حیات اولیاء



ولایت نام ہے عطائے اتباع نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا۔۔ 

فرمانِ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔۔
" بیشک اللہ کے ولیوں پر موت نہیں آتی، بلکہ وہ ایک (دنیاوی) گھر 🏠 سے دوسرے گھر ( برزخی) کی طرف منتقل ہو تے ہیں۔" 

فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔

" جب تم اپنے معاملات میں حیرت کا شکار ہو جایا کرو تو اہل قبور سے مدد مانگ لیا کرو۔"
 اس طرح تمہاری مشکل آسان ہو جایا کریگی، اور تم کسی بھی مہم میں عاجز نہ ہوا کرو گے۔

شمس العارفین حضرت سلطان باہو رحمۃ اللہ فرماتے ہیں۔۔۔۔

" ایک رات کسی ولی اللہ کے مزار کی ہم نشینی میں قرآن خوانی کرنا زہد و ریاضت کے چالیس چلوں سے بہتر ہے۔"

کلید التوحید میں مزید فرماتے ہیں۔۔۔۔

" اگر دائمی حضوری چاہتے ہو تو کسی ذندہ دل اہل قبر کی ہم نشینی اختیار کر لو۔" 

اہل اللہ کی قبر سے ہر مشکل حل ہو جاتی ہے کیونکہ اہل اللہ کی قبر سے زیر و زبر کی ہر حقیقت کھلتی ہے۔
اولیاء اللہ کے مکھڑے کی زیارت کرنے سے دل میں محبت الٰہی کا چراغ جلتا ہے۔ ظاہر باطن نکھرتے ہیں۔ شریعت مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عمل کرنے میں آسانی پیدا ہوتی ہے۔


** اللہ کے ولیوں کا مقام **

اللہ کے ولیوں کا ایک خاص مقام ہوتا ہے۔ صوفیائے کرام اور اولیائے کرام کسی عالم کی طرح اسٹیج اور منبر کے ذریعے تبلیغ دین کا فریضہ سر انجام نہیں دیتے، بلکہ اپنے مسکن، آستانے کی طرف لوگوں کو اپنی کرامات سے کھینچتے ہیں۔
ان کے حضور شاہ و گدا، امیر و فقیر، ادنی و اعلیٰ، مرد اور خواتین، پیر و جوان، خادم و مخدوم، محمود و ایاز، آقا و غلام سبھی سائل بن کر عاجزی اور انکساری کا پیکر بنے حاضری دیتے نظر آتے ہیں اپنی مرادوں سے جھولیاں بھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اللہ کے ولی فیض کا ایسا چشمہ جاری کرتے ہیں کہ کوئی خالی ہاتھ نہیں لوٹتا۔ 

عارفین کی دنیا بہت نرالی ہوتی ہے۔ یہ وہی اولو العزم ہستیاں ہیں جو دنیا میں رک کر بھی دنیا کے بندے نہیں ہوتے، رہتے کٹیا میں ہیں اور خبر لامکاں کی رکھتے ہیں۔

حضرت ابرہیم بن ادھم سے کسی نے پوچھا کہ۔۔۔۔۔
شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ  جاہ و جلال چھوڑ کر آپ کو کیا ملا۔۔۔۔؟؟ 
یہ دریا پر بیٹھ کر سوئی سے اپنے کپڑوں کی مرمت کر رہے ہیں پیوند لگا رہے ہیں۔ حکمرانی چھوڑ کر کیا ملا؟؟؟؟؟
کہا نادان حکمرانی تو اب بھی ہے اور پہلے سے زیادہ اچھی ہے۔ 
پوچھنے والے نے حیرانی سے سوال کیا وہ کیسے؟؟ 
جس سوئی سے آپ پیوند لگا رہے تھے اسے دریا میں پھینک دی۔۔۔اور پھر فرمایا۔۔
اے دریا کی مچھلیوں! 
میں غلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوں۔۔۔ ذرا میری سوئی تو لادو۔۔ اتنا کہنا تھا کہ کہ دریا سے 🎏 مچھلیاں امڈ امڈ کر آنے لگیں کوئی سونے کی،تو کوئی چاندی کی سوئی لیکر حاضر ہوئی۔ آپ نے فرمایا نہیں یہ میری سوئی نہیں ہے اتنے میں ایک مچھلی آپ کی سوئی لیکر حاضر ہوئی آپ نے فرمایا۔۔۔۔ 
ہاں۔۔۔!! یہ میری سوئی ہے۔ آپ نے وہ سوئی لے لی اور باقی مچھلیوں کو واپس جانے کا حکم دیا۔
پھر سوال کرنے والے سے پوچھا اب بتا حکمرانی یہ تھی یا وہ تھی۔ 
اسی لئے کہا جاتا ہے۔۔۔

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی، ارادت ہو تو دیکھ انکو۔۔۔۔
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں


اللہ کے ولیوں کو کوئی خوف اور غم نہیں ہوتا اور وہ اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔

" اور جو لوگ صبح شام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی کے طالب ہیں ان کیساتھ صبر کرتے رہو، اور تمہاری نگاہیں ان میں نہ دوڑیں کہ تم آرائش زندگانی دنیا کے خواستگار ہوجاؤ اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے اس کا کہا نہ ماننا۔"

جاری ہے

1 comment:

  1. کوئی حوالہ بھی دے دیا ہوتا تو اسانی ہو جاتی

    ReplyDelete

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...