حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ 72 ساتھی تھے، جن میں سے 18 اہل بیت کے اراکین تھے۔ اس کے علاوہ خاندانَ نبوت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔
امام حسین کی شہادت کے بعد کے عجیب و غریب واقعات پیش کئے جاتے ہیں جنہیں سن کر انسانی عقل حیران رہ جاتی ہے
جب امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے تو ان کا گھوڑا ہنہنانے لگا وہ میدان کربلا میں مقتولین کی لاشوں کے پاس سے گزرتا ہوا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی لاش کے پاس آ کر ٹھہر گیا۔ اس نے اپنی پیشانی خون میں ڈبو دی۔ وہ اگلے پاؤں سے زمین پر ٹپکنے لگا اور اس قدر زور سے ہنہنانے لگا کہ اس کی ہنہناہٹ سے میدان کربلا گونج اٹھا۔ ابن سعد کی نظر جو حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے گھوڑے پر پڑی تو اس نے کہا خدا کی مار ہو تم پر اسے پکڑ کر میرے پاس لاؤ ، یہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمدہ گھوڑوں میں سے ہے۔ لشکریوں نے اس کا تعاقب کیا ، جب گھوڑے نے دیکھا کہ لوگ اسے پکڑنا چاہتے ہیں تو وہ اپنے پاؤں زمین پر ٹپکنے لگا اور اپنی مدافعت کرنے لگا حتیٰ کہ اس نے بہت سے آدمیوں کو ہلاک کر دیا اور کئی شاہسواروں کو گھوڑوں سے گرا دیا۔ مگر لشکری اس پر قابو نہ پا سکے۔ “
حضرت حسین رضی اللہ عنہ جس روز شہید ہوئے آسمان سے خون کی بارش ہوئی.
واقعہ کربلا صرف تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا نادراور عجیب و غریب واقعہ ہے ، دنیا میں یہی ایک واقعہ ایسا ہے، جس سے عالم کی تمام چیزیں متاثر ہوئیں ۔ آسمان متاثر ہوا ، زمین متاثر ہوئی شمس و قمر متاثر ہوئے حتی کہ خود خداوندعالم متاثر ہوا اس کا تاثر شفق کی سرخی ہے، جو واقعہ کربلا کے بعد سے افق آسمانی پر ظاہر ہونے لگی ۔
یہ وہ غم انگیز اور الم آفرین واقعہ ہے جس نے جاندار اور بے جان کو خون کے آنسو رلایا ہے اس واقعہ کا پس منظر رسول اور اولاد رسول کی دشمنی ہے ۔ بدر و احد ، خندق و خیبر میں قتل ہونے والے کفار کی اولاد نے ظاہری طور پر اسلام قبول کرکے اپنے آباد واجداد کا بدلہ حضرت رسول کریم ﷺاور حضرت امیرالمومنینؐ کی اولاد سے بدلہ لینے کے جذبات اسلامی کافروں کے دلوں میں عہد رسول ہی سے کروٹیں لے رہے تھے لیکن عدم اقتدار کی وجہ سے کچھ بن نہ آتی تھی۔
رسول کے انتقال کے بعد جب ۳۸ ہجری میں امیرالموٴمنین برسراقتدار آئے تو ان لوگوں کو مقابلہ کا موقع ملا جو عنان حکومت کودانتوں سے تھام کر جگہ پکڑچکے تھے ، بالاخر وہ وقت آیا کہ یز ید ابن معاویہ خلیفہ بن گیا۔ حضرت علیؓ اور حضرت امام حسنؓ شہید کیے جاچکے تھے ۔
عہدِ یزید میں امام حسینؓ سے بدلہ لینے کا موقع تھا ۔ یزید نے خلافت منصوبہ پر قبضہ کرنے کے بعد امام حسین (ع) کے قتل کا منصوبہ تیار کیا اور ایسے حالات پیدا کردئیے کہ حضرت امام حسینؓ کربلا میں آپہنچے یزید نے بروایت اسی ہزار فوج بھیجوا کر امام حسینؓ کو اٹھارہ بنی ہاشم اور بہتر اصحاب سمیت چند گھنٹوں میں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔
حضرت امام حسینؓ 28 رجب 60 کو مدینہ سے روانہ ہوکر 10 محرم الحرام 61 ھ کو رسول کریم (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے، ظالموں نے 7 محرم الحرام سے پانی بند کردیا ۔
اور دسویں محرم کو نہایت بیدردی سے تمام لوگوں کو قتل کرڈالا۔
کربلا کا یہ واقعہ تاریخ اسلام کا بڑا افسوسناک حادثہ تھا، اس واقعہ کی خبر اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو کر دی تھی۔ چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زوجہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو ایک شیشی میں کچھ مٹی دے کر فرمایا تھا کہ یہ اس جگہ کی مٹی ہے، جہاں میرے نواسے کو شہید کیا جائے گا۔ جب وہ شہید ہوگا تو یہ مٹی خون کی طرح سرخ ہو جائے گی۔
کربلا کے واقعے کے وقت حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا زندہ تھیں اور جس وقت امام حسین علیہ السلام شہید ہوئے یہ مٹی خون کی طرح سرخ اور مائع ہو گئی تھی۔ اسلامی تاریخ کو کسی اور واقعہ نے اس قدر اور اس طرح متاثر نہیں کیا جیسے سانحہ کربلا نے کیا۔ آنحضورﷺ اور خلفائے راشدین نے جو اسلامی حکومت قائم کی، اس کی بنیاد انسانی حاکمیت کی بجائے اللہ تعالٰی کی حاکمیت کے اصول پر رکھی گئی ۔ اس نظام کی روح شورائیت میں پنہاں تھی ۔
اسلامی تعلیمات کا بنیادی مقصد بنی نوع انسان کو شخصی غلامی سے نکال کر خداپرستی ، حریت فکر، انسان دوستی ، مساوات اور اخوت و محبت کا درس دینا تھا۔ خلفائے راشدین کے دور تک اسلامی حکومت کی یہ حیثیت برقرار رہی۔ یزید کی حکومت چونکہ ان اصولوں سے ہٹ کر شخصی بادشاہت کے تصور پر قائم کی گئی تھی ۔ لٰہذا جمہور مسلمان اس تبدیلی کواسلامی نظام شریعت پر ایک کاری ضرب سمجھتے تھے اس لیے امام حسین محض ان اسلامی اصولوں اور قدروں کی بقا و بحالی کے لیے میدان عمل میں اترے ، راہ حق پر چلنے والوں پر جو کچھ میدان کربلا میں گزری وہ جور جفا ، بے رحمی اور استبداد کی بدترین مثال ہے۔
نواسہ رسول کو میدان کربلا میں بھوکا پیاسا رکھ کر جس بے دردی سے قتل کرکے ان کے جسم اورسر کی بے حرمتی کی گئی اخلاقی لحاظ سے بھی تاریخ اسلام میں اولین اور بدترین مثال ہے۔
سانحہ کربلا تاریخ اسلام کا ایک شاندار اور زریں باب ہے، یزید کی نامزدگی اسلام کی نظام شورائیت کی نفی تھی، لٰہذا امام حسین نے جس پامردی اور صبر سے کربلا کے میدان میں مصائب و مشکلات کو برداشت کیا وہ حریت جرات اور صبر و استقلال کا ایک عظیم نمونہ ہے۔
امام حسین کا یہ ایثار اور قربانی تاریخ اسلام کا ایک ایسا درخشندہ باب ہے جو رہروان منزل شوق و محبت اور حریت پسندوں کے لیے ایک اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ سانحہ کربلا آزادی کی اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے۔ جو اسلامی اصولوں کی بقا اور احیاء کے لیے تاریخ اسلام میں پہلی بار شروع کی گئی۔
کربلا کی کہانی شروع ہوتی ہے
بیعت یزید
امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے انتقال کے وقت ولید بن عتبہ بن ابی سفیان حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا بھتیجا اور یزید کا چچیرا بھائی مدینہ منورہ کا گورنر تھا۔ اس کو یزید نے حکم بھیجا کہ وہ میرے لئے بیعت لیں۔ جب حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا گیا تو امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ مجھے سوچنے کی مہلت دیں اور نرمی اختیار کریں۔ چنانچہ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ مہلت لے کر مکہ معظمہ تشریف لے گئے۔
کوفیوں کے خط
جب آپ مکہ معظمہ پہنچ گئے تو کوفیوں نے آپ رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے قاصد و پیغامات بھیجے اور عرض کی کہ آپ رضی اللہ عنہ کوفہ تشریف لے آئیں ہم آپ کی بیعت کرنا چاہتے ہیں ، ہم لوگوں نے یزید کی بیعت سے انکار کر دیا ہے ، اس کے گورنر کے پیچھے جمعہ پڑھنا بھی چھوڑ دیا ہے۔ اس وقت کوفہ کا گورنر نعمان بن بشیر تھا۔ جب کوفیوں کی طرف سے اس قسم کے پیغامات آئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے تحقیق احوال کے لئے پروگرام بنایا۔
حضرت مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کوفہ میں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اپنے چچیرے بھائی مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو کوفہ روانہ کیا تا کہ وہ وہاں کی صورت حال کا اچھی طرح جائزہ لے۔ پروگرام کے مطابق مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ مکہ سے پہلے مدینہ منورہ گئے وہاں سے راستہ کی رہنمائی کے لئے دو آدمی ساتھ لئے اور کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ جس راستہ سے گئے وہ انتہائی خطرناک تھا۔ ریگستانی علاقہ سے گزرتے ہوئے ایک راہبر پیاس کی وجہ سے ہلاک ہو گیا۔ اس صورت حال کو دیکھ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ نے حضرت حسین رضی اللہ عنہ کو خط لکھا کہ مجھے اس خدمت سے سبکدوش کر دیا جائے لیکن حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے اس کی معذرت قبول نہ کی اور حکم دیا کہ کوفہ ضرور جاؤ اس حکم کی وجہ سے امام مسلم بن عقل رضی اللہ عنہ کوفہ گئے اور وہاں جا کر عوسجہ کوفی کے پاس ٹھہرے۔
کوفیوں کی بیعت
کوفیوں کو جب امام مسلم رضی اللہ عنہ کی آمد کی خبر ہوئی تو خفیہ طور پر ان کے پاس پہنچے اور بارہ ہزار کوفیوں نے ان کے ہاتھ پر امام حسین رضی اللہ عنہ کے لئے بیعت کی۔
گورنر کوفہ نعمان بن بشیر کی معزولی
امام مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر جب بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کی تو یزید کے ایک بہی خواہ عبداللہ بن مسلم حضرمی نے نعمان بن بشیر کو کہا کہ دیکھو شہر کی صورتحال کیا ہے یا تو کوفہ والے آپ کو کمزور سمجھتے ہیں یا آپ واقعتا کمزور ہیں۔
حضرت نعمان نے جواب دیا
میری ایسی کمزوری جو اطاعت الٰہی میں ہو اس طاقت سے بہتر ہے جو خدا کی نافرمانی میں ہو۔ جس کام پر اللہ نے پردہ ڈالا اس کو کیوں ظاہر کروں۔
اس کے بعد عبداللہ بن مسلم حضرمی نے اس کی شکایت یزید کے پاس لکھ کر بھیج دی۔ یزید نے اپنے ایک آزاد کردہ غلام سرحون سے مشورہ کیا اس نے کہا کہ اگر آپ کے باپ معاویہ رضی اللہ عنہ زندہ ہوتے تو آپ اس کے مشورہ پر عمل کرتے۔ یزید نے کہا کہ ضرور عمل کرتا۔ سرحون نے مشورہ دیا فوری طور پر عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کا گورنر مقرر کر دو۔ حالانکہ صورتحال یہ تھی کہ یزید ان دنوں ابن زیاد کو بصرہ کی گورنری سے معزول کرنا چاہتا تھا۔ مگر سرحون کا مشورہ قبول کرتے ہوئے نعمان بن بشیر کو معزول کر دیا اور ابن زیاد کو کوفہ کا گورنر بنا دیا اور کہا کہ کوفہ پہنچ کر مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو تلاش کرو اگر مل جائے تو اسے قتل کر دو۔
عبیداللہ بن زیاد کوفے کا نیا گورنر
ابن زیاد بصرہ کے چند ساتھیوں کے ہمراہ اس حالت میں کوفہ آیا کہ اس نے ڈھاٹا باندھ رکھا تھا وہ جس مجلس سے بھی گزرتا سلام کرتا۔ لوگ جواب میں حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ سمجھ کر ” وعلیک یا ابن رسول اللہ “ (اے رسول کے بیٹے آپ پر بھی سلام ہو) جواب دیتے۔
کوفی سمجھتے تھے کہ حسین رضی اللہ عنہ بن علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہیں۔ یہاں تک کہ ابن زیاد قصر امارت میں پہنچ گیا۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کی تلاش
ابن زیاد نے کوفہ پہنچ کر اپنے غلام کو تین ہزار درہم دئیے اور کہا جاؤ اس شخص کا پتہ لگاؤ جو کہ کوفہ والوں سے بیعت لیتا ہے۔ لیکن اپنے آپ کو ظاہر کرو کہ میں حمص کا باشندہ ہوں اور بیعت کرنے آیا ہوں اور یہ رقم پیش خدمت ہے۔ آپ اپنے مشن میں صرف کر سکیں۔ غلام اس حیلہ سے یہ اس شخص تک پہنچ گیا جو بیعت کا اہتمام کرتا تھا۔ جب اس نے رقم پیش کی اور بیعت کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس آدمی نے خوش ہو کہا کہ تمہیں ہدایت کا راستہ نصیب ہوا ہے۔ لیکن افسوس کہ ابھی تک ہمارا کام پختہ نہیں ہوا۔ تاہم وہ اس غلام کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کے پاس لے گیا۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ نے اس سے بیعت لی اور رقم بھی قبول کر لی۔ اب وہ یہاں سے نکلا اور سیدھا ابن زیاد کے پاس پہنچا اور سب کچھ اس کو بتلا دیا۔ ادھر حضرت مسلم رضی اللہ عنہ ابن زیاد کی کوفہ آمد سے عوسجہ کا گھر چھوڑ کر ہانی بن عروہ کے گھر منتقل ہو چکے تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کو پیغام بھیج دیا تھا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے۔ آپ کوفہ تشریف لے آئیں۔
ھانی بن عروہ کی گرفتاری
جب ابن زیاد کو پتہ چل گیا کہ مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہانی بن عروہ کے گھر ہے۔ اس نے کہا کیا بات ہے کہ ہانی مجھے ملنے نہیں آئے۔ محمد بن اشعث چند ساتھیوں کے ساتھ ھانی کے دروازہ پر آئے ، ہانی اپنے گھر کے دروازے پر کھڑے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ” گورنر نے آپ کو یاد کیا ہے لہٰذا آپ کو گورنر کے پاس جانا چاہئے۔ “ چنانچہ ان کے زور پر ھانی ابن زیاد کے پاس پہنچے۔
اتفاق سے اس وقت قاضی شریح بھی ابن زیاد کے پاس موجود تھے۔ ان سے مخاطب ہو کر کہا دیکھو اس احمق کی قضاءہمارے پاس لے آئی ہے۔ ہانی نے سلام کہا۔ ابن زیاد بولا : مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کہاں ہے؟
ہانی بن عروہ نے کہا : مجھے علم نہیں ہے۔
اس پر ابن زیاد نے تین ہزار درہم والے غلام کو سامنے کر دیا۔ ھانی بالکل لاجواب ہو گیا اور کہا : میں نے ان کو بلایا نہیں وہ خود بخود میرے گھر میں آ گئے ہیں ابن زیاد نے کہا : کہ اس کو حاضر کرو۔ اس پر ھانی پس و پیش کیا۔ جس پر ابن زیاد نے اپنے قریب کر کے اس زور سے چھڑی ماری جس سے ان کی بھنویں پھٹ گئیں اور پھر تلوار سے وار کرنا چاہا لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ ابن زیاد نے کہا کہ : اب تیرا خون حلال ہے۔ اور اس کو قصر امارت کے ایک حصہ میں قید کر دیا۔
اس واقعہ کی اطلاع پرھانی کے قبیلہ نے قصر امارت پر حملہ کر دیا۔ ابن زیاد نے قاضی شریح کے ذریعہ ان کو پیغام بھیجا کہ ہانی کو مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا پتہ و تحقیق کرنے کے لئے روکا ہے خطرے کی کوئی بات نہیں اور قاضی شریح کے ساتھ بھی ایک غلام کو بھیج دیا کہ دیکھو یہ لوگوں کو کیا کہتے ہیں قاضی شریح لوگوں کی طرف جاتے ہوئے ھانی کے پاس سے گزرے تو اس نے کہا : کہ میرے بارے میں اللہ سے ڈرنا۔ ابن زیاد میرے قتل کے درپے ہے تاہم قاضی شریح نے ابن زیاد کی بات کہہ کر مطمئن کر دیا۔ یہ بات سن کر لوگ مطمئن ہو گئے۔
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کا خروج
مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ کو جب اس ہنگامے کا علم ہوا تو خروج کا اعلان کر دیا۔ چنانچہ چار ہزار لوگ ایک روایت کے مطابق چالیس ہزار آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ ان کو جنگی طریقہ سے ترتیب دے کر قصر امارت کی طرف روانہ کر دیا۔ ابن زیاد کو اطلاع ہوئی تو اس نے سردار ان کوفہ کو بلایا جب لشکر قصر امارت تک پہنچ گیا تو سرداران کوفہ نے اپنے اپنے قبیلہ کو سمجھایا تو وہ آہستہ آہستہ کھسکنا شروع ہو گئے۔ رات کے اندھیرے تک کوئی باقی نہ رہا۔کوفیوں کی غداری اور امام مسلم رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت مسلم رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا سب نے دھوکہ دیا ہے اور تنہا رہ گئے ہیں تو راستہ پر چل پڑے ایک مکان پر پہنچے اندر سے ایک خاتون نکلی۔ آپ نے پانی مانگا اس عورت نے پانی پلا دیا اور واپس اندر چلی گئی۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باہر آئی۔ آپ کو دروازہ پر دیکھ کر کہا کہ اے اللہ کے بندے تیرا اس طرح بیٹھنا مشکوک ہے۔ یہاں سے چلے جاؤ۔ آپ نے کہا میں مسلم بن عقیل رضی اللہ عنہ ہوں تم مجھے پناہ دو گی؟ اس نے کہا آ جائیے۔ آپ اندر چلے گئے۔ جب اس عورت کے لڑکے محمد بن اشعث کو پتہ چلا کہ حضرت مسلم بن عقیل رحمہ اللہ ان کے گھر ہیں تو اس نے فورا ابن زیاد کو اطلاع کر دی۔ ابن زیاد نے اس کے ہمراہ پولیس روانہ کر دی۔ پولیس نے جا کر مکان کا محاصرہ کر لیا۔ مسلم اطلاع ملتے ہی تلوار سونت کر باہر نکل آئے مقابلہ کا ارادہ کیا ، لیکن محمد بن اشعث نے روکا اور حفاظت کی ذمہ داری اٹھالی۔ حضرت مسلم کو پکڑ کر ابن زیاد کے پاس لے گئے۔ چنانچہ ابن زیاد کے حکم سے قصر امارت کی چھت پر لے جا کر مسلم کو قتل کر دیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اور ان کی لاش بازار میں لوگوں کے سامنے پھینک دی اور ہانی بن عروہ کو کوڑا کرکٹ کی جگہ گھسیٹتے ہوئے سولی پر لٹکا دیا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی مکہ سے کوفہ کی طرف روانگی
حضرت مسلم کا خط امام حسین رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا کہ بارہ ہزار کوفیوں نے بیعت کر لی ہے لہٰذا آپ جلد کوفہ پہنچ جائیں۔ امام حسین رضی اللہ عنہ مکہ سے کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ قادسیہ سے تین میل کے فاصلے پر تھے کہ حربن یزید تمیمی حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے قافلے سے ملا اس نے کہا کہاں جا رہے ہو؟ آپ نے فرمایا کوفہ.... اس نے کہا وہاں کسی خیر کی توقع نہیں ہے۔ آپ کو یہاں سے واپس ہو جانا چاہیے ۔ پھر اس نے کوفیوں کی بے وفائی اور حضرت مسلم رضی اللہ عنہ کے قتل کا واقعہ سنایا۔ سارا واقعہ سن کر حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے واپسی کا ارادہ کر لیا۔ لیکن مسلم رضی اللہ عنہ کے بھائیوں نے کہا ہم بدلہ لیں گے یا شہید ہو جائیں گے۔ اس پر امام حسین رضی اللہ عنہ نے فرمایا تمہارے بغیر زندگی کا کوئی لطف نہیں ہے۔ اب سب کوفہ کی طرف روانہ ہو گئے جب آپ کو ابن زیاد کی فوج کا ہر اول دستہ نظر آیا تو آپ نے کربلا کا رخ کر لیا۔
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی کربلا آمد
جب آپ کربلا میں پہنچے خیمے نصب کر لئے۔ اس وقت آپ کے ساتھ پینتالیس سوار اور سو (100) کے قریب پیدل تھے۔ اس وقت ابن زیاد نے عمر بن سعد کو بلایا کہ آپ حسین رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں میری مدد کریں۔ اس نے معذرت کی لیکن ابن زیاد نہ مانا۔ اس پر عمر بن سعد نے ایک رات سوچنے کی مہلت لی۔ عمر بن سعد نے سوچنے کے بعد آمادگی کا اظہار کیا۔ عمر بن سعد کربلا میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا۔
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی معقول تجویز
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تین باتوں میں سے ایک مان لو۔
1۔ مجھے کسی اسلامی سرحد پر جانے دو۔
2۔ مجھے موقع دو کہ میں براہ راست یزید کے پاس پہنچ جاؤں۔
3۔ جہاں سے آیا ہوں وہاں واپس چلا جاؤں۔
ابن سعد نے تجویز قبول کر کے ابن زیاد کے پاس بھیج دی اس نے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ بس ایک بات کی کہ حسین رضی اللہ عنہ بیعت کریں۔ عمر بن سعد نے ہر بات امام حسین رضی اللہ عنہ تک پہنچا دی۔ انہوں نے فرمایا ایسا نہیں ہو سکتا۔ اس پر لڑائی چھڑ گئی۔ آپ کے سب ساتھی مظلومانہ شہید ہو گئے۔ دس سے زائد جوان گھر کے تھے۔ اسی اثناءمیں ایک تیر آیا جو حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بچے پر لگا جو گود میں تھا۔ اس سے خون کو صاف کرتے ہوئے فرمایا! اے اللہ ہمارے اور ان کے درمیان فیصلہ فرما جنہوں نے پہلے بلایا اب ہمیں قتل کر رہے ہیں۔
خیمے سے برآمد ہوئے زینب کے جو دلبر
دیکھا کہ حسین ابن علی روتے ہیں در پر
بس جھک گئے تسلیم کو حضرت کی ،
وہ صفدر منہ کرکے سوئے چرخ پکارے شہ بے پر
یہ وہ ہیں جو آغوش میں زینب کے پلے ہیں
بچے بھی تیری راہ میں مرنے کو چلے ہیں
حسینی لشکر میں سب سے زیادہ بہادر حضرت عباس تھے اس کا سبب یہ ہے کہ ان کا عہد شباب تھا اس لئے ان کے بازؤں میں بچوں بوڑھوں سے زیادہ طاقت تھی
آمد ہے کربلا کے نیستاں میں شیر کی
ڈیوڑھی سے چل چکی ہے سواری دلیر کی
جاسوس کہہ رہے ہیں نہیں راہ پھیر کی
غش آگیا ہے شہ کو یہ ہے وجہ دیر کی
خوشبو ہے دشت ، بادِ بہاری قریب ہے
ہشیار غافلو کہ سوار ی قریب ہے
جب کردار میدان جنگ میں آتا ہے تو وہ اپنے آبا واجدادکی شجاعت کا سکہ بٹھاتا ہے ۔ اور پھر اپنی بہادری کا قصد اعدا کے دل میں بٹھا تا ہے۔
حضرت امام حسین رجز خوانی میں ماہر تھے چونکہ وہ بہت اعلیٰ مرتبے کے حامل تھے اس لئے ان کی رجز خوانی میں بہت اثر تھا ۔ اس کے ساتھ ہی اس میں صداقت بھی تھی ۔
اعدا کی زبانوں پہ یہ حیرت کی تھی تقریر
حضرت یہ رجز پڑھتے تھے تو لے ہوئے شمشیر
دیکھو نہ مٹائو مجھے اے فرقہ بے پیر
میں یوسفِ کنعانِ رسالت کی ہوں تصویر
واللہ تعلی نہیں یہ کلمہ حق ہے
عالم میں مرقع میں حسین ایک ورق ہے
زینب کے دلبر عون و محمد اور حیدر و جعفر کے نور نظر اپنے ماموں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر جان وارنے آتے ہیں۔
روایتوں میں آتا ہے کہ جب ظالموں نے آل علی پر دریائے فرات کا پانی بند کر دیا اس پر پہرے بٹھا دئیے تو حضرت زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے دونوں بچوں کو لیکر امام کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور فرمایا
کرتی ہوں اس غریبی میں ایک آخری سوال
خدمت میں لیکے آئی ہوں میں اپنے دونوں لعل
مانا کہ یہ تمہاری بہن کا قرار ہیں
پیارے حسین تجھ پہ یہ بچے نثار ہیں
زینب کی بات سن کر شہہ دین رو دئیے
جیسے کسی نے روح میں نشتر چھبو دئیے
فرمایا جاؤ رن کی اجازت بھی ہم نے دی
ان کو شہید ہونے کی عزت بھی ہم نے دی
زینب تمہارے لاڈلے خوں میں نہائیں گے
یہ لعل ہم سے پہلے ہی جنت میں جائیں گے
شبیر اتنا کہہ کے پریشان ہو گئے
عون و محمد آپ پر قربان ہو گئے
میدان میں عجب شان سے وہ شےر نر آئے
گویا کہ بہم حیدر و جعفر نظر آئے
غل پڑ گیا حضرت کی بہن کے پسر آئے
افلاک سے بالائے زمیں دو قمر آئے
یوسف سے فزوں حسنِ گراں مایہ ہے ان کا
یہ دھوپ بیاباں میں نہیں سایہ ہے ان کا
شہادت کا سلسلہ میدان ِ کربلا سے قبل ہی شروع ہو جاتا ہے۔ جب اہل کوفہ نے حضرت امام حسین کو اپنے وطن میں بیعت کے لئے بلایا تو انہوں نے اپنے چچا کے بیٹے مسلم بن عقیل کو کوفہ روانہ کیا۔ وہاں اہل ِ کوفہ نے ان کے ساتھ دغا کی اور ان کو شہید کر دیا ۔
جب کوفیوں نے کوفہ میں مسلم سے دغا کی
جو عہد کیا ایک نے اس پر نہ وفا کی
کی شرم خدا سے نہ محمد سے حیا ءکی
مظلوم پہ ، بے کس پہ، مسافر پہ جفا کی
پانی نہ دمِ مرگ دیا تشنہ دہن کو
کس ظلم سے ٹکڑے کیا آوارہ وطن کو
حضرت علی اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت علی اکبر سب کو عزیز تھے اس کے علاوہ وہ بہت بہادر بھی تھے ان کی شادی کا شوق حضرت بانو اور حضرت زینب کو بہت تھا یہ ارمان بھی اُن کا نہ نکل سکا اس لئے ان کی شہادت کا غم سب کو ہوا۔
آواز پسر سنتے ہی حالت ہوئی تغیر
چلا کے کہا ہائے کلیجے پہ لگا تیر
برچھی سے تو زخمی ہوئے واں اکبرِ دے گر
بسمل سے تڑپنے لگے یاں حضرت شبیر
تھا کون اُٹھاتا جو زمیں سے انہیں آکر
اُٹھ کر کبھی دوڑے تو گرے ٹھوکریں کھا کر
حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت
حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خود تلوار ہاتھ میں لی اور مردانہ وار مقابلہ کیا اور لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۔۔۔
اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے دربار میں پیش کیا۔
اور جس شخص کے ہاتھ سے حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ شہید ہوئے وہ قبیلہ مذحج کا آدمی تھا۔ اگرچہ اس کے بارے میں اور بھی اقوال ہیں۔ حج ھانی بن عروہ کا وہی قبیلہ جس نے قصر امارت پر چڑھائی کر دی۔ یہ شخص آپ کا سر تن سے جدا کر کے ابن زیاد کے پاس لے کر گیا۔ اس نے سر مبارک یزید کے پاس بھیج دیا۔ ادھر عمر بن سعد بھی حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ کو لے کر ابن زیاد کے پاس پہنچ گیا۔ ان کا صرف ایک لڑکا علی بن حسین رضی اللہ عنہ زین العابدین بچا تھا۔ جو اس روایت کے راوی ابو جعفر باقر کے والد تھے۔
تاریخ طبری کی روایت میں ہے کہ سنان بن انس نخعی نے شہید کیا اور خولی الاصبحی نے سرکاٹا۔
اور وہ جو شعر پڑھتا تھا اس کا ترجمہ ہے،،
میرے اونٹ سونے اور چاندی سے لادو
میں نے ایسے بادشاہ کو قتل کیا ہے
جس تک رسائی مشکل ہے ،
میں نے ایسے انسان کو مارا جس کے ماں باپ سب سے افضل ہیں
اور نسب کے اعتبار سے بہتر ہے۔
خواتین و بچے یزید کے دربار میں
حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کے بچے ، افراد خانہ یزید کے دربار میں پہنچے تو درباریوں نے فتح کی مبارکباد دی۔ دربار میں سے ایک شخص نے جرات کر کے ایک لڑکی کی طرف اشارہ کر کے کہا کہ امیر المومنین یہ مجھے دے دو یہ سن کر زینب بن علی رضی اللہ عنہ نے کہا اللہ کی قسم یہ نہیں ہو سکتا کہ بجز اس کے یزید دین الٰہی سے نکل جائے۔ جب دوبارہ اس شخص نے کہا تو یزید نے اس کو ڈانٹا اور ان سب کو اپنے محل میں بھیج دیا۔
اھل بیت کی مدینہ روانگی
یزید نے سب کو تیار کرا کر مدینہ روانہ کر دیا۔ جب یہ مظلوم قافلہ مدینہ پہنچا تو خاندان عبدالمطلب کی ایک خاتون روتی ہوئی آئی اور یہ اشعار پڑھتی تھی۔
ترجمہ،
اگر پیغمبر علیہ السلام نے پوچھا تو کیا جواب دو گے کہ تم آخری امت ہو کر میری وفات کے بعد میرے گھرانے کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ ان میں کچھ قیدی ہیں اور کچھ خون میں لتھڑے ہوئے ہیں۔ میں زندگی بھر جو تمہیں نصیحت کرتا رہا تو اس کی یہ جزا نہ تھی کہ تم میرے رشتہ داروں سے ایسا سلوک کرتے۔
محرم الحرام میں تمام مسلمانوں کو اخوت و بھائی چارہ کا مظاہرہ کرنا چاہئے اور ملک و ملت کی حفاظت و بقا اور قیام امن کے لئے تقریر و تحریر میں تحقیقی و علمی ، مثبت اور مہذب انداز اختیار کرنا چاہئے۔
یہی مقصود فطرت ہے یہی رمز مسلمانی
اخوت کی جہانگیری محبت کی فراوانی
اللہ تبارک وتعالیٰ کربلا والوں کے صدقے میں ہماری لغزشوں کو معاف فرما ئے، اور ہمیں ان کے صدقے میں دین اسلام پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کی سعادت نصیب فرمادے۔
ہم اس قابل بھی نہیں کہ تجھ سے کچھ مانگ سکیں،،،،،،،
بس یہی دعا ہے تو ہم سے راضی ہو جا،،،،،
********************************
No comments:
Post a Comment