نوشی گیلانی 1

باب دوم

 نوشی گیلانی

مختصر تعارف


نوشی گیلانی کا شمار پاکستان کی مقبول ترین شاعرات میں ہوتا ہے۔نوشی کا اصل نام نشاط مسعود ہے۔ وہ 14 مارچ 1964  میں پاکستان کے شہر بہاولپور کے ایک علمی و ادبی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کے والد ڈاکٹر تھے۔ نوشی نے اپنی تعلیم بہاولپور میں ہی مکمل کی۔ انہیں بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ ان کا پہلا مجموعہ محبتیں جب شمار کرنا ۸۰ کی دہائی میں منظرِ عام پرآیااوراسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی۔ ۱۹۹۵ میں نوشی کی شادی فاروق طراز کے ساتھ ہوئی اور وہ امریکہ چلی گئیں۔مگرکچھ عرصے بعد اُن سے علیحدگی ہو گئی۔نوشی اسلامیہ یونیورسٹی بہالپور میں اردو کی اُستاد کی حیثیت سے کام کرتی رہیں۔ ۱۹۹۸ میں نوشی کا دوسرا مجموعہ اداس ہونے کے دن نہیں منظرِ عام پر آیا۔اکتوبر ۲۰۰۸ میں نوشی سڈنی میں مقیم ایک شاعر سعید خان کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئی ہیں۔

نوشی کی شاعری کا محرک اُن کے خواب اور خواہشات ہیں۔ بہاولپورجیسے قدامت پسند شہر میں ایک لڑکی کا کھلے عام اپنی خواہشات کا اعلان کرنا کسی جرم سے کم نہیں تھا۔ اس جرم کی سزا تہمتوں کی صورت میں شہرِ ستمگر کی دیواروں پر لکھی نظرآئیں۔ مگر نوشی اپنی راہ پر چلتی رہیں۔

کچھ نہیں چاہیئے تجھ سے اے مری عمرِ رواں

مرا بچپن مرے جگنو مری گڑیا لا دے

مرا شعور بہلتا نہیں ہے لفظوں سے

میں تیرے خط کے نہیں تیرے انتظار میں ہوں

عجیب خواہش ہے شہر والوں سے چھپ چھپا کر کتاب لکھوں

تمہارے نام اپنی زندگی کی کتاب کا انتساب لکھوں

جس کی آنکھیں مجھے اندر سے بھی پڑھ سکتی ہیں

کوئی چہرہ تو میرے شہر میں ایسا لا دے

نوشی کی شاعری میں معاشرتی ناہمواریوں کے خلاف آواز بھی سنائی دیتی ہے۔ وہ اپنے ذاتی غم کے ساتھ ساتھ کہیں کہیں غمِ دوراں کو بھی قلمبند کرتی ہیں

قیادتوں کے جنوں میں جن کے قدم لہو رنگے ہوئے ہیں

یہ میرے بس میں نہیں ہے لوگو کہ اُن کو عزت مآب لکھوں

چھتوں سے دھوپ تو رکتی ہے بھوک ٹلتی نہیں

تلاشِ رزق میں گھر سے نکلنا پڑتا ہے

پھر امیرِ شہر تھا اور مخبروں کی بھیڑ تھی

پھر امیرِ شہر خلقت سے جدا ہوتا گیا

نوشی نے بہت سی خوبصورت اور سحر آگیں نظمیں بھی کہیں ہیں۔ اُن کی نظموں میں تتلیاں ، جگنو، خواب اور ہواباربارایک نئے رنگ میں نظر آتے ہیں۔ ان کی نظموں میں نادیدہ سفر کی حد ، سمجھوتہ، اعتراف، کشف، کیا ملا محبت سے ، تتلیاں پکڑنے کو بہت مقبول ہیں۔

تصانیف

محبتیں جب شمار کرنا  (1973)

اُداس ہونے کے دن نہیں  (1977)

پہلا لفظ محبّت لکھا  (2003)

اے میرے شریکِ رسالِ جان

ہم تیرا انتظار کرتے رہے


ان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا گیا اور ان کی شاعری برطانیہ میں بھی پڑھی گئی. انہوں نے لوک گلوکار “پٹھانے خان” کو خراج تحسین پیش کیا.

نوشی گیلانی 1995 میں سان فرانسسکو میں قیام پذیر ہوئی لیکن سعید خان سے شادی کے بعد انہوں نے آسٹریلیا جانے کا فیصلہ کیا. انہوں نے 25 اکتوبر 2008 میں سعید خان سے شادی کی جو کہ آسٹریلیا کے رہنے والے اُردو شاعر ہیں اور حال میں وہ سڈنی-آسٹیلیا میں رہ رہے ہیں.


وہ نوجوان خواتین اُردو شاعروں کی اہم رکن ہیں. آپ نے شاعری کے میدان میں بہت اعلٰی کام کیا ہے اور ان کی شاعری نوجوان طبقے میں بہت پسند کی جاتی ہیں۔

****************************************

بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے

بہت تاریک صحرا ہو گیا ہے

ہَوا کا شور گہرا ہو گیا ہے


کسی کے لمس کا یہ معجزہ ہے

بدن سارا سنہرا ہو گیا ہے


یہ دل دیکھوں کہ جس کے چار جانب

تری یادوں کا پہرہ ہو گیا ہے


وُہی ہے خال و خد میں روشنی سی

پہ تِل آنکھوں کا گہرا ہو گیا ہے


کبھی اس شخص کو دیکھا ہے تم نے

محّبت سے سنہرا ہو گیا ہے

****************************************



محبتیں جب شمار کرنا تو سازشیں بھی شمار کرنا 

 جو میرے حصے میں آئی ہیں وہ اذیتیں بھی شمار کرنا

جلائے رکھوں گی صبح تک میں تمہارے رستوں میں اپنی آنکھیں 

 مگر کہیں ضبط ٹوٹ جائے تو بارشیں بھی شمار کرنا

جو حرف لوحِ وفا پہ لکھے ہوئے ہیں ان کو بھی دیکھ لینا 

 جو رائیگاں ہو گئیں وہ ساری عبارتیں بھی شمار کرنا

یہ سردیوں کا اداس موسم کہ دھڑکنیں برف ہو گئی ہیں 

 جب ان کی یخ بستگی پرکھنا تمازتیں بھی شمار کرنا

تم اپنی مجبوریوں کے قصے ضرور لکھنا وضاحتوں سے 

 جو میری آنکھوں میں جل بجھی ہیں وہ خواہشیں بھی شمار کرنا

************************************


مَیں بد دُعا تو نہیں دے رہی ہُوں اُس کو مگر


دُعا یہی ہے اُسے مُجھ سا اب کوئی نہ مِلے


 ***********************************

ورثہ

بیٹیاں بھی تو ماؤں جیسی ہوتی ہیں

ضبطِ کے زرد آنچل میں اپنے

سارے درد چُھپا لیتی ہیں

روتے روتے ہنس پڑتی ہیں

ہنستے ہنستے دل ہی دل ہی رو لیتی ہیں

خوشی کی خواہش کرتے کرتے

خواب اور خاک میں اَٹ جاتی ہیں

سو حصّوں میں بٹ جاتی ہیں

گھر کے دروازے پر بیٹھے

اُمیدوں کے ریشم بنتے ۔۔۔۔  ساری عُمر گنوا دیتی ہیں

میں جو گئے دنوں میں

ماں کی خوش فہمی پہ ہنس دیتی تھی

اب خود بھی تو

عُمر کی گرتی دیواروں سے ٹیک لگا ئے

فصل خوشی کی بوتی ہوں

اور خوش فہمی کا ٹ رہی ہوں

جانے کیسی رسم ہے یہ بھی

ماں کیوں بیٹی کو ورثے میں

اپنا مقدّر دے دیتی ہے

*************************************

بس اپنے ساتھ رہنا چاہتی ہوں

میں اب تجھ سے مُکرنا چاہتی ہوں

میں اپنی عُمر کے سارے اثاثے

نئے ڈھب سے برتنا چاہتی ہوں

یہ دل پھر تیری خواہش کر رہا ہے

مگر میں دُکھ سے بچنا چاہتی ہوں

کوئی حرفِ وفا ناں حرفِ سادہ

میں خاموشی کو سُننا چاہتی ہوں

میں بچپن کے کِسی لمحے میں رُک کر

کوئی جُگنو پکڑنا چاہتی ہوں

****************************************


نا دیدہ رفاقت میں

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا

سوچا تھا تیرے لب پر

کُچھ حرف دُعاؤں کے

کُچھ پھُول وفاؤں کے

مہکیں گی مِری خاطر

کُچھ بھی تو نہیں ویسا

جیسا تجھے سوچا تھا

محسوس یہ ہوتا ہے

دُکھ جھیلے تھے جو اَب تک

بے نام مسافت میں

لکھنے کی محبّت میں

پڑھنے کی ضرورت میں

بے سُور ریاضت تھی

بے فیض عبادت تھی

جو خواب بھی دیکھے تھے

ان جاگتی آنکھوں نے

سب خام خیالی تھی

پھر بھی تجھے پانے کی

دل کسی گوشے میں

خواہش تو بچا لی تھی

لیکن تجھے پاکر بھی

اور خود کو گنوا کر بھی

اس حبس کے موسم کی کھڑکی سے ہوا آئی

نہ پھول سے خُوشبو کی کوئی بھی صدا آئی

اب نیند ہے آنکھوں میں

ناں دل میں وہ پہلی سی تازہ سخن آرائی

ناں لفظ مِرے نکلے

ناں حرف و معافی کی دانش مِرے کام آئی

نادیدہ رفاقت میں

جتنی بھی اذیت تھی

سب میرے ہی نام آئی

کچھ بھی تو نہیں ویسا جیسا تجھے سوچا تھا

جتنا تجھے چاہا تھا

*************************************

اتنے سچّے کیوں ہوتے ہیں

سچّے اچھّے کیوں ہوتے ہیں

**************************************


No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...