماں ساکن تھا بیچارہ

تسلیم ورضا کا یہ عدیم المثال منظر آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا ہوگا۔

آسمان تھرا گیا تھا لمحے ساکن ہو چکے تھے عرش پر ہلچل مچ چکی تھی گھڑیاں تھم چکی تھیں،،،

تیز چھری حضرت اسماعیل علیہ السلام کے حلقوم پر پہنچ کر کند ہوگئی۔ چھری نے حلقوم اسماعیل پر چلنے سے انکار کر دیا۔

دو مرتبہ ایسا ہی ہوا تیز چھری حلقوم اسماعیل علیہ السلام پر پہنچ کر کند ہو جاتی۔۔۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے جوش غضب میں چھری کو ایک پتھر پر دے مارا،،،،
پتھر کو چھری نے دو ٹکروں میں تقسیم کر دیا۔

ابراہیم علیہ السلام نے چھری سے کہا،،

" تو نے پتھر جیسی سخت چیز کو دو ٹکرے کر دیا، مگر میرے اسماعیل کا گلا تو ریشم سے بھی نرم تھا۔ تو اس پر کیوں نہیں چلی۔ "

چھری نے زبان حال سے عرض کی۔۔

" اے ابراہیم علیہ السلام ! میں کیا کروں؟

اگر ایک مرتبہ مجھ سے خدا کا خلیل کہتا ہے کہ کاٹ۔۔۔۔ تو ستر مرتبہ

رب  جلیل فرماتا ہے۔۔۔ مت کاٹ،

جب خلیل خود رب جلیل کا حکم مان کر بیٹے کو لٹائے بیٹھا ہے تو میں اپنے رب کے حکم سے کیسے انکار کر سکتی ہوں۔ "


بالآخر حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام کے اس جذبہ اخلاص و ایثار پر رحمت پروردگار کو ایسا پیار آگیا کہ حضرت جبریل امین کو یہ حکم دیا کہ۔۔۔

"اے جبرائیل علیہ السلام! جنت سے ایک مینڈھا ( دنبہ) لا کر اسماعیل علیہ السلام کی جگہ لٹادو اور اسماعیل علیہ السلام کو اٹھا کر ان کے ہاتھ پاؤں کی رسیاں کھول دو۔"

چنانچہ حضرت جبریل امین نے ایک بہشتی مینڈھا لا کر لٹا دیا اور خدا وند قدوس نے حکم دیا،
" اے ابراہیم! اب چھری چلاؤ"

 چنانچہ اب کی مرتبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا تو چھری چل گئی اور عظیم قربانی ہوگئی۔
مگر جب آنکھوں سے پٹی کھول کر دیکھا تو
یہ عجیب منظر نظر آیا،

کہ ایک نہایت فربہ دنبہ ذبح ہوا پڑا ہے اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ایک طرف کھڑے مسکرا رہے ہیں۔

اس وقت جبرائیل امین نے اللہ اکبر، اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے لا الہ الااللہ واللہ اکبر پڑھا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ اکبر واللہ الحمد کا کلمہ ادا فرمایا۔
اور ادھر اللہ تبارک وتعالی کی بارگاہ اقدس سے یوں آواز آئی، جیسا کہ قرآن کریم میں ہے۔

"  اور ہم نے پکارا اے ابراہیم !
بیشک تم نے خواب کو سچ کر دکھایا، بیشک ہم نیکو کاروں کو یوں ہی اجر عطا فرما تے ہیں، درحقیقت یہ بہت بڑا امتحان تھا اور ہم نے ایک بہت بڑا ذبیحہ دے کر انہیں بچالیا اور ہم نے ان کا ذکر خیر بعد میں آنے والوں میں باقی رکھا۔ ابراہیم علیہ السلام پر ہمارا سلام ہو۔ "
(سورہ الصافات)

اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم خلیل اللہ اور اسماعیل ذبیح اللہ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ قیامت تک جانور ذبح کر کے اس کی یاد تازہ کی جاتی رہے گی۔

 حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ اور حضرت اسماعیل ذبیح اللہؑ کے اس بے مثال جذبۂ ایثار، اطاعت و فرماں برداری، جرأت و استقامت، تسلیم و رضا اور صبر و شُکر پر مُہرِ تصدیق ثبت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے قرآنِ پاک میں فرمایا ۔۔۔۔۔

’’ اور ہم نے (اسماعیل کے) فدیے کو ایک عظیم قربانی بنایا۔‘‘
اللہ ربّ العزّت کو اپنے دونوں برگزیدہ اور جلیل القدر بندوں کی یہ ادا اس قدر پسند آئی کہ اسے اطاعت، عبادت اور قربِ الٰہی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے قیامت تک کے لیے جاری و ساری فرمایا۔

چناں چہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔۔۔۔۔

’’ اور ہم نے بعد میں آنے والوں کے لیے ابراہیمؑ کا ذکر (خیر باقی) چھوڑ دیا
(سورۃ الصٰفّٰت، 108:37)۔

** قربانی کا مقصد**


قربانی کا مقصد محض جانوروں کا ذبیحہ، اُن کا خون بہانا اور گوشت تقسیم کرنا یا نمود و نمائش نہیں، بلکہ یہ رُوح کی پاکیزگی، دِلوں میں ایمان کی تازگی اور تجدیدِ عہد کا نام ہے کہ ہمارا ہر عمل بہ شمول جینا مرنا، حتیٰ کہ پوری زندگی اللہ کی رضا کے لیے وقف ہے اور یہ ہی درحقیقت ایمان کا تقاضا، بندگی کی حقیقی علامت اور سنّتِ ابراہیمی کی پیروی کا مقصد و منشا ہے۔

**ہر امت کے لئے قربانی **


للہ تعالیٰ قرآن مجید سورة الحج میں ارشاد فرماتے ہیں:۔

”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے تاکہ وہ اللہ کا نام لیں ، ان جانوروں پر جو ہم نے ان کو عطا کئے ہیں“

    قرآن مجید میں قربانی کیلئے تین لفظ آئے ہیں۔
ایک نسک۔۔۔۔
  دوسرا نحر ۔۔۔۔
تیسرا قربان ۔

نسک۔۔۔۔۔۔۔


یہ لفظ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے کہیں عبادت، کہیں اطاعت اور کہیں قربانی کے لئے جیسے سورہ حج کی آیت 34 میں فرمایا

”اور ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کر دی ہے“

    یہاں یہ لفظ جانور کی قربانی کے لئے ہی آ رہا ہے کیونکہ اس کے فوراً بعد
 من بھیمتہ الانعام
 کا لفظ ہے یعنی
ان چوپایوں پر اللہ کا نام لے کر قربانی کریں ،
جو اللہ نے ان کو عطاءکئے۔

 دوسرا لفظ قربانی کے لئے قران مجید میں نحر کا آیا ہے جو سورة الکوثر میں ہے:۔

”یعنی اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی کریں“

    اور قربانی کا لفظ قرآن مجید میں سورہ مائدہ کی 27ویں آیت میں آیا ہے جہاں حضرت آدمؑ کے دونوں بیٹوں ہابیل اور قابیل کے واقعہ کا ذکر ہے۔

”یعنی آپ ان لوگوں کو آدم کے دو بیٹوں کا سچا واقعہ سنائیے کہ جب دونوں نے قربانی کی تو ان میں سے ایک کی قربانی قبول ہوئی اور دوسرے کی قبول نہ ہوئی“

    ہم اردو میں لفظ قربانی ہی عام طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسلامی اصطلاح میں قربانی کا ایک خاص مفہوم ہے جس کا تذکرہ امام راغب اصفہانی نے مفردات القرآن میں فرمایا ہے کہ:۔

”یعنی قربانی ہر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کیا جائے، چاہے وہ جانور ذبح کرکے ہو یا صدقہ و خیرات کرکے۔

چنانچہ عرف عام میں قربانی کا لفظ جانور کی قربانی کے لئے بولا جاتا ہے۔
 قرآن حکیم کے مطابق کسی حلال جانور کو اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے ذبح کرنا آدمؑ ہی کے زمانے شروع ہوا۔

قرآن مجید کے مطابق پہلے انبیاءکے دور میں قربانی کے قبول ہونے یا نہ ہونے کی پہچان یہ تھی کہ جس قربانی کو اللہ تعالیٰ قبول فرما لیتے تو ایک آگ آسمان سے آتی اور اس کو جلا دیتی۔
اسی لئے موسیٰ علیہ السلام نے امت محمدیہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔۔۔
" یہ امت بڑے نصیب والی ہے تورات میں اس کا تذکرہ یوں ملتا ہے کہ ان کی قربانی یہ خود اور ان ہی میں سے لوگ کھائیں گے۔"

جب رسول اللہ نے مدینہ طیبہ میں مقیم یہودیوں کو ایمان لانے کی دعوت دی تو
سورہ آل عمران کی آیت 183میں بیان فرمایا کہ انہوں نے کہا:۔

”یعنی اللہ تعالیٰ نے ہم سے یہ طے کر لیا ہے کہ ہم کسی رسول پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک کہ وہ ہمارے پاس ایسی قربانی نہ لائے جسے آگ کھا لے“

     یہ یہودکی انتہائی غلط بیانی تھی،،،

 لیکن امت محمدیہ پر اللہ تعالیٰ کا یہ خاص انعام ہے کہ قربانی کا گوشت ان کے لئے حلال کر دیا گیا لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت فرما دی کہ قربانی کا مقصد اور اس کا فلسفہ گوشت کھانا نہیں بلکہ ایک حکم شرعی کی تعمیل اور سنت ابراہیمی ؑ پر عمل کرتے ہوئے ایک جان کو اللہ کی راہ میں قربان کرنا ہے۔

چنانچہ واضح الفاظ میں فرمایا:۔

”یعنی اللہ کے پاس ان قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اور نہ خون پہنچتا ہے بلکہ تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے“

    یعنی قربانی کا گوشت کھانا کوئی مقصد نہیں بلکہ سنت ابراہیمی پر عمل کرتے ہوئے خالص اللہ کے لئے جان قربان کرنا اصل مقصد ہے۔

 قرآن حکیم میں ارشاد ہوا:

”یعنی جب ابراہیمؑ کا بیٹا اسماعیل ؑاس قابل ہو گیا کہ باپ کے ساتھ چل کر ان کے کاموں میں مدد گار بن سکے تو حضرت ابراہیمؑ نے کہا:

" اے میرے پیارے بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں، بتاﺅ کہ تمہاری کیا رائے ہے؟ "

سعادت مند بیٹا بھی تو خلیل اللہ کا بیٹا تھا۔

کہنے لگے:

" ابا جان آپ وہ کام کر گزریں جس کا آپ کو حکم دیا گیا ہے۔ آپ انشاءاللہ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے۔

”جب باپ بیٹا قربانی کے لئے تیار ہو گئے اور باپ نے بیٹے کو قربان کرنے کے لئے چہرہ کے بل کروٹ پر لٹا دیا“

تو ارشاد باری تعالیٰ ہے:۔

”اے ابراہیم آپ نے خواب کو سچا کر دکھایا، اس کے ساتھ ہی ایک دنبہ حضرت اسماعیلؑ کے بجائے قربانی کے لئے نازل کر دیا“

    اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب پیغمبر ابراہیم خلیل اللہ کے اس عمل کو پسند فرما کر قیامت تک ان کی یاد کو زندہ رکھنے کے لئے قربانی ہر صاحب استطاعت پر واجب کر دی،
ابراہیم خلیل اللہ کے کارناموں میں سے جو چیزیں کسی خاص مقام کے ساتھ مخصوص ہیں وہ صرف ان مقامات پر حاجی حضرات کے لئے خاص کر دی گئیں، جس میں جمرات ( کنکریاں مارنا) اور صفا و مروہ کے درمیان چکر لگانا اور قربانی کرنا تمام امت مسلمہ کے استطاعت رکھنے والے افراد کے لئے واجب فرمایا۔

    ہمیں آج یہ سوچنا ہوگا کہ کیا ہم حکم خداوندی کہ احکامات کی پیروی نہ کرکے زندہ رہ سکیں گے ۔


قربانی جہاں ابراہیمی یادگار ہے وہاں سنت حبیب پروردگار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہے ۔

حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیں رسول اکرمْ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مدینے میں دس سال قربانی کرتے رہے۔۔۔۔

 ایک اور روایت میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قربانی ذبح فرما کر ارشاد فرمایا جس نے یہ عمل کیا ہماری سنت کو پا لیا۔

 کہا جاتا ہے کہ قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ خود انسان کی اور یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور ہر معاشرے نے اپنے اپنے مذہبی عقائد اور نظریات کے مطابق اسے اپنائے رکھا تاریخ انسان نے سب سے پہلی قربانی انسانِ اوّل حضرت ابو البشر سیدنا آدم کے دونوں بیٹوں نے پیش کی تھی۔

سورة المائدہ آیت نمبر 27 میں ارشاد حق سبحانہ ہے۔۔۔

''اور انہیں ادم کے دونوں بیٹوں کی خبر ٹھیک ٹھیک پڑھ سنائیے ! جب دونوں نے قر بانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گئی (اس دوسرے نے ) کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا (پہلے نے ) کہا(تو بلاوجہ ناراض ہوتا ہے) اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے۔"
 واضح رہے کہ اسلام کا تصور قربانی سب سے عمدہ پاکیزہ اعلیٰ اور افضل ہے اس کے نزدیک قربانی کا مقصد عیش و طرب اور خواہشاتِ نفسانی کی تکمیل اور محض جانور کا خون بہانا نہیں بلکہ اسلام نے اپنے متعلقین و منسلکین کو قر بانی کی صورت میں رضائے خداوخوشنودیِ مصطفی علیہ التحیة والثناء کے حصول کا بہترین طریقہ اور نفیس ترین طریقہ سیکھا دیا اور اسلام اور بانیٔ اسلام پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ۖ پر اپنا تن من دھن نثار کرنے کا بھی عمدہ ذیعہ بتا دیا جس کے واسطے سے مسلمانوں کے دلوں میں خدا کی عظمت اور حبیب خدا کی محبت پیدا ہوتی ہے حلوص اور ایثا ر کا جذبہ موجزن ہوتا ہے۔

مخلوق پر وری بندہ نوازی غم گساری اور ہمدردی کا ولولہ پیدا ہوتا ہے قربانی کا مقصد خدا کو منانا سنت ِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنانا طریقہ ٔ ابراہیمی کو بجا لانا اور شیطانی قوتوں کو خا ئب و خاسر بنانا ہے،

قربانی کے متعلق حکم خداوندی ہے کہ ترجمہ :

''ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کا نام لے کر ذبح کریں جو انہیں عنایت ہوئے ہیں''

 ایک اور جگہ قرا ن ِ مجید میں ارشادِ ربانی ہے کہ ۔۔۔۔
''اللہ تعالیٰ کو ان(جانوروں) کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے البتہ تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچتا ہے ۔۔۔۔۔"

اس آیتِ مبارکہ میں تقویٰ کا ذکر کرکے ارشاد فرمادیا کہ قربانی کے بارے میں تمہارا خلوص اور تقویٰ دیکھا جائے دل میں خلوص اور عمل میں تقویٰ کا رنگ جتنا زیادہ ہوگا۔

بارگاہِ ربوبیت میں قربانی کا شرف اتنا ہی زیادہ نصیب ہوگا لہذا خلوص اور تقویٰ کے متعلق ہر ممکن کوشش کرو۔۔۔
 ترمذی میں ہے کہ عاقل وہ ہے جو خدا کے لئے تقویٰ کرے اور اپنے نفس کا حساب لیتا رہے ۔۔

 حضرت ابو بکر صدیق کا قول ہے،،،،

"  بڑائی تقویٰ میں دولت توکل میں اور عظمت تواضع میں ہے۔"

 حضرت امام حسین کا قول ہے کہ۔۔۔۔

"  دانائیوں میں اعلیٰ درجے کی دانائی تقویٰ ہے اور کمزوریوں میں سب سے بڑی بد اخلا قی اور بدا عمالی ہے ۔"

 اسلام میں حرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں ۔

ان میں سے ایک ماہِ مبارکہ ذی الحجہ کا بھی ہے اور ذی الحجہ اسلامی سال کے مہینوں میں بارہویں مہینے کا نام ہے بے شک اس ماہِ مبارکہ میں عبادت و ذکر و ازکار کا رب کائنات اللہ رب العزت کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اجر و ثواب کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور اس با برکت مہینے میں اللہ رب العزت اپنے نیک بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے بالخصوص اس ماہِ مبارکہ کا شروع کا عشرہ ( پہلے دس دنوں ) کی فضیلت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ رب کائنات نے ان ایام کو قرآن مجید فرقانِ حمید میں ''ایام معلومات'' کہہ کر مخاطب کیا ہے
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے ۔۔۔۔

" اور اللہ کا نام لیں ، جانے ہوئے دنوں میں ''

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ''

" اور دس راتوں کی قسم اس سے ذی الحجہ کی راتیں مراد ہیں ''

 حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد مبارکہ ہے۔۔۔۔۔۔

 '' اس شخص کے لئے ہلاکت ہے ، جو ان دس دنوں کی بھلائی سے محروم رہا اور نویں ذی الحجہ کے روزے کا خیال رکھو کہ اس میں اس قدر بھلائیا ں ہیں کہ جن کا شمار نہیں ''

 ایک اور روایت ہے کہ حضور پرنور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔۔۔۔۔

 '' جس وقت عشرہِ ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اسے چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو مس نہ کرے یعنی کہ بال نہ کتروائے اور نہ ناخن کٹوائے۔۔۔۔۔۔اسی طرح ایک اور روایت میں آیا ہے کہ۔۔۔۔۔

" جو شخص ذی الحجہ کا چاند دیکھ لے اور اس کا قربانی کا ارادہ ہو تو نہ بال منڈوایا اور نہ ناخن ترشوائے ''


عظیم سنت ابراہیمی ہمیں اس بات کا درس دیتی ہے کہ ہم دین کی عظمت وسر بلندی، اسلام کی ترویج واشاعت، اعلائے کلمۃ اللہ، اسلام کی بقاء اورامت مسلمہ کے اتحاد کے لیے کسی بھی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کریں۔

بلاشبہ جذبہ قربانی کا شوق بارگاہ الٰہی میں ہمارے تقویٰ کا اظہار اور قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔

***********************************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...