کامیابی کی شاہراہ۔۔ باب چہارم

.
                                                            **اپنے مقصد کو واضح کیجئے**

 اپنے مقصد حیات کو سمجھیے اسے واضح کیجئے کہ آپ کرنا کیا چاہتے ہیں 

کیسے کرنا چاہتے ہیں ؟؟

 اور کیو ں کرنا  چاہتے ہیں؟؟

جب تک مقصد حیات واضح نہیں ہوگا آپ کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔۔ جب تک آپ کا مقصد واضح نہیں ہو گا اور دوسروں کی تقلید بغیر سوچے سمجھے کرتے رہیں گے تو یقین جانئے ناکامی کے سوا آپ کو کچھ حاصل نہیں ہوگا۔۔۔
کائنات کے اتنے بڑے اور عظیم تخلیق کار نے جب کائنات بنائی تو اس نے بھی تخلیق کے مقصد کو اپنے بندوں کے آگے واضح کردیا۔۔۔

دنیا کا یہ نظام ایک مقصد کے تحت چل رہا ہے سب اپنے اپنے دائرہ کار میں کام میں مصروف ہیں۔۔۔ آپ بھی اپنے مقصد کو واضح کیجئے۔۔۔۔ اس کے حصول کے لیے کوشاں ہو جائیں۔۔۔ بغیر مقصد کے زندگی جینا کسی عذاب سے کم نہیں ہے۔۔۔ جب مقصد سامنے ہوگا تو زندگی میں رنگ ہونگے اور زندگی خوبصورت لگنے لگے گی۔۔۔ جب زندگی خوبصورت لگنے لگے گی تو دل سے اللہ کا شکر ادا ہوگا۔۔۔ آپ کو اپنے آپ پر فخر ہوگا کہ سارے جہانوں کے پالنہار نے آپ کو بہت صلاحیتوں اور نعمتوں سے نوازا ہے۔۔ آپ کو تو بس اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔۔۔ اٹھئے اور اپنے حصے کا کام کیجیے۔۔۔ قدرت کی مخفی طاقتیں آپ کی مدد کریں گی۔۔۔۔

۔ہم سب لوگوں کے خواب ہوتے ہیں خواہشات ہوتی ہیں مگر ہم میں ایسے لوگ بہت کم ہوتے ہیں جن کے مقاصد ہوتے ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اپنے مقصد کو واضح طور پر اپنے سامنے رکھو،،،،،
 با مقصدزندگی گزارنے کے کچھ اصول ہیں کامیابی حاصل کرنے کے چند گر ہوتے کچھ رویے ہیں جو بالآخر کامیابی کی ضمانت بن جاتے ہیں۔ 

کامیاب لوگوں کا اور کامیابیاں حاصل کرنے کا

 ایک ہی موٹو ہے کہ،،،،،،'' زندگی سے جو کچھ بھی حاصل کر سکتے ہو کرلو ''

امید کا دامن کبھی ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔۔۔  تاریک ترین راستوں پر بھی آپ کے پاس امید کا ننھا سا جگنو لازمی ہونا چاہیے۔۔۔ اور اللہ کی رحمت سے ناامید ہونا کفر کی نشانی ہے یہ مسلمان کی خوش نصیبی ہے کہ اس کے رب نے اسے مایوس نہ ہونے اور دامنِ امید تھامنے کی نصیحت فرمائی ہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔۔۔ اللہ کی رحمت سے تو کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔۔۔
مزید اپنے پیغمبر کی زبان سے بندوں کو بشارت دی گئی۔۔۔
"اے رسول ان سے فرما دیجئے اللہ کی رحمت اس کے بندوں سے بہت قریب ہے ,,, اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں"
آپ جانتے ہیں مقصد کی لگن انسان کو کیسے کامیاب کرتی ہے۔۔۔ جذبہ سچا ہو تو کائناتی طاقتیں انسان کی مدد کرتی ہیں۔ فطرت انسان کا جذبہ دیکھتی ہے وہ یہ نہیں دیکھتی کہ آپ مسلمان ہو یا نہیں۔۔۔ آپ کا مقصد اچھا ہے یا برا۔
جو بھی انسان اپنے مقصد کے حصول کے لیے تن من دھن کی بازی لگا دے گا مخفی طاقتیں اور قوتیں اس کی مدد کرتی ہیں وہ اپنی منزل پالیتا ہے۔۔۔


                 
                     

                                       Dave Thomas

 جب آٹھ برس کا تھا تو اس نے ایک ریسٹورنٹ کا مالک ہونے کا خواب دیکھا یہ اس کی زندگی کا مقصد تھا وہ یتیم تھا اس نے غربت دیکھی تھی بھوک سے آشنا تھا ریسٹورنٹ کا مالک ہونے کا مقصد اس لیے سامنے رکھا گیا تھا کہ وہ بھوکا نہیں رہنا چاہتا تھا۔ اس نے ایک پرسکون اور محبت بھرے ماحول میں پرورش نہیں پائی تھی وہ تعلیم میں بھی کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں کرسکا تھا لیکن وہ اپنے مقصد کے ساتھ چپک گیا جب وہ بارہ برس کا تھا کہ ایک ریسٹورنٹ میں بطور کائونٹر مین ملازم ہوگیا پھر آہستہ آہستہ ترقی کرتے کرتے ایک ریسٹورنٹ کا منیجر بن گیا اس کا مقصد اس کے سامنے تھا اس کے سامنے سے رکاوٹیں دورہوتی چلی گئیں اور پھر وہ ایک بہت بڑے فائیو سٹار ہوٹل کا چیف ایگزیکٹیوبن گیا اور پھر بالآخر اس نے اتنا سرمایہ بنا لیا کہ اپنا ذاتی ریسٹورنٹ خرید سکے آج وہ تین ہزار آٹھ سوریسٹورنٹس کا مالک ہے یہ بات ذہن میں رہے کہ ریسٹورنٹ کا مالک بننا اس کی خواہش نہیں بلکہ مقصد تھا بسا اوقات لوگ اپنے لیے مشکل ہدف مقرر کرتے ہیں اور پھر مایوس ہوکر اسے چھوڑ دیتے ہیں ہدف مقرر کرتے ہوئے اس بات کا خاص طور پر خیال رکھنا چاہیے کہ وہ آپ کی صلاحیتوں ،آپ کے ذہنی رجحان سے مطابقت رکھتا ہو اور اس کا حصول ممکن ہو !پچاس برس کی عمر میں ڈبل سنچری سکور کرنا ایک کرکٹر کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر مقصد نہیں !اگر اپنے مقصد کو کسی کاغذ پر لکھ لیا جائے تو ارادوں میں پختگی آجاتی ہے منزل سامنے نظر آنے لگتی ہے پھر اس کے حصول کے لیے ایک منصوبے کا ہونا بہت ضروری ہے اس کے بعد مستقل مزاجی کے ساتھ ایک ایک قدم آگے بڑھا جاتا ہے ۔یاد رکھیے ہتھیلی پر سرسوں کبھی بھی نہیں جما کرتی حقیقی زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت پڑتی ہے۔

ابرہیم لنکن غریب انسان تھا وہ اپنی کتابوں کے شوق کے لئے گاڑیاں صاف کرتا۔ گھاس کاٹتا اور اپنا شوق پورا کرتا ایک مرتبہ جب ابراہم لنکن سے اس کے ٹیچر نے اس کی زندگی کا مقصد پوچھا تو اس نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے کہا تھا 

"میں امریکہ کا صدر بننا چاہتا ہوں " 


کلاس کے دوسرے بچے اس کی بات سن کر ہنس پڑے تھے دراصل امریکی صدر بننا اس کی خواہش نہیں تھی بلکہ اس کی زندگی کا مقصد تھا اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پھر وہ ساری زندگی انہی خطوط پر کام کرتا رہا جو اسے امریکہ کی کرسی صدارت کے قریب لے جاسکتے تھے۔ وہ پے درپے بہت سے انتخابات ہارتا چلا گیا لیکن وہ دھن کا پکا تھا وہ مایوس نہیں ہوا بلکہ ہر ناکامی اس کے ارادوں کو مزید مضبوط کرتی چلی گئی اور پھر ایک دن وہ صدارتی انتخابات میں اپنے حریف کو شکست دے کر امریکہ کا صدر بن گیا۔۔۔۔



 ''اپنے لیے اہداف مقرر کرو اور پھر انہیں حاصل کرنے کے لیے تن من دھن دائو پر لگادو'



'ہم میں سے بہت سے لوگ زندگی کو ایک تماشائی کے طور پر دیکھتے اور گزارتے ہیں جب انسان اپنے مقرر کیے ہوئے اہداف کی تکمیل میں لگ جاتا ہے تو پھر وہ تماشائی نہیں رہتا بلکہ زندگی کے وسیع سمندر میں چھلانگ لگا کر اس میں شامل ہوجاتا ہے


**ایک کہانی جو شاید آپ کی مدد کر سکے**

دور دور تک کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ، ہر طرف اِس سیاہ رات میں ویرانی کا سا بسیرا لگ رہا تھا ، چراغ نے اپنی پرواز نیچی کر دی تا کہ اندازہ لگا سکے کہ یہاں اداسی اور مایوسی کا ڈیرہ کیوں ہے لیکن اُسے چند سسکیوں اور آہوں کے سواکچھ سُنائی نہ دیا لیکن کچھ ہی دور اُسے ایک گھر کی با لائی منزل پر روشنی کے آثارلگے ، ایک کھلی کھڑکی میں اُسے ایک ٹمٹماتا ہوا دیا نظر آیا ۔اب تیز ہوا چلنے لگی تھی وہ تیزی سے اُڑتا ہوا کھڑکی کے پاس پہنچا ، اِس سے پہلے کہ وہ دیا تیز ہوا کے آگے ٹھہر سکتا چراغ نے جلدی سے کھڑکی بند کی اور خود بھی اندر جا مو جود ہوا ،چراغ ہوا میں معلق جیسے ہی دوسری طرف مڑا ایک نو جوان لڑکا مبہوت انداز میں کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا ، اِس سے پہلے کہ وہ ڈر کر بھاگتا چراغ زمین پر آموجود ہوا نوجوان کے چہرے پر پریشا نی میں اُٹھنے والے سوالات سے پہلے ہی وہ بولا ، میرا نام چراغ ہے میں اِس دُنیا میں علم حاصل کرنے کی غرض سے آیا ہوں مجھے اپنا دوست ہی سمجھو اب دوسری طرف کھڑا لڑکا جس کا نام ایلی تھا پُر سکون ہو چکا تھا چراغ نے بتانا شروع کیا ،دوست مجھے جہاں سے علم کی خوشبو آتی ہے میں وہاں پہنچ جاتا ہوں تمہاری کھلی کھڑکی میں سے بھی جب مجھے دیا اور کتاب میز پر پڑی نظر آئی تو میں ادھر چلا آیا ۔ تھوڑی دیر میں دونوں میں کا فی اپنائیت ہو چکی تھی ۔باتوں باتوں میں ایلی نے چراغ سے پو چھا ،پھر تو تم میری کا لج کے امتحانات میں ضرور مدد کر سکتے ہو گے ، چراغ اپناسر پکڑ کر بو لا، سارے سٹوڈنٹس مجھ سے ایسی ہی مدد کی توقع کرتے ہیں ، میں تمہارے کالج کے امتحانات کی بجائے زندگی میں کامیابی کے بارے تمہاری بھر پور مدد کر سکتا ہوں۔ ایلی نے چراغ کی طرف ایسے دیکھا جیسے کہہ رہا ہو اچھے جادو کے چراغ بنے پھرتے ہو۔ چراغ کہنے لگا کچھ میں تم سے سیکھوں گا اور کچھ تم مجھے سکھاؤ گے اور ایلی نے ہاں میں سر ہلا دیا اور بولا اچھا اس لوڈشیڈنگ کے اند ھیرے سے نجات دِلا دو ، چراغ مسکرایا اور کہا ضرور اِسے بھی اور زندگی میں پھیلے دوسرے اند ھیروں سے بھی نجات ملے گی اگر تم اپنی زندگی کا کوئی ایک مقصد بنا لو۔

وہ کیسے؟ ایلی بو لا، میں تمہیں سمجھاتا ہوں ،تو سنو اب چراغ بولنے لگا فرانس کے سولہویں با دشاہ لوئس کواس کے محل سے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا اور اِس کے بیٹے پرنس لوئس کو جیل میں ڈالنے کی بجائے وہ لوگ اپنے ساتھ لے گئے ۔ اِن لوگو ں کا خیال تھا کہ کِنگ لوئس کی با قیات اور اثرات کو لوگوں کے ذہنوں سے مکمل طور پر مٹانے کے لئے کیوں نہ اِس کو اخلاقی طور پر تباہ کیا جائے اِس منصوبے پر عمل کرنے کے لیئے اِن لوگوں نے پرنس لوئس کو مقامی جگہ سے دور ایک بستی میں لے جا نے کا منصوبہ بنایا ۔ وہاں پر اِن لوگوں نے شہزادے پرہر چیز اِس اندازمیں نچھاور کرنی شروع کر دی جو ایک زندگی انسان کو دے سکتی تھی۔ اُنہوں نے تو اُس کو ایسی ایسی شراب اور کھانوں کی طرف راغب کیا جن کے بغیر شہزادہ زندہ رہنے کا تصور بھی نہ کر سکے۔ شہزادے کو ہر وقت حسین وجمیل عورتوں کے جھر مٹ میں رکھا جا تا جو رقص و سرود غرض ہر انداز سے شہزادے کا دِل لبھانے کی بھر پور کو شش کر تیں ، شہزادے کے ارد گرد ایسا با زاری ماحول پیدا کیا گیا جس میں ایسی ناشا ئستہ زبان ہر وقت استعما ل کی جاتی جو انسان کی ذ ہنی پسما ندگی کا سامان بنتی۔ غرض دِن رات کے چوبیس گھنٹے شہزادے کے اطراف عیاشی کا سامان سجا رہتا ۔

اُنہوں نے ہر وہ ممکن کو شش کر کے دیکھ لی جس سے کسی انسان کی روح کو مکمل طور پر تباہ کیا جا سکتا تھا ۔ اُنہوں نے ایک سال تک شہزا دے کو اس خاص ما حول میں رکھ کر اس کا عادی بنانے کی کو شش کی لیکن کا میاب نہ ہو سکے آخر کار اُنہوں نے شہزادے سے پوچھا کہ اس حد درجہ اخلاقی گراوٹ والے ماحول میں رہنے کے باوجود جس میں عیاشی کا ہر سامان موجود تھا تمہیں کس چیزنے اس طرف راغب ہونے سے روکے رکھا ،اُس وقت شہزادے نے تاریخی جملہ بولا کہ ۔\" میں ان چیزوں کا غلام بننے کے لئے نہں بلکہ عظیم بادشاہ بننے کے لیئے پیدا ہوا ہوں \"اسی طرح تمہاری قوم کے نو جوانوں کے بارے میں جو کچھ میرے علم میں ہے کہ کچھ خاص طاقتیں ایک منظم اوربھر پور انداز میں نوجوان نسل کو اخلاقی اور علمی طورپر تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہیں ۔ یہ نوجوان اپنی مخصوص روایات کو بھول کر عیاشی اور فریب کے سنہرے جال میں غیر محسوس طریقے سے پھنستے جا رہے ہیں جہاں سے واپسی کا راستہ نسلوں تک معدوم ہو سکتا ہے ۔یہ نوجوان دورِ جدید کی سہولیات سے بہتر انداز میں فائدہ اُٹھانے کی بجائے اِنکو تفریح اور وہ بھی بالکل غلط سمت میں استعما ل کر رہے ہیں۔ چوبیس گھنٹے سوشل گیدرنگ، مارکیٹس ،ٹی وی لاؤنج اور انٹرنیٹ پر بیٹھے وقت برباد کرنے میں مگن رہتے ہیں۔ ایلی خاموشی سے چراغ کی با تیں سُن رہا تھا ۔

بولا، ہاں لگتا تو ایسے ہی ہے ، جیسے کچھ قوتیں ہماری نوجوان نسل کو ایک لیڈر کی غیر موجودگی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایسے علاقے میں لے آئی ہیں جہاں پر اُن کو تباہی کا آسانی سے مِلنے والا ہر سامان مہیا کر دیا گیا ہو تاکہ اپنی تقدیر کا گلا اپنے ہاتھو ں سے گھونٹ سکیں ۔ چراغ کہنے لگا دراصل کچھ لوگ خواہشات کے غلام بن کر جیتے ہیں اور کچھ لوگ مقصد کے تحت جیتے ہیں۔پرنس لوئس نے بھی خواہشات کا غلام بننے کے بجائے مقصد کے تحت جینے کو ترجیح دی تھی اس دنیا میں رہنے کا مقصد تلاش کرنا ہی تو اصل مشن ہے۔تمہیں تو پتہ ہے مجھے جہاں سے اچھی بات ملتی ہے میں وہاں سے پلک جھپکتے ہی آ جاتا ہوں تُمہاری دُنیا میں جب فون کے بعد Answering Machine کا تعارف ہوا تو اِس وقت کے ایک کامیاب بزنس مین نے کہا تھا کہ یہ مشین صرف دو سوالات پوچھنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ایک 

             Who Are you

 اور دوسرا 

               What Do You Want 

لیکن زیادہ تر لوگ اپنی زند گی ان میں سے ایک بھی سوال کا جواب دئیے بغیر گزار دیتے ہیں ۔

تمہاری ہی دُنیا میں کیاایک

                          Human Development 

کے مشہور فلا سفر 

                          Earl Nightengale

 نے اس طرح سمجھایا کہ انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ خوش قسمت لوگ ہوتے ہیں جن کو 
(Goal People)
کہا جا سکتا ہے جو ا س دُنیا میں واضح مقصد لے کر پیدا ہوتے ہیں بچپن سے ہی وہ جا نتے ہیں کہ ان کی زندگی کا کیا مقصد ہوتا ہے اور اُنہوں نے اس زندگی سے کیا حاصل کرنا ہے اور اسے کیسے گزارنا ہے
وہ اپنے آپ کو پیدا ہوتے وقت سے ہی مواقع سے بھرپور زندگی کے سمندر کے بالکل عین وسط میں موجود پاتے ہیں اوراس وسیع مواقع کے سمندر میں تیرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتے ہیں۔دوسرے ہم جیسے لوگ ہوتے ہیں 
جنہیں (Wish People)کہا جاسکتا ہے جو مواقع اور مقصد اپنے ساتھ لے کر پیدا نہیں ہوتے،وہ اپنے مقصد(Goal)کو حاصل کرنے کی خواہش کر سکتے ہیں،اُنہیں اپنی قسمت کو خود بنانا پڑتا ہے،اپنا مقصد خود واضح کرنا پڑتا ہے اور ستم ظریفی یہ کہ دوسری قسم کے لوگ اپنی زندگی کے مقصد کی تلاش کو اہمیت نہیں دیتے کہ اُنہیں اِس سے کیا حاصل کرنا ہے۔بلکہ دوسری غیر ضروری چیزوں کو اہمیت دینے میں مگن ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زندگی بھر اِدھر اُدھر بھٹکتے گزار دیتے ہیں۔

جس دن اُنہوں نے اپنا دنیا میں رہنے کا مقصد تلاش کر لیا اُن کی بے معنی زندگی کو ایک نام مل جائے گا۔اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کی زندگی کا مقصد کتنا بڑا یا چھوٹا ہے۔فرق یہ پڑتا ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئی نہ کوئی ایک واضح مقصد ہو اور یہ واضح کرنا صرف اور صرف آپ کا کام ہے۔

اب ایک Magicکی بات ،جس دن آپ نے اپنے دماغ میں کوئی ایک مقصد واضح کر لیا اسی لمحے تم دیکھو گے کہ تمہاری زندگی کی ہر چیزاپنی اپنی جگہ پر خود بخود آجائے گی اور اس کے گرد گھومنے لگے گی۔ایلی بولا ہم اپنے 
مقصد کو واضح کیسے کریں؟چراغ مسکرایا اور بولا بالکل آسان ہے۔

تم اِس چیز سے شروع کرو جو تمہیں سب سے زیادہ پسند ہوکوئی بھی شخص ایسا نہیں ہو گا جسے کچھ ناکچھ پسند نہ ہوجسے وہ اپنی زندگی میں حاصل کرنا چاہتا ہو۔ہوتا یوں ہے کہ جو چیز یا کام ہمیں پسند ہوتا ہے وہ ہمیں بالکل اہم نہیں لگ رہا ہوتا ہم اِدھر اُدھر کی مختلف چیزوں کی طرف دیکھنے اور اُس کو حاصل کرنے کے لالچ میں وقت گزار دیتے ہیں۔حالانکہ وہ چیز ہماری ناک کے بالکل نیچے موجود ہوتی ہے۔جب آپ یہ بات بخوبی جان جاتے ہیں تو کامیابی کے دروازے آپ پر خود بخود کھلنے شروع ہو جاتے ہیں۔ایلی کے چہرے سے لگ رہا تھا کہ چراغ کی باتوں سے اُس کے بھی ذہن کے بند دروازے کھلنے شروع ہو گئے تھے اور وہ یہی سوچ کر خوش ہو رہا تھا کہ اُسے چراغ جیسا دوست مِل گیا تھا جِس کے ساتھ مل کر زندگی کی کامیابی کی منزلیں طے کرنے میں بخوبی مدد مِلے گی۔
وطن عزیز کے کروڑوں جوانوں سے صرف یہ پوچھنا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد کیا ہے ؟ انہوں نے اپنے لیے کون سا ہدف مقرر کررکھا ہے ؟ اپنے مقصد کے حصول کے لیے کتنی سنجیدگی سے کام کررہے ہیں؟
اگر آپ اپنے مقصد کے حصول میں مخلص ہیں اور جدوجہد کر رہے ہیں اور اپنے لئے راستے بنارہے ہیں تو یقین جانئے منزل پر پہنچنے سے آپ کو کوئی نہیں روک سکتا،،، منزل پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے کارواں کو روا دواں رکھئے کیونکہ پر عزم لوگ کبھی رکتے نہیں،،، کبھی تھکتے نہیں،،، ان کی جدوجہد موت کے ساتھ ہی ختم ہوتی ہے،،، اور ایسے لوگ نہ صرف ایک پرسکون زندگی گزارتے ہیں بلکہ پرسکون موت بھی مرتے ہیں،،،، انہی لوگوں کے لیے کہا گیا ہے،،،




اے نفس مطمئنہ۔۔۔۔!!! اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جا،،،، اور آرام کر،،،،

مقصد اور منصوبہ بندی لازم و ملزوم ہیں۔توجہ ، محنت ،مستقل مزاجی اوردیا نت داری اس دریا سے نکلنے والی چھوٹی چھوٹی ندیاں ہیں جو مسافر کو اپنی منزل تک پہنچانے میں معاون و مددگار ثابت ہوتی ہیں
*****************************

No comments:

Post a Comment

کامیابی آپ کی منتظر ہے

اگر تم کامیابی و کامرانی چاہتے ہو۔۔۔ زندگی میں خوشحالی چاہتے ہو۔۔۔ امن سکون چاہتے ہو۔۔۔ تو اپنے آپ کو۔۔۔ اپنے رب سے جوڑ لو۔۔۔ جو رب سے جڑ گی...