علم کا مقصد حصول




* حصول علم کا مقصد *



علم کا مقصود اللہ تعالیٰ کی موافقت اور شیطان کی مخالفت ہے۔


ایسا علم اور عالم اللہ تعالیٰ کا دوست، وسیلہ نجات، مجلس نبی الحیات سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری میں پہنچانے والا ہے۔

علم کا مقصد اور مدعا کیسے حاصل ہو؟

آئیے سلطان باہو سے جواب طلب کرتے ہیں۔

آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں،

" سب سے پہلے معرفت توحید کا علم ضروری ہے، جب یہ علم حاصل ہو جائے گا اور بندہ اس پر استوار ہو جائے گا تو اس کے بعد شریعت کی باری آتی ہے۔ کیونکہ معرفت توحید کا علم اصل اور جڑ ہے اور علوم شریعت ٹہنیاں ہیں۔ انبیاء علیہم السلام توحید کی دعوت دیا کرتے تھے۔"




معلوم ہوا جب تک علم حاصل نہ ہو، اس وقت تک وحدت الہی حاصل نہیں ہوتی۔


اگر وحدت الہی حاصل نہ ہو تو وہ علم نہیں کیونکہ علم وہ ہے جو معلوم تک پہنچا دے۔

اگر معلوم تک رسائی نہ ہو تو وہ نہ ہی علم ہے اور نہ ہی عالم ہے۔

کیونکہ تمام علوم کا مقصود معرفت الہٰی ہے۔

تمام علوم کا مقصود اللہ کی معرفت و قرب و وصال حاصل کرنا ہے۔

حق باہو کا پیغام ہے

" اپنے تن پر شریعت کا لباس پہن کر شریعت میں کوشش کر، کیونکہ ہر عبادت اور ہر ثواب اللہ تعالیٰ کی معرفت اور قرب و وصال کا ذریعہ ہے۔

جو ہستیاں منبع فیض ہوتی ہیں وہ بظاہر نظروں سے اوجھل تو ہوتی ہیں مگر حقیقت میں زندہ رہتی ہیں۔


بقول اقبال

 جوہر انساں  فنا سے  آشنا   ہوتا  نہیں

نظر سے اوجھل تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں


اللہ کے ولی علم سکھانے والے، علم کی حقیقتوں سے پردہ اٹھانے والے کبھی نہیں ڈوبتے۔

احمد ندیم قاسمی کہتے ہیں،


کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا

علم ظاہر عبادت ہے اور عبادت باسعادت ہے۔  قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے 



" پس ہمارے بندوں میں سے ایک بندہ پایا جسے ہم نے اپنے پاس سے رحمت دی اور اسے اپنا علم لدنی عطا کیا"اللہ تبارک وتعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں جو علم حاصل کرتے ہیں۔ 




سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے


" مجھے میرے رب نے علم وادب سکھایا۔ یہ کتنی خوبصورت تعلیم ہے" 

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان مبارک اس تعلیم کے لئے جو بلواسطہ اپنے رب سے حاصل کی اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے احسن تعلیم قرار دیا۔ 

سورہ علق میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔

علم الانسان مالم یعلم

" انسان کو وہ علم سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا" 

انسان جو سبق اللہ تعالیٰ سے پڑھتا ہے اسے یاد رہتا ہے۔ یہ علم اسے مشاہدہ قلب عطا کرتا ہے اور سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حضوری نصیب ہوتی ہے۔ یہ علم عین صراطِ مستقیم ہے۔ یہ علم جوہر ایمان ہے اور یہی وہ علم ہے جس سے نفس و شیطان و دنیا پر غلبہ پایا جاسکتا ہے۔ اس قسم کے مراتب صاحب علم کو نصیب ہوتے ہیں۔ جاہل دین کی اس راہ پر نہیں چل سکتا۔ ۔

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔

" عالم اور جاہل برابر نہیں ہوسکتے"

اللہ تبارک وتعالیٰ کی معرفت اور پہچان کے لئے اس کے رازوں کو پانے کے لیے، الہامی کیفیت کے حصول کے لیے علم لدنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور یہ ضرورت مرشدِ کامل کے بغیر پوری نہیں ہوسکتی۔ مرشدِ کامل کی بارگاہ میں رہ کر ان سے فیوض و برکات حاصل ہوتے ہیں۔

حق باہو کا قول ہے۔۔۔۔۔

" لوح محفوظ دراصل لوح دل کی تحریر ہے عارفان الہی لوح دل کے مطالعے سے علم میں کمال حاصل کرتے ہیں۔" 





اصل حقیقت تو وہ علم ہے جس سے ہم قوم کو بنا اور سنوار سکیں۔ وہ علم جس سے قومیں بننے کے بجائے بگڑے اس کا کیا فائدہ ہے۔ علم کے ساتھ عمل بھی ضروری ہے۔  

علم وہ ہے جو معلوم یعنی حق تعالیٰ تک پہنچادے۔ ورنہ فرمانِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق " علم ہی سب سے بڑا حجاب ہے"  علم ایک پیغام ہے جس کا تعلق جاننے اور بیان کرنے سے ہے علم کے سہارے کبھی کوئی عالم صاحب دیدار نہیں ہوسکا۔ علم حروف کا مجموعہ ہے جو سطور اوراق میں نظر آتا ہے۔ علم معرفت نور ہے جہاں ذکر و فکر و شعور کی رسائی نہیں۔







سلطان العارفین کے ارشاد کے مطابق علم دو طرح کا ہے۔  ایک علم علم ظاہر ہے اس کا تعلق معاملات اور اقرار زبان سے ہے یہ علم رسمی رواجی طور پر پڑھنے پڑھانے سے حاصل ہوجاتا ہے۔ اس کا انحصار قیل و قال کی تحقیق پر ہے۔ دوسرا علم باطن کا علم ہے یہ معرفت الہٰی اور تصدیق قلب کا علم ہے یہ اللہ حیی و قیوم کا علم ہے جسے علم لدنی کہا جاتاہے۔ ۔ باطنی علوم کا مرکز دل ہے اور دل کو پاک کرنے کے لیے کثرت ذکر کی ضرورت ہے۔


بحیثیت مسلمان ہمارا مشن ہونا چاہیے کہ ہم اللہ کے دین کی تبلیغ کریں، صوفیائے کرام نے جو راہیں ہموار کی ہیں ان پر کام کریں۔ اور اپنا فرض پورا کریں۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

" تم وہ بہترین امت ہو جسے لوگوں کی اصلاح کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے۔"

ہمیں کچھ نہیں کرنا، بس دین مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اشاعت کرنی ہے، صوفیائے کرام کے پیغام کو آگے پہنچانا ہے۔

اور یہ ہم کر سکتے ہیں۔

آئیے اپنا حصہ لگائیں اور اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہو جائیں۔

**********************************************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...