نوشی گیلانی 4

دیشوں کے شہر میں رہنا پڑ جائے گا


بالآخر ہر دُکھ کو سہنا پڑ جائے گا


وقت کی گردش میں آئے تو جان لیا ہے


جھُوٹی بات کو سچّی کہنا پڑ جائے گا


اُس کی یاد کے منظر میں اب رات گئے تک


آنسو بن کر آنکھ سے بہنا پڑ جائے گا


جس لہجے کی خُوشبو ہر پَل ساتھ رہی ہو


اَسے بھی اب بیگانہ کہنا پڑ جائے گا


*************************************


تُمھاری یاد کی دُنیا میں دن سے رات کروں


کسی کی بات چلے میں تُمھاری بات کروں


*************************************


عشق کرو تو یہ بھی سوچو عرض سوال سے پہلے


ہجر کی پُوری رات آتی ہے صبحِ وصال سے پہلے


دِل کا کیا ہے دِل نے کتنے منظر دیکھے لیکن


آنکھیں پاگل ہو جاتی ہیں ایک خیال سے پہلے


کس نے ریت اُڑائی شب میں آنکھوں کھول کے رکھیں


کوئی مثال تو ہو ناں اس کی مثال سے پہلے


کارِ محبت ایک سفر ہے اِس میں آ جاتا ہے


ایک زوال آثار سا رستہ بابِ کمال سے پہلے


عشق میں ریشم جیسے وعدوں اور خوابوں کا رستہ


جتنا ممکن ہو طے کر لیں گر دِ ملال سے پہلے


***********************************


یہ دل بھُلاتا نہیں ہے محبتیں اُس کی


پڑی ہُوئی تھیں مُجھے کِتنی عادتیں اُس کی


یہ میرا سارا سَفر اُس کی خوشبوؤں میں کٹا


مجھے تو راہ دکھاتی تھیں چاہتیں اُس کی


گھِری  ہُوئی ہوں میں چہروں کی بھیڑ میں لیکن


کہیں نظر نہیں آتیں شباہتیں اُس کی


مَیں دُور ہونے گلی ہوں تو ایسا لگتا ہے


کہ چھاؤں جیسی تھیں مجھ پر رفاقتیں اُس کی


یہ کِس گلی میں یہ کِس شہر میں نِکل آئے


کہاں پہ رہ گئیں لوگو صداقتیں اُس کی


میں بارشوں میں جُدا ہو گئی ہوں اُس سے مگر


یہ میرا دل، مِری سانسیں امانتیں اُس کی

***********************************

اب اپنے فیصلے پر خُود اُلجھنے کیوں لگی ہوں


ذرا سی بات پر اتنا بکھر نے کیوں لگی ہوں


وہ جس موسم کی اب تک منتظر آنکھیں تھیں میری


اسی موسم سے اب میں اِتنا ڈرنے کیوں لگی ہوں


مُجھے نادیدہ رستوں پر سفر کا شوق بھی تھا


تھکن پاؤں سے لپٹی ہے تو مرنے کیوں لگی ہوں


مُجھے یہ چار دیواری کی رونق مار دے گی


مَیں اِک امکان تھی منزل کا مٹنے کیوں لگی ہوں


میں جس کو کم سے کم محسوس کرنا چاہتی تھی


اُسی کی بات کو اِتنا سمجھنے کیوں لگی ہوں


جو میرے دل کی گلیوں سے کبھی گُزرا نہیں تھا


اب اپنے ہاتھ سے خط اس کو لکھنے کیوں لگی ہوں


بدن کی راکھ تک بھی راستوں میں ناں بچے گی


برستی بارشوں میں یُوں سُلگنے کیوں لگی ہوں


وُہی سُورج ہے دُکھ کا پھر یہ ایسا کیا ہُوا ہے


میں پتھر تھی تو آخر اَب پگھلنے کیوں لگی ہوں


**************************************


اَب کس سے کہیں اور کون سُنے جو حال تمُھارے بعد ہُوا


اس دل کی جھیل سی آنکھوں میں اِک خواب بہت برباد ہُوا


یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی


وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آ


یہ ہجر ہَوا بھی دُشمن ہے اس نام کے سارے رنگوں کی


وہ نام جو، میرے ہونٹوں پر خوشبو کی طرح آباد ہُوا


اِس شہر میں کتنے چہرے تھے، کُچھ یاد نہیں سب بھُول گئے


اِک شخص کتابوں جیسا تھا وہ شخص زبانی یاد ہُوا


وہ اپنی گاؤں کی گلیاں تھیں دل جن میں ناچتا گاتا تھا


اب اس سے فرق نہیں پڑتا ناشاد ہُوا یا شاد ہُوا


بے نام ستائش رہتی تھی ان گہری سانولی آنکھوں میں


ایسا تو کبھی سوچا بھی نہ تھا دل اب جتنا بے داد ہُوا



****************************************

میں کن لوگوں میں ہوں کیا لکھ رہی ہُوں

سُخن کرنے سے پہلے سوچتی ہُوں

اُداسی مُشتہر ہونے لگی ہے

بھرے گھر میں تماشا ہو گئی ہُوں

کبھی یہ خواب میرا راستہ تھ

مگر اب تو اذاں تک جاگتی ہُوں

بس اِک حرفِ یقین کی آرزو میں

مَیں کتنے لفظ لکھتی جا رہی ہُوں

مَیں اپنی عُمر کی قیمت پہ تیرے

ہر ایک دُکھ کا ازالہ ہو رہی ہُوں

غضب کا خوف ہے تنہائیوں میں

اب اپنے آپ سے ڈرنے لگی ہُوں

*************************************

گُریز شب سے سحر سے کلام رکھتے تھے

کبھی وہ دن تھے کہ زُلفوں میں شام رکھتے تھے

تمھارے ہاتھ لگے ہیں تو جو کرو سو کرو

وگرنہ تم سے تو ہم سو غلام رکھتے تھے

ہمیں بھی گھیر لیا گھر زعم نے تو کھُلا

کُچھ اور لوگ بھی اِ س میں قیام رکھتے تھے

یہ اور بات ہمیں دوستی نہ راس آئی

ہوا تھی ساتھ تو خُوشبو مقام رکھتے تھے

نجانے کون سی رُت میں بچھڑ گئے وہ لوگ

جو اپنے دل میں بہت احترام رکھتے تھے

وہ آ تو جاتا کبھی ، ہم تو اُس کے رستوں پر

دئے جلائے ہوئے صبح و شام رکھتے تھے

***************************************

بدن کی سرزمین پر تو حکمران اور ہے

مگر جو دل میں بس رہا ہے مہربان اور ہے

جو مُجھ سے منسلک ہُوئیں کہانیاں کُچھ اور تھیں

جو دِل کو پیش آئی ہے وہ داستان اور ہے

یہ مرحلہ تو سہل تھا محبتوں میں وصل کا

ابھی تمہیں خبر نہیں کہ امتحان اور ہے

وہ دن کدھر گئے مِرے وہ رات کیا ہوئی مِری

یہ سرزمین نہیں ہے وہ یہ آسمان اور ہے

وہ جس کو دیکھتے ہو تم ضرورتوں کی بات ہے

جو شاعری میں ہے کہیں وہ خُوش بیان اور ہے

جو سائے کی طرح سے ہے وہ سایہ دار بھی تو ہے

مگر ہمیں ملا ہے جو وہ سائبان اور ہے

***************************************

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

تری بات بات کی روشنی

مِرے حرف حرف میں بھر سکے

ترے لمس کی یہ شگفتگی

مرے جسم و جاں میں اُتر سکے

کوئی چاندنی کسِی گہرے رنگ کے راز کی

مرے راستوں میں بکھر سکے

تری گفتگو سے بناؤں میں

کوئی داستاں کوئی کہکشاں

ہوں محبتوں کی تمازتیں بھی کمال طرح سے مہرباں

ترے بازوؤں کی بہار میں

کبھی جُھولتے ہُوئے گاؤں میں

تری جستجو کے چراغ کو سر شام دِل میں جلاؤں

اِسی جھلملاتی سی شام میں

لِکھوں نظم جو ترا رُوپ ہو

کہیں سخت جاڑوں میں ایک دم جو چمک اُٹھے

کوئی خوشگوار سی دھُوپ ہو

جو وفا کی تال کے رقص کا

کوئی جیتا جاگتا عکس ہو

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

کہ ہر ایک لفظ کے ہاتھ میں

ترے نام کی

ترے حروف تازہ کلام کے

کئی راز ہوں

جنھیں مُنکشف بھی کروں اگر

تو جہان شعر کے باب میں

مِرے دل میں رکھی کتاب میں

ترے چشم و لب بھی چمک اٹھیں

مجھے روشنی کی فضاؤں میں کہیں گھیر لیں

کوئی نظم ایسی لکھوں کبھی

*************************************

حقیقتوں کا تصّور محال لگتا ہے

کسی کی یاد میں رہنا کمال لگتا ہے

**************************************


No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...