کامیابی کی شاہراہ۔۔۔۔ باب ہفتم

                                               **مایوسی سے بچیں**

                                                                                                  اللہ تبارک وتعالیٰ کا کلام ایک اصول بتاتا ہے

”‏اگر تُو مصیبت کے دن ہمت ہار کر ڈھیلا ہو جائے تو تیری طاقت جاتی رہے گی۔‏“‏—‏"

                                                                              *اصول کا مطلب۔ **

مایوسی کی وجہ سے آپ کی صلا‌حیتوں اور طاقت کو زنگ لگ جاتا ہے اور آپ اپنے حالات کو بہتر بنانے یا مشکلوں        کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہتے۔‏


                                                         **قربانی  دینے کے لیے تیار رہیں**


اگر انسان کسی چیز کا خواہشمند ہے تو وہ مفت نہیں ملے گی، اس کے لیے مطلوبہ قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ اگر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو آج کی مشکلات سے مایوس نہ ہوں بلکہ مستقبل کے لیے اسے سرمایہ کاری سمجھ کر     بہادری سے مقابلہ کریں۔

قدرت نے انسان کو جو مختلف صلاحیتیں عنایت کی ہیں ان میں سے ایک بڑی قوت سوچ ہے زندگی کی اکثر خوشیاں اور مصائب اسی سوچ کی مرہون منت ہیں انسان کے تمام خیالات پر اس ابتدائی سوچ کا نمایاں اور گہرا اثر پڑتاہے۔ سوچ کے عمل کوہمیشہ صحت مند رکھنا ضروری ہے اپنے مستقبل کی تعمیر اور ترقی کیلئے آپ کو جو ساز وسامان درکار ہے وہ سب آپکے ذہن میں موجود ہے ذہن کو پراگندگی اور پریشانی سے محفوظ رکھیں۔اپنے کاروباریا پیشے میں ترقی کے لئے ہمیشہ نئے اور اچھوتے خیالات کے بارے میں سوچیں۔کسی چیز کو اپنے اوپر حاوی نہ کریں۔

ہنری فورڈ سے کسی نے ۷۵ سال کی عمر میں اچھی صحت کا راز پوچھا تو وہ کہنے لگاکہ میں نہ تو زیادہ کھاتاہوں،نہ زیادہ فکر وترددکرتاہوں اور جب کسی بات پر پوراعلم اور تجربہ صرف کرلیتاہوں تو مجھے کامل یقین ہوتاہے کہ اس کوشش کا جوبھی نتیجہ نکلے گا وہ لازماً اچھا اور بہترین ہوگا۔

اسی طرح آپ بھی ان سنہری اصولوں کو اپنانے کی کوشش کریں ماضی میں اگر آپکی کو ئی تلخ یادیں ہیں تو انھیں اپنی کمزوری نہ بنائی بلکی نصیحت سمجھ کر آگے قدم بڑھائیں ہر پریشانی اپنے اندر ہی اپنا حل رکھتی ہے ماضی تو دوبارہ نہی آسکتالیکن ماضی کی تلخ یادوں میں رہ کر اپنا حال برباد نہ کریں اور خوب سے خوب تر مستقبل کی جدوجہد کریں۔

  عجیب بات ہے کہ زندگی آسان ہو رہی ہے مگرلوگ مایوس ہورہے ہیں، کیوں؟ ہم بہت ہی انوکھے دورمیں جی رہے ہیں۔ مادی اعتبار سے سب کچھ بہترین ہے۔ ہم سے زیادہ کوئی آزاد نہیں۔ انسانی تاریخ میں ہم سے زیادہ صحت مند اور دولت مند کوئی نہ گزرا۔ مگرافسوس ہے، روئے زمین پرہرجانب تباہی ہے۔ زمین کی گرمی بڑھ رہی ہے۔ حکومتیں ناکام ہورہی ہیں۔ معیشتیں زمین بوس ہورہی ہیں۔ ہرکوئی ٹوئٹرپرناراض نظرآتا ہے۔ تاریخ کے اس لمحے میں، جب ہماری اُس ٹیکنالوجی تک رسائی ہے، وہ تعلیم اورابلاغ میسر ہے جس کا خواب تک ہمارے باپ دادا نہ دیکھ سکتے تھے، ہم میں سے اکثرمایوس ہیں۔ آخریہ ہو کیا رہا ہے؟” 

مغرب مایوس ہے۔ مایوسی کفر ہے۔ کفرتباہی ہے۔ تباہی واضح ہے۔ واضح احساس ہے۔ یہ امید چاہتا ہے۔ امید کیا ہے؟ کہاں ہے؟ کیسے ہو؟ مغرب میں یہ سوالات رائج لبرل اقدار روند رہے ہیں۔ سوال اٹھانے والوں میں ایک نمایاں نام نیویارک سُپر بلاگر مارک مینسن کا ہے۔ مسٹر مینسن جدید دنیا کے باطن کی گندگی نمایاں کرتے ہیں۔ ٹیکنالوجی کی افیون کس طرح انسانی نفسیات برباد کررہی ہے، یہ ان کی تحریروں میں حال کی مثالوں سے واضح کیا گیا ہے۔  وہ مغربی معاشرے کی دُکھتی رگ پر اُنگلی رکھتے ہیں، اورمثالوں سے ثابت کرتے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے وہ محسوس کررہے ہیں اوربیان کررہے ہیں، اورحل ڈھونڈ رہے ہیں۔  مغربی معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ ’مایوسی‘ ہے۔ لہٰذا ’امید‘ کی ضرورت ہے۔ 

                                                       ہم خوش نصیب ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں امید دلائی ہے۔


                                                 اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ 

                                              جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا


کامیاب انسان، روشن ستاروں کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی روشنی سے ہزاروں دلوں میں اُمید کی کرنیں پیدا ہوتی ہیں۔ اِس لئے کامیاب انسانوں سے سیکھئے اور اگر ممکن ہے تو اُن کی صحبت اختیار کیجئے،،، اور ناکام لوگوں سے دور رہیں کیونکہ وہ آپ کو بھی ناکامی ہی کا سبق پڑھائیں گے،،،، مایوس لوگوں سے کنارہ اختیار کریں یا پھر مایوس لوگوں میں آپ امید کی کرن پیدا کردیں
مایوسی کو اپنے قرب و جوار میں پھٹکنے بھی نہ دیں ورنہ وہ آپ کی ذات کو کھوکھلا کر دے گا۔

                                                              


                                                                                   اقبال نے ایک پیغام دیا ہے،،،،


علامہ اقبال نے اپنی مثنوی اسرار و رموز میں ایک حکایت بیان کی جس میں ایک نوجوان نے سید علی ہجویری رحمتہ اللہ علیہ سے دشمنوں کا خوف دور کرنے کے لیے راہنمائی طلب کی تو انہوں نے فرمایا،،،،،

" اے راز حیات سے ناواقف نوجوان تو زندگی کے آغاز اور انجام سے غافل ہے تو دشمنوں کا خوف دل سے نکال دے تیرے اندر ایک قوت خوابیدہ موجود ہے اس کو بیدار کر ۔ "


                                                  علامہ اقبال نے اپنی اردو شاعری میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔

                                            کبھی اے نوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے

                                      وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا


آج ہم  جس جدید دور میں سانس لے رہے ہیں اور جتنی آسائشیں  ہم انسانوں  کو ملی ہوئی ہیں یہ سب ایک دن میں حاصل نہیں ہوئی اس کے لیے انسان نےبرسوں خواب دیکھے اور محنت کی ہے لیکن آج کا انسان اس  کے پیچھےچھپی ہوئی کاوشوں کو بھول گیا ہے۔ہر انسان کامیابی چاہتا ہےمگر بہت کم لوگ کامیابی حاصل کرپاتے ہیں لوگ شدید محنت کرتے ہیں مگر زندگی میں انہیں کچھ خاص کامیابی حاصل نہیں ہوتی لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی ملتے ہیں جو بغیر  محنت کئے بہت کچھ پالیتے ہیں  -   ایسا کیوں ہوتا ہے؟
ایسا اس لیے ہوتا ہے کہ وہ کسی قیمت پر بھی مایوس نہیں ہوتے وہ اپنے لئے راستے چنتے ہیں پھر ان شاہراہوں پر عزم و ہمت سے ڈٹ جاتے ہیں استقامت دکھانے والوں کو کامیابی ملتی ہے
جو ڈٹ گیا وہ جیت گیا۔۔
اپنے مقصد کے لیے جمے رہنے والوں کو، ڈٹے رہنے والوں کو منزل ملتی ہے۔


یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدربھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا


مایوسی کا کانٹا نکال کر زندگی سے بہت دور پھینک دو ہمت سے آگے بڑھتے رہو اللہ کی ذاتِ مبارکہ پر بھروسہ کرو اور نتائج کی پرواہ نہ کرو۔
اگر تمہارا مقصد سچا ہے تو جیت تمہاری ہوگی۔

 "اللہ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں"



                                ہم کو مٹا سکے یہ زمانہ میں دم نہیں 

                              ہم سے زمانہ خود ہے زمانے سے ہم نہیں 


*******************************************************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...